Sunday, 13 March 2011

ھدی وان لنا للآخرۃ والاولی


مقاله 1
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انعلینا لل  
ھدی وان لنا للآخرۃ والاولی

مالک کائنات کا ارشاد ہے کہ بیشک ہدایت کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے اور دنیا و آخرت کا اختیار ہمارے ہاتھوں میں ہے ۔
اس ارشاد گرامی نے صاف واضح کردیا کہ قدرت نے ہردور میں ہدایت کا انتظام کیا ہے اور تاریخ کے ہر موڑ پر ایک نہ ایک حجت خدا کو معین کیا ہے ۔ تاریخ کا کوئی ایسا دور تصور نہیں کیا جاسکتا جب اس کی طرف سے کوئی حجت اورکوئی نمائندہ نہ رہا ہو ۔ اورعالم انسانیت کا کوئی عصر سوچا نہیں جاسکتا جب اس سے ہدایت کا کوئی معقول انتظام نہ کیا ہو ۔
فرق صرف یہ ہے کہ نیابت کا مزاج ہی ہے کہ ہر شخص اسی کو اپنا نمائندہ بناتا ہے جس سے خود راضی ہوتا ہے اور جس کے اعمال و افعال پر اطمینان رکھتا  ہے  کہ یہ ہماری مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کرے گا  ۔ اور بننے کے بعد بھی انسان اسی وقت تک تسلیم کرتا ہے جب تک نمائندہ اپنا پسندیدہ رہتا ہے اور جہاں سے اس کے اعمال پسندیدگی کے خلاف ہوجاتے ہیں وہیں سے مخالفت و بغاوت شروع ہوجاتی ہے ۔ اس سے کوئی مطلب نہیں ہے کہ اس کا  عمل صحیح ہے یا غلط وہ صراط مستقیم پر ہے یا غلط راستہ پر ۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ ہماری پسندیدگی کے مطابق کام کرتا ہے یا نہیں ؟مالک کائنات نے بھی کچھ ایسا ہی نظام بنایا ہے اور اس نے بھی اعلان کردیا ہے کہ جس طرح تم اپنا نمائندہ اسے بناتے ہو جو تمہارا پسندیدہ ہوتا ہے چاہے ساری دنیا اس کی مخالف ہوجائے ۔ اسی طرح میں اپنا نمائندہ اسے بناتاہوں جو میرا پسندیدہ ہوتا ہے چاہے تم سب اس کے مخالف ہوجاؤ ۔ مخالفت سے رائے بدلی نہیں جاسکتی اورجب بندہ بندہ کی رائے کا پابند نہیں ہوتا تو خدا بندوں کی رائے کا کس طرح پابند ہوجائے گا ۔ یا دوسری لفظوں میں یوں کہا جائے کہ جب تم اپنی  پسندیدگی میں میری پرواہ نہیں کرتے تو میں اپنی پسندیدگی میں تمہاری پرواہ کس طرح کروں گا ۔
یاد رکھو پسندیدگی کا بھی ایک معیار ہے ۔ ہرانسان بھی ہر انسان کو پسند نہیں کرتا ۔ پسندیدگی کا مسئلہ اتنا ہی عام اور آسان ہوتا تو دنیا میں کوئی فساد ہی نہ ہوتا ۔ اور عالم انسانیت میں کوئی جھگڑا ہی نہ اٹھتا ۔ یہ تو پسندیدگی ہی کا اختلاف ہے ہے کہ ایک حاکم بنتا ہے دوسرا ناپسند کرتا ہے ۔ ایک حملہ کرتا ہے دوسرا ناپسند کرتاہے ۔ ایک گھر میں بیٹھتا ہے دوسرا نا پسند کرتا ہے ایک اقدام کرتا ہے دوسرا ناپسند کرتا ہے ۔ غرض کی ہر منزل پر ایک  عمل کرنے والا ہوتا ہے اور ایک ناپسند کرنے والا ہوتا ہے ۔ توکیا تم اپنے سارے اقدامات اسی لئے چھوڑ دیتے ہو کہ شاید کوئی اسے ناپسند نہ کرے ۔ اگر تم نے ایسا نظام بنایا ہوتا تو آج دنیا میں زندہ  بھی نہ ہوتے ۔ نہ جانے کتنی مخلوق ہے جو تمہاری زندگی ہی کو ناپسند کرتی ہے ۔ اور کتنے افراد ہیں جو تمہارے وجود ہی کو پسند نہیں کرتے ۔ توکیا ایسے حالات میں تم نے خود کشی کرلی ہے ۔ زہر کھالیا ہے ۔ مرگئے ہو ۔ فنا ہوگئے ہو ؟ ایسا کچھ نہیں  ہے تو تم درپردہ اس بات کے قائل ہو کہ کسی کی پسند اور ناپسند اپنے فیصلے پر اثر انداز نہیں ہوسکتی ۔   یہ اور بات  ہے کہ اکثر تمہیں خود بھی تجربہ ہوتا ہے کہ ناپسند کرنے والے ہی ٹھیک کہہ رہے تھے ۔اور تمہارا ہی اقدام غلط تھا ۔ اور تم اپنے اقدام کی اصلاح بھی کرلیتے ہو ۔لیکن اس کے باوجود آغازکار میں یہ احتمال بھی نہیں دیتے کہ شاید میری ہی پسند غلط ہو ۔ اورمیں ہی خطا پر ہوں توسوچو جب تمہارے فیصلے میں غلطی ہوتی ہے تم راہ سے پے راہ ہوجاتے ہو ۔ تمہاری خطائیں سامنے آجاتی ہیں تمھیں اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے تب تو تم دوسروں کی پسند کی پرواہ نہیں کرتے ۔ تو مجھے کیا پرواہ ہوسکتی ہے کہ جس فیصلے میں کسی غلطی کا امکان نہیں ہے اور جسے معلوم ہے کہ کائنات منقلب ہوجائے اس کا فیصلہ غلط نہیں ہوسکتا ۔تم ٹھوکر کھا کر راستے پر آسکتے ہو ۔ میں اپنا فیصلہ نہیں بدل سکتا ۔ تم نے تجربہ کرلیا ہے کہ ہم نے جسے پسند کرلیا ہے پھر اسے کبھی معزول نہیں کیا ۔ ہمارے نظام میں معزول کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔ ہم نے جسے پسندیدہ بنا لیا اسے بنالیا ۔ پھر اس میں کوئی ترمیم ہی نہیں کی ۔ اور بناتے بھی ہیں تو ایسا بناتے ہیں کہ تمھیں بھی عاجز آکر کبھی رضا ماننا پڑتا ہے ۔ کبھی مرتضی ماننا پڑتاہے ۔
ہماری پسندیدگی کسی ایک عمل سے متعلق نہیں ہوتی کہ ایک بات پر خوش ہوگئے اور پھر دوسری بات پر ناراض ہوگئے ۔ صبح کو خوش رہے اور شام کو ناراض ہوگئے ۔ جنگ میں خوش رہے اور صلح میں ناراض ہوگئے ۔ صحت میں خوش رہے اور مرض میں ناراض ہوگئے ۔ اپنا فائدہ ہوا تو خوش ہوئے اور دوسرے کا مرتبہ ظاہر ہوا تو ناراض ہوگئے ہم جب کسی سے خوش ہوتے ہیں تو پوری زندگی کے اعمال کو دیکھ کر ماضی ۔ حال ، مستقبل کا جائزہ لے کر اورپھر یوں خوس ہوتے ہیں کہ وہ اٹھے تو خوش ، بیٹھے تو خوش ، میدان میں رہے تو خوش ، گھرمیں ہوتے ہیں تو خوش ، صلح کرے تو خوش ، دوستوں کے درمیان رہے تو خوش ، دشمنوں کے درمیان رہے تو خوش ، حدیہ ہے کہ  بیدار رہے تو خوش اور سوجائے تو مرضی ہی اس کے حوالے کردیتے ہیں ۔
