Sunday 13 March 2011


ٹیپو سلطان
ٹیپو سلطان ''شیرکی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے بہتر ہے'' کہہ کر وطن پر نثار ہو گیا۔

4 مئی 1799ء ہماری تاریخ کی وہ المناک تاریخ ہے جب برصغیر پاک و ہند کا ایک غیرت مند سپوت اپنے وطن پر یہ کہہ کر نثار ہوگیا کہ شیرکی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ یہ الفاظ جریدہ عالم پر ثبت ہوچکے ہیں اور ان الفاظ کا ادا کرنے والا مر کرامر ہوچکا ہے۔ دنیا اسے ٹیپو سلطان کے نام سے جانتی ہے۔ آج ملت اسلامیہ کو پھر ٹیپو سلطان کی ضرورت ہے۔ اس غرض سے اس بطل جلیل کے بارے میں بنیادی معلومات نچلی سطور میں درج کی جارہی ہیں۔ آج پھر کسی کو کسی کا امتحاں مقصود ہے۔

ٹیپو کی والدہ کا نام فاطمہ اور والد کا نام حیدر علی تھا۔ سلطان حیدر علی کو قدرت نے جنوبی ہندوستان میں ایک وسیع و عریض سلطنت سے نوازا تھا لیکن وہ سلطنت کے وارث سے محروم تھے۔ اس سلطنت میں آج کا بنگلور بھی شامل تھا جو بھارت میں جدید ٹیکنالوجی کا مرکز ہونے کے ناطے عالمی شہرت رکھتا ہے۔

روایت ہے کہ حیدر علی نے جنوبی ہندوستان کے شہر اوکاٹ میں ایک مشہور ولی ٹیپو مستان کے مزار پر حاضری کے دوران اللہ سے بیٹے کی دعامانگی اور جب 10نومبر 1750ء کو بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام ٹیپو رکھا۔ ٹیپو کے دادا کا نام فتح محمد تھا۔ ٹیپو نے اپنے ایک بیٹے کا نام فتح حیدر رکھا جو ٹیپو کے باپ اور دادا کے ناموں کا امتزاج تھا۔ خود ٹیپو کا نام ''فتح علی خان'' مشہور ہوا جس کا پہلا لفظ ان کے دادا کا نام اور دوسرا لفظ باپ کے نام کا آخری لفظ تھا۔ تاہم ان کا پیدائشی نام فتح علی نہیں تھا' اور ٹیپو ان کا لقب نہیں بلکہ پیدائشی نام تھا۔ اپنے بیٹے فتح حیدر کی نسبت سے ان کی کنیت ابوالفتح تھی۔

ٹیپو سلطان سچے مسلمان' عظیم سپاہی اور ہفت زبان تھے۔ ان کے تین پہلوئوں کے مختصر کوائف یہ ہیں۔ وہ ہر وقت باوضو رہتے' نماز فجر کے بعد بلا ناغہ تلاوت قرآن کرتے' مکروہات اور فہمیات سے مکمل اجتناب کرتے' اپنے شاہی فرمان کی پیشانی پر اپنے ہاتھ سے ''بسم اللہ '' لکھتے۔

سلطنت کا سرکاری نام ''سلطنت خداداد میسور'' تھا۔ آخری عمر میں جو پوری 50 برس بھی نہ ہوسکی' پلنگ پر سونا چھوڑ دیا تھا' زمین پر کھدر بچھا کر سوتے۔ ایک سچے مسلمان کی طرح مذہبی تعصب سے پاک تھے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ان کے پورے دور حکومت میں آخر وقت غیر مسلم اعلٰی سول اور فوجی عہدوں پر مامور تھے۔ ایک عظیم سپاہی کی حیثیت سے وہ اپنے دور کے تمام فنون سپہ گری مثلاً شمشیرزنی' تیر اندازی' نیزہ بازی' گھڑ سواری' کشتی اور تیرا کی میں مہارت رکھتے تھے۔

گھڑ سواری اور نیزہ بازی سے خصوصی شغف تھا۔ پالکی سواری کا مذاق اڑاتے تھے۔ ہر جنگ میں اپنی سپاہ کے شانہ بشانہ ہوتے۔ عالموں اور بزرگوں کی قدر کرتے' عربی اور فارسی زبانوں میں خاصی مہارت تھی۔ انگریزی اور فرانسیسی زبانیں بھی سیکھ لی تھیں۔ مقامی بولی ''کنڑی'' سے بخوبی آگاہی تھی۔

اردو جو اس وقت جنوبی ہندوستان میں رائج ہورہی تھی' سے بھی شناسائی تھی سلطنت کی فوج کیلئے جو فوجی ترانے تجویز ہوئے تھے ان میں اردو ترانے بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ سلطان صحیح معنوں میں ایک سٹریجسٹ اور فیلڈ مارشل تھے جس کا ذکر اگلی سطور میں ہے۔

جب سلطان حیدر علی نے کینسر کے مرض میں وفات پائی تو 26 دسمبر 1787ء کو ابوالفتح فتح علی خان ٹیپو سلطان تحت نشین ہوئے۔ اس وقت عمر32 سال تھی اور تین طاقتوں حریفوں کا سامنا تھا۔ اولاً انگریز ثانیا' مرہٹے اور ثالناً دکن کا نظام۔ ٹیپو سلطان کی بصیرت نے ان پر واضح کردیا کہ نہ صرف ان کے بلکہ برصغیر کے اصل دشمن انگریز ہیں اس کیلئے انہوں نے سہ نکاتی سٹریٹجی وضع کی۔ پہلا نکتہ اپنی فوج کو جدید خطوط پر منظم کرنا تھا جس کیلئے انگریزوں کے دشمن ملک فرانس کے ماہر فوجی افسروں کا انتخاب کیاگیا۔

فوج کیلئے ایک کتاب ''فتح المجاہدبن'' کے نام سے لکھوائی جو روشن خیال پاکستان میں لفظ ''مجاہدبن'' کی وجہ سے شاید بحق سرکار ضبط ہوجائے۔ اس کتاب میں نہ صرف وہ سب فوجی اصول اور قاعدے درج تھے جو یورپ میں رائج تھے بلکہ اس میں سلطان کے اپنے وضع کردہ فوجی قواعد بھی شامل تھے فوج کوہر تیس دن بعد باقاعدگی سے تنخواہ دی جاتی ۔ انگریز بحریہ کی سٹریٹجک اہمیت کو بھانپتے ہوئے سلطان نے اپنی بساط کے مطابق میسور کی بحریہ کے قیام اور سلطنت کے مغربی ساحل کی حفاظت پر خصوصی توجہ دی۔

سلطان نے اس شعبے کو جو اہمیت دی اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بحری جہازوں کے نقشے بعض اوقات خود تیار کرتے تھے۔ سمندر میں جہازوں کو مقناطیسی چٹانوں سے بچانے کیلئے جہازوں میں لوہے کی بجائے تانبے کا استعمال ٹیپو کے ذہن رسا کا مرہون منت ہے۔ چار شہروں میں ''تارا منڈل'' کے نام سے اسلحہ ساز کارخانے قائم کئے گئے جن میں اعلی معیار کی توپیں'بندوقیں اور ڈھالیں ڈھالی جاتیں جن میں پہلی بار ایسی ڈھالیں ایجاد کی گئیں جن میں گولی اثر نہیں کرتی تھی۔

حکمت عملی کا دوسرا نکتہ یہ تھا کہ سلطان نے مرہٹوں اور نظام دکن کو جھنجھوڑ کر جگانے کیلئے بار بار بھرپور کوششیں کیں۔ مرہٹوں کو سمجھایا کہ اپنے مشترکہ دشمن کو پہچانیں۔ نظام دکن کو لکھا کہ آپ پر تو میری امداد خصوصی واجب ہے کیونکہ میں مسلمانوں کو تقویت پہنچا رہاہوں۔ مرہٹوں کی سیاست کا مرکزی کردار مشہور مدبر نانا فرنولیس تھا جس طرح 207ء ویں صدی کے وسط میں مشہور ہندو مدبرین کوتاہ نظری' تعصب اور عدم مدبر میں مبتلا رہے اور ہندوستان کا بٹوارا کرکے دم لیا اور جس طرح 21 ویں صدی کے آخر میں ان کے عظیم مدبر' ٹیپو کی نشاندہی کے باوجود اپنی قوم اور اپنے ملک کودرپیش اصل خطرے کے ادراک کی صلاحیت سے محروم رہے۔