ہماری خوشی کا انداز ہی الگ ہے خوش ہوجاتے ہیں توایک نیند پر ساری مرضی عطا کردیتے ہیں ۔ اور خوش نہیں ہوتے تو زندگی بھر رضا کی دعا کرنے پر بھی خوش نہیں ہوتے ۔ اور زندگی کا کیا ذکر ہے ۔ مرنے کے بعد بھی دعائیں ہوتی رہیں تو بھی ہم خوش نہیں ہوتے ۔ ہماری نگاہ کردار پر رہتی ہے دعاؤں پر نہیں ۔
ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ خود تم نے کیسی زندگی گذاری ہے اور تمہارا کردار کیا رہا ہے ۔ ہمیں اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ تمہارے مخلصین تمہیں کیا سمجھتے ہیں اور تمہارے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ہم مخلصین سے مرعوب ہوجاتے تو فرعور اور نمرود کے حق میں خدائی سے درست بردار ہوجاتے شداد کی خاطر اپنی جنت کوفنا کردیتے قارون کے خزانوں کو آسمان تک بلند کردیتے ۔ لیکن ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا اور تم پر واضح کردیا کہ ہم تمھیں دیکھنا چاہتے ہیں تمہارے مریدوں کو نہیں ۔
اور یہی فرق تو تھا اللہ والوں میں اور دنیا والوں میں کہ دنیا والے اسی پر خوش تھے دنیا ہمارے ساتھ ہے ۔ عوام ہمارا کلمہ پڑھتے ہیں ۔ سکہ ہمارے نام کا چل رہا ہے ۔ خطبہ ہمارے نام کا پڑھا جارہا ہے ۔ تخت ہمارا ہے تاج ہمارا ہے ۔ لشکر ہمارا ہے ، فوج ہماری ہے ، ملک ہمارا ہے ۔ علاقہ ہمارا ہے ۔ اب ایک خدا ناراض بھی ہوگیا تو کیا نقصان ہے ۔ اوراللہ والے کہہ رہے تھے کہ دنیا ہماری مخالف ہوگئی ہے ۔تخت ہمارا نہیں رہا ہے ، تاج ہمارا نہیں رہا ہے ، ملک ہمارا نہیں رہا، زمانہ ہمارا نہيں رہا ہے دنیا ہماری نہیں رہی ہے ۔ لیکن شکر خدا کا کہ خدا ہمارا ہے ، خدانے بھی آواز دی میرے بندے جن لوگوں نے مجھے چھوڑ کر دنیا کو لیا ہے ۔ تو سہی انھیں ا یسا تباہ کردوں کہ اپنی مملکت میں بھی نشان قبر  ڈھونڈے نہ ملے اور تونے سب کچھ چھوڑ کر مجھے اپنایا ہے تو تجھے اتنا بلند سربلند کردوں کہ ظہر کوفہ پرٹھہرے تو نجف اشرف ہوجائے اور صحرائے بے آب و گیاہ میں رہے تو کربلائے معلی بن جائے ۔
ارباب نظر ! اس مقام پر یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ آج اہل دنیا اور سلاطین عالم قبروں کے بھی محتاج ہیں اور آپ پوری تاریخ پڑھ ڈالیں کسی کے نشان قبر کا بھی پتہ نہیں ہے ۔ کوئی ڈھونڈے بنی امیہ کی قبریں کہاں کوئی تلاش کرے بنی عباس کے سلاطین کس کھنڈر میں  سورہے ہیں اور کوئی آکے دیکھے کل کے غریب الوطن آج کس شان سے آرام کررہے ہیں ۔ اور دنیا کس طرح ان کے مزار کا طواف کررہی ہے ۔ اور میں تویہاں تک کہنا چاہتا ہوں کہ سلاطین دنیا میں کسی کی قبر کا نشان ملتا بھی ہے اسکی وجہ سے نہیں بلکہ کسی اللہ والے ہی کی  وجہ سے ملتا ہے ۔ ہارون کی قبر کا پتہ رو‎ضہ رضا (‏ع) سے ملتا ہے ورنہ ہارون کوکون پہچانتا  اور اس کی قبرکوکون تلاش کرتا ، اور عجب نہیں کہ رضائے غریب نے آواز دی ہو کہ یہ سلاطین دنیا کو ہوشیاری تھی کہ بڑی شخصیت کے پہلو میں رہو تاکہ نشان قبر محفوظ رہے لیکن قدرت نے بھی اپنا انتقام لے لیا کہ جو بھی زیارت رضائے غریب کو جائے گا اس کا فرض ہوجائے گا کہ اگر ظالم پر صلوات پڑھے تو ظالم پر لعنت بھی بھیجے کہ اگر ظالم و مظلوم ایک منزل پر جمع ہوجائیں تو محبت اور نفرت کا فریضہ بھی   بیک وقت ادا ہو جائے   
کھلی ہوئی بات ہے کہ  جب پروردگار عالم کی پسندیدگی کا معیار دنیا کے معیار سے الگ ہے کہ دنیا اسے پسند کرتی ہے ۔ جو اس کی خواہش کا خیال رکھتا ہے اور وقت پر اس کے کام آتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی پروردگار کسی بندے کو پسند کرکے اپنا نمائندہ بنائے گا تواہل دنیا اس کی مخالفت ضرور کریں گے ۔ یہاں پہلے سے ایک نظام تیارہے اور یہ طے ہوچکا ہے کہ نظام الہی کی پابندی نہیں کی جائے گی اور اپنے ذاتی    نظام پر عمل کیا جائے گا ۔ مالک کائنات نے بھی طے کرلیا کہ تم مخالفت کرتے جاؤ ۔ ہم نمائندے بھیجتے جائیں گے ۔ تم ستاتے جاؤ ہم ہادی بناتے جائیں گے ، تم قتل کرتے جاؤ ہم سلسلہ کو قائم رکھیں گے ۔ ایک دن تو بہر حال ہماری بارگاہ میں آنا ہے اور وہی دن وہ ہوگا جب کسی حاکم ، خلیفۃ المسلمین اور سلطان و بادشاہ کی ضرورت نہ ہوگی ، اس دن سب کو اپنے امام کے ساتھ آنا پڑے گا ۔ اور ہم سلاطین سےبھی سوال کریں گے کہ تمہارا امام کون ہے اور تم کس کی امامت میں رہے ہو ۔ تخت و تاج الگ ایک مسئلہ ہے اس کا حساب تو بعد میں ہوگا ۔ پہلے یہ توبتاؤ کہ تمہارا امام کون ہے ؟
یہ مسئلہ اتنا نازک ہے کہ قبر ہی سے شروع ہوجاتا ہے  ۔ ادھر مرے ادھر خلافت گئی ۔ حکومت گئی ، تخت گیا ، تاج گیا ، خزانہ گیا ، اقتدار گيا ، جبرو استبداد گيا ، قہر و غلبہ گیا ۔  اب نکیرین آکر رنہیں پوچھتے کہ آپ کی حکومت کتنے رقبہ پر تھی ۔ آپ کے مرید کتنے تھے ۔ آپ کے خزانے میں کتنا مال تھا ۔ آپ  کے کرو فر کا کیا
عالم تھا ۔ اب تو ایک ہی سوال ہے کہ آپ کا اما م کون تھا ؟ آپ نے کس کی امامت میں زندگی گذاری ہے اورکس کو اپنا امام تسلیم کیا ہے ؟ سوال قبر ہی نے آخرت کا فیصلہ بھی کردیا کہ وہاں کس کے ساتھ جانا ہے ۔ اور کہاں جانا ہے  ؟ اگر امام صحیح ہے تو جنت ورنہ جہنم کا راستہ تو کھلا ہوا ہی ہے    یہی بات امام علی بن موسی الرضا (ع) نے مامون رشید سے کہی تھی ۔ جب اس نے پوچھا تھا کہ آپ اپنے جد امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) کو قسیم جنت و نار مانتے ہیں اس کی دلیل کیاہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ بات تو بالکل واضح ہے ۔ آپ نے پیغمبر (ص) کی حدیث تو  سنی ہوگی کہ علی (ع) کی محبت ایمان اور علی (ع) کی دشمنی کفر ہے ! اس نے کہا ہاں سنی تو ہے فرمایا ، پھر تو جنت وجہنم کی تقسیم ہوگئی ۔ جو مومن ہوگا وہ جنت میں جائے گا اور جو کافر ہوگا وہ جہنم میں جائے گا ۔
یہ کہہ کروہاں سے آپ اٹھ کر چلے تو راوی نے کہا فرزند رسول (ص) !آپ نے بہترین دلیل قائم کی ہے ۔ آپ نے فرمایا یہ دلیل مامون جیسے لوگوں کے لئے ہے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ میرے جد صراط پر کھڑے ہوں گے اور ہرگذرنے والے کے بارے میں فیصلہ کریں گے"ھذا لی و ھذا لک " اے جہنم یہ میرا ہے اور تیرا ہے ۔
جس کو علی (ع) اپنا کہہ دیں گے وہ جنتی ہوگا اور جس کو اپنے سے الگ کردیں گے وہ جہنم میں چلا جائے گا ۔
مالک کائنات نے جنت و جہنم کا اختیار دیکر بھی واضح کردیا کہ دنیا کے نمائندوں کے پاس تخت وتاج اور خزانہ و بیت المال ہوتے ہیں اور میرے نمائندہ کے پاس جنت و کوثر تسنیم و سلسبیل ، حوروغلمان نعمات و لذات کا اختیار ہوتاہے ۔ سلطنت دنیا موت پر تمام ہوجاتی ہے او ر امامت کے اختیارات موت سے شروع ہوتےہیں جہاں سب خاموش رہتے ہیں وہاں امام بولتا ہے اور جہاں سب نفسی نفسی کرتے ہیں وہاں امام امت کی شفاعت کرتا ہے ۔
ہم نے جسے پسند کرلیا اس کے کردار کو اتنا طیب و طاہر بنا دیا کہ سلاطین دنیا بھی اس کی چوکھٹ پر سر جھکا نے کے لئے مجبور ہوگئے ۔
کیا تاریخ اس حقیقت کو نظر انداز کردے گی کہ جن مسلمانوں نے پیغمبر اسلام کے بعد مولائے کائنات کو مشورہ میں شریک کرنے کے قابل بھی نہ سمجھا تھا ۔ انھوں نے ہی بارہ سال کے بعد خلافت کا ایک حقدار تصور کرلیا اور 25 سال کے بعد بیعت کے لئے حاضر ہوگئے ۔ اور بے قرار ہوکر کہنے لگے یا علی (ع) ہاتھ بڑھائیے ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتے ہیں ۔ مولائے کا ئنات نے ہاتھ کھینچ لیا ۔ جب کل تم نے مجھے قابل بیعت نہیں سمجھا تو آج بیعت کی کیا ضرورت ہے ۔ اور جب قوم کا اصرار بڑھا تو فرمایا ۔ یہ بیعت سرراہ بازار میں نہ ہوگی  ۔ بیعب کرنا ہے تو مسجد پیغمبر میں آؤ ۔ منبر رسول (ص) کے قریب آؤ ۔ جب میں منبر پر بیٹھ جاؤ ں تب بیعت کرنا ۔ مجمع مسجد میں آیا ۔ مولائے کائنات منبر پر تشریف لے گئے اور تمام سابق خلفاء کی منزل سے بلند جائے پیغمبر (ص) پر بیٹھے اور فرمایا کہ اب بیعت کرو ۔ یہاں اس لئے بیٹھا ہوں کہ مجھے پیغمبر کا جانشین سمجھو۔ سلسلہ کا چوتھا نہ سمجھو سلسلے کا چوتھا ہوتا تو چوتھے زینے پر بیٹھتا ۔ پیغمبر (ص) کی جگہ پر بیٹھا ہوں کہ دنیا آنکھیں کھول کر دیکھ لے کہ میں سلسلے کا خلیفہ نہیں ہوں ۔ بلا فصل جانشین ہوں ۔