رہ گیا نظام دکن تو 21 ویں صدی کے مسلمان حکمرانوں کی طرح 18ویں صدی کے اس مسلمان حکمران نے بھی ہم مذہب ' ہم وطن اور فطری حلیف ٹیپو کی بجائے انگریزوں کے ساتھ متحدہ محاذ بنانے کو ترجیح دی۔ تاریخ کس طرح خود کو دہرا رہی ہے؟ آج بھی مسلمان حکمران جن میں نہ تذکیر وتانیث کی تحصیص ہے اور نہ اس سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ نام ''ب'' سے شروع ہوتا ہے یا ''پ'' سے نظام دکن کی روش پر چل رہے ہیں اور یہ نادان اختلاف رائے رکھنے والوں اور تاریخ پر نظر رکھنے والوں کو نادان سمجھ رہے ہیں۔

حکمت عملی کا تیسرا نکتہ یہ تھا کہ سلطان نے انگریزوں کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کے لئے فرانس' ترکی' ایران اور افغانستان میں خصوصی سفارتی وفود بھیجے جن میں سے ایک کا ذکر دلچسپی کا حامل ہوگا۔ نپولین مصر فتح کرنے کے بعد اس وقت بحر احمر کے ساحل پر خیمہ زن تھا۔ سلطان کے نام نپولین کے 26 جنوری 1799ء کے خط کا ترجمہ درج ذیل ہے ۔ واضح رہے کہ صرف سواتین ماہ بعد سلطان نے شہادت پائی۔

''میرے عزیز ترین دوست جناب ٹیپو!
میں آپ کو انگریزوں کے آہنی شکنجے سے نکلالنے کیلئے ایک عظیم اور ناقابل شکست فوج کے ساتھ بحر احمر کے کنارے موجود ہوں۔ آپ کا سیاسی موقف معلوم کرنے کا دلی آرزو مند ہوں ۔ آپ اپنے کسی معتمد خاص کو جلد از جلد مذاکرات کیلئے سویز روانہ کردیں۔ خدا آپ کی طاقت میں اضافہ اور آپ کے دشمنوں کو برباد کرے۔
نپولین بونا پارٹ

نپولین کو واپس فرانس جانا پڑا کیونکہ انگریز اس کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ چھیڑنے والے تھے۔ اسی دوران لارڈ ولزلی ہند و ستان کا گورنر جنرل ہوکر آیا جس کے سگے بھائی ڈیوک آف ولنگٹن کے ہاتھوں بعد میں نپولین کو شکست فاش ہوئی تھی۔ جس طرح سلطان کے سٹریٹجک ویژن کے مطابق اس برصغیر میں ان کا اصل دشمن ٹیپو سلطان تھا۔ اپریل 1799ء کے آخری ہفتے میں انگریزوں اور نظام دکن کی مشترکہ افواج نے' انگریزجنرل ہیرس کی قیادت میں سرنگاپٹم پر جو دریائے کادیری کے درمیان ایک جزیرے پر واقع ہے فیصلہ کن حملہ کردیا۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ہندومرہٹے تو اس جنگ سے الگ تھلگ رہے۔ لیکن مسلمانوں کے اعلٰی حضرت نظام نے مسلمانوں کے اس مجاہد اعظم کے خلاف''فرنٹ لائن اتحادی'' کا شرمناک کردار ادا کیا۔