بیعت ہوئی حکومت ملی ، امت نے سر نیاز جھکایا  ۔ اور 25 سال کے اندر امت کو اپنا حشر معلوم ہوگیا ۔ سربازار بیعت لینے سے انکار کرکے بتادیا کہ بیعت کے طلبگااور ہوتے ہیں اور بیعت کے حقدار اور ہوتے ہیں ۔
مجھے دنیا کی ضرورت نہیں ہے جس کی غرض ہوگی وہ خود آکر بیعت کرے گا ۔ تاریخ نے ایسا بے نیاز کردار نہیں دیکھا اور یہ انداز سوائے اللہ والوں کے کسی کا ہو بھی نہیں سکتا یہ استثناء یامولائے کائنات کے کردار میں دیکھا تھا یا دوبارہ امام علی بن موسی الرضا (ع) کے کردار میں دیکھا ہے کہ ظلم و ستم ڈھانے والا بادشاہ بالآخر حالات سے مجبور ہوکر امام (ع) کو مدینہ سےطلب کرتا ہے کہ آپ کو ولی عہد مملکت بنادے اور خود آپ سے التماس کرتاہے ۔
ولی عہد کے سلسلے میں اکثر لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ مامون امام (ع) کا مخلص تھا اور آپ سے خاص عقیدت رکھتا تھا ۔ ضرورت ہے کہ چندلفظیں اس پس منظر کے بارے میں بھی عر‌ض کردی جائیں جن حالات نے مامون کو ا س اقدام پر مجبور کیا تھا ۔ اور اس نے امام (ع ) کے سامنے یہ پیش کش کی تھی ۔
یاد رکھئے بنی عباس نے اقتدار پانے کے بعد سے بنی فاطمہ (ص) جو مظام ڈھائے ہیں ان کی نظیربنی امیہ کی بھی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ جو تخت حکومت پر آیا اس کا پہلا فریضہ تھا کہ سادانت کو قتل کرے زندہ دیواروں میں چنوائے اور جوان کا سربراہ اس کو ہر طرح ذلیل کرے ۔ آئمہ معصومین (ع) ان حالات سے بخوبی واقف تھے ۔ انھوں نے کبھی اس اقدام کی قیادت نہیں کی جو بنی ہاشم کی طرف سے بنی عباس کے خلاف ہوا ۔ سادات کرام کا یہ حال تھا کہ جب مصائب و شدائد سے جب عاجز آجاتے تھے تو فوج تیار کرکے اٹھ جاتے تھے اوربالآخر قتل ہوجاتے تھے ۔اور خود ہی قتل نہ ہوتے تھے بلکہ پورے پورے خاندان کو تہہ تیغ کرادیتے تھے ۔ امام (ع) نے بارہا ان اقدامات سے روکا لیکن جوش کو ہوش کہاں ۔ ادھر حکومت کے ہوا خواہوں کا بھی یہی عالم تھا کہ کچھ تو بنی فاطمہ (ص) میں پھوٹ ڈالنے کے لئے سیدھے سادے سادات کو بھڑ کا کر میدان میں سے آئے تھے اور تہ تیغ کرادیتے تھے اور کچھ حکومت سے اپنے  حالا ت کا انتقام لینے کے لئے انھیں آلہ کا ر بنا تے تھے ۔ اور انھیں ہوش نہیں آتا تھا اور اکثر اوقات ت ایسا ہوا ہے کہ جب معصومین (ع) نے سمجھایا تو اسے حسداور خاندانی عداوت پر محمول کردیا ۔ اور حملہ کرنے کے لئے تیار ہوگئے ۔ آئمہ معصومین نے بھی ان کے مقابلہ میں سکوت فرمایا اور حالات کا جائزہ لیتے رہے ۔ ایک مرتبہ تویہاں تک ہو ا کہ ہارون کا نمائندہ عیسی جلودی محمد بن جعفر صادق (ع) کے  کی تلاش میں مدینہ تک پہونچ گیا ۔ اور امام رضا (ع)  کے گھر کا محاصرہ  بھی کرلیا ۔ ہارون کا حکم تھا کہ جو سید ملے اسے قتل کردینا اور گھر لوٹ لینا  ۔