مسلمان اپنی تاریخ کے ان واقعات پر جتنے شرمسار ہوں وہ کم ہے لیکن ستم تو یہ ہے کہ اٹھارھویں صدر کے اواخر کی تاریخ اکیسویں صدی میں بھی خود کو دہرائے جارہی ہے۔ ٹیپو سلطان کو کفرودین کے درمیان اس کارزار میں ہماری ترکش کا آخری تیر تھا۔ تن تنہا عیسائیوں اور اپنے ہم مذہبوں کی اس متحدہ فوج کے سامنے شیر کی طرح ڈٹ گیا۔ یہ صحرا کی آخری اذان تھی پھر ڈیڑھ صدی تک سناٹا رہا اور پھر وہی ہوا جو مسلمانوں کی تاریخ میں ہوتا چلا آ رہا تھا۔ مسلمان کہلانے والا نظام دکن تو کھلم کھلا سفید چھڑی والوں کا ''کولیشن پارٹنر'' بن ہی چکا تھا اب سلطان کے اپنے پروردہ وزرا بھی سفید چھڑی والوں سے مل گئے جن میں تین نام نمایاں ہیں۔ میر صادق' قمر الدین اور پورنیا' ننگ دیں' ننگ قوم اور ننگ وطن میر صادق اور جنرل ہیرس کے درمیان خفیہ طور پر یہ طے پایا کہ 4 مئی 1799ء کو دوپہر کے وقت سرنگاپٹم کے قلعے کی فصیل میں بمباری کی وجہ سے پڑھنے والے شگاف ذریعے ہلہ بول دیا جائے۔

سلطان نے اس شگاف کی حفاظت کیلئے وہاں خصوصی فوجی دستے تعینات کئے تھے غدار میر صادق نے دوپہرکا وقت جان بوجھ کر چنا تھا۔ محافظ دستوں کو تنخواہ لینے کے بہانے بلا لیا گیا اور نظام اور انگریز کی متحدہ فوج کسی مقابلے کے بغیر قلعے میں داخل ہوگئی۔

سلطان کے سامنے دوپہر کا کھانا رکھا تھا۔ ابھی ایک لقمہ ہی حلق سے اترا تھا کہ چیخ وپکار سنائی دی۔ پوچھاکہ یہ کیا ہے؟ جب حقیقت سے آگہی ہوئی تو بھوکے شیر نے' جو زمین پر کھدر بچھا کر سوتا تھا' کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ کمر کسی' تلوار باندھی اور جنگ کے شعلوں میں بے خطر کود گیا۔ عقل لب بام' محو تماشا تھی کیونکہ یہ صریح خود کشی تھی جس پر 21 ویں صدی میں فتوے جاری ہورہے تھے۔ بھوکے پیاسے شیر کے جسم پر پہلے ایک گہرا زخم پھول کی طرح کھل گیا۔ اور خون فوارے کے طرح پھوٹ پڑا۔

ٹیپو کی تلوار اور اس کا سر دونوں بلند رہے۔ پھر دوسرا کاری گھائو کھایا اور سرنگاپٹم کی بھوری زمین خون سے سرخ ہوگئی۔ اس حالت میں ایک گورے فوجی نے آخری سانسیں لیتے ہوئے شیر کے جڑائو بند شمشیر پر ہاتھ ڈالا۔ نبضیں چھوٹ رہی تھیں لیکن جاں بلب شیر اسلام نے لیٹے لیٹے حیدری تلوار کا بھرپور ہاتھ مارا۔ گورے نے فوراً پستول کی لبلبی دبا دی۔ گولی دائیں کان سے زرا اوپر لگی اور اس کیساتھ ہی میسور کا آفتاب 4مئی 1799ء کو غروب آفتاب سے بہت پہلے بظاہر غروب ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ شہید کی عمر صرف 48 سال تھی۔

4 مئی سے 6 مئی تک سرنگاپٹم میں وہ لوٹ مار ہوئی کہ الامان والحفیظ۔ لوٹ کا بیشتر حصہ فوجیوں کے ہاتھ آیا اور جو بچا وہ انگلستان بھیج دیا گیا۔ سات سنمدر پار بھیجی ہوئی اس دولت میں علم کے موتی یعنی عربی' فارسی اور ہندی کے دو ہزار مخطوطات بھی تھے جن میں شہید سلطان کے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی وہ ڈائری بھی تھی جو آج لندن کی برٹش لائبریری میں ہے۔ ہیرے جواہرات سے کہیں بیش قیمت اس بے بہا قلمی کتاب میں شہید سلطان نے اپنے پاک ہاتھ سے وہ چیدہ چیدہ 37 خواب قلمند کئے ہیں جو اس نے 17برس کے دوران' 1758ء اور 1798 ء کے درمیان دیکھے۔

یہاں یہ دہرانا ضروری ہے کہ سلطان 26 دسمبر 1782ء کو تخت نشین ہوا اور6 مئی 1799ء کو شہید ہوا۔ اس طرح اس ڈائری میں شہید کی تخت نشینی کے قریباً دو برس بعد سے لے کر ان کی شہادت کے ایک برس قبل تک کے اہم خواب درج ہیں۔ یہ ڈائری فارسی زبان اور شکستہ رسم الخط میں لکھی گئی ہے۔ ایک خواب کا ترجمہ یہ ہے۔

''......... مجھے ایسا الگ رہا تھا کہ روز محشربپا ہے اور ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے۔ ایک اجنبی میرے پاس آیا۔ اس کا چہرہ نورانی' داڑھی اور مونچھ سرخ اور شخصیت پر وقار تھی۔ وہ قوت مجسم لگتا تھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور پوچھا:'' تم مجھے پہچانتے ہو؟''میں نے کہا: ''نہیں'' اجنبی نے کہا کہ میں علی (مرتضٰی )رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں اور تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دہرا دہرا کریہ فرمایا ہے کہ'' وہ جنت کے دروازے پر انتظار کریں گے اور تمہیں ساتھ لے کر جنت میں داخل ہوں گے'' یہ سن کر میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ بھلا اس سے زیادہ میں کیا چاہ سکتا تھا۔ پھر میں اچانک بیدار ہوگیا۔

4 مئی 1799ء کو ''سلطنت خدادا میسور '' کا خاتمہ ہوگیا۔ آج ''مملکت خداداد پاکستان'' مرہٹوں' نظام' انگریزوں اور میر صادقوں کے جانشینوں کے نرغے میں ہے۔ یاد رکھیں۔ میر صادق کا وار سب سے آخری اور کاری ہوتا ہے۔

4 مئی 2007 ء کو کلمہ، گوؤں ، پر واجب ہے کہ وہ 4 مئی 1799ء کی تاریخ ساز تاریخ کو یاد رکھیں۔ وہ بھی قیامت کی گھڑی تھی، یہ بھی قیامت کی گھڑی ہے۔ ایسی گھڑی کسی قوم اور کسی ملک کی تاریخ میں کبھی کھبار آتی ہے۔ اس گھڑی میں قوم کے آنے والے زمانے کی تاریخ بنتی ہے یا بگڑتی ہے۔ 4 مئی 1799ء کے بعد ڈیڑھ صدیاں بیتیں تب 14 اگست 1947 ء کی تاریخ آئی۔ یہ گھڑی جاگتے رہنے اور دوسروں کو جھنجھوڑ کر جگانے کی گھڑی ہے۔ یہ گھڑی گزر گئی تو خدا جانے کیا ہو؟ اور کس پر کیا گزرے ؟

جب انتخاب ذلت کی زندگی اور عزت کی موت کے درمیان ہو تو شیر جنگ کے شعلوں میں کود کر موت کا استقبال کرتا ہے اور پھر جنت کے دروازے پر کوئی کسی کا انتظار
کرتا ہے اور ساتھ لے کر جنت میں داخل ہوتا ہے اور ابو الفتح فتح علی خان ٹیپو سلطان کے زندہ جاوید الفاظ میں، بھلا اس کے بعد کوئی اور کیا چاہ سکتا ہے؟ ٹیپو نے یہ خواب دیکھا تو بیدار ہو گیا۔ وقت آگیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت بھی اپنے خواب گراں سے بیدار ہو۔

No comments:

Post a Comment