جلودی نے گھرمیں گھس کر عورتوں کے زیورات لوٹنے کا ارادہ کیا فرزند رسول (ص)نے بےحد سمجھایا لیکن اس کی سمجھ میں نہ آیا ۔ آخر آ پنے قسم کھائی کہ میں سارا سامان لا کر دیدوں گا تب وہ ظالم خاموش ہوا ۔ اور آپ نے خواتین کے زیورات تک لاکر ظالموں کے حو الہ کردئیے یہ حالات پیش آرہے تھے لیکن سادات کرام کو ہوش نہ آتا تھا ۔ اور انھیں حکومت سے انتقام کی دھن سوار تھی کہ اقتدار ہمارا حق ہے ۔ بارہا امام (ع) سے بحث بھی کی جھگڑا بھی کیا اور کبھی کبھی تو حکومت کے آلہ کار بن کر زہر دینے میں بھی حصہ لیا ۔ لیکن یہ امام کا ظرف تھا کہ جملہ حالات کو دیکھتے رہے ۔ اور سکوت فرماتے تھے ۔ بعض اوقات یہ ضرور فرمادیا  کرتے کہ اس اقدام کا نتیجہ اچھا نہ ہوگا ۔ اس میں پورے خاندان کی تباہی ہے ۔ لیکن وہان کون سننے والا تھا  ایک مرتبہ آپ نے غیظ میں آکر زید بن موسی بن جعفر (ع) سے فرمادیا کہ تم نے ہوس حکومت میں لوگوں کے گھروں کو آگ لگادی ہے ۔ یہ بہت برا کام کیا ہے میں اس سے قطعا راضی نہیں ہوں   زید نے کہا  ۔ آپ نے مجھے پہچانا نہیں میں آپ کا بھائی ہوں ۔ آپ نے فرمایا کہ میرا گنہگاروں سے کوئی رشتہ نہیں ہے ۔ جواحکام الہی کی مخالفت کرے وہ میرا رشتہ دار نہیں ۔ یاد رکھو یہ تمہیں غلط فہمی ہوگئی ہے کہ ذریت فاطمہ (ع) پرآتش جہنم حرام ہے توجوچاہو کر و۔
ذریت فاطمہ (ع) سے مراد صرف امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) ہیں ۔ ان کے علاوہ جو جیسا کرے گا اس کی سزا بھگتنا پڑے گی ۔ کسی کومعاف نہیں کیا جاسکتا ۔بلکہ ہمارے جد حضرت علی بن الحسین (ع) نے تو یہاں تک فرمایا کہ سید نیکی کرے گا تو ثواب دہرا ملے گا اوروہ برائی کرے گا تو ثواب عذاب بھی دہرا ہی ملے گا ۔
یہ تم نے کیا غضب کیا کہ مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگا دی اور "زید النار " کے لقب سے مشہو ر ہوگئے ۔ اس کے بعد آپ نے سفارش کراکے حکومت کے انتقام سے آزاد بھی کرادیا ۔ لیکن متوجہ کرا دیا  کہ اولاد فاطمہ (ع) کا یہ کردار نہیں ہے ۔ و ہ حکومت کے طرفدار ہوتے ہیں اور نہ حکومت کے طلبگار ۔ حکومت کی غرض ہوتی ہے  تو ان کی چوکھٹ پر آجاتی ہے ورنہ وہ خود کسی کی ڈیوڑھی پر نہیں جاتے ۔
ان حالات نے سادات کو باقاعدہ طور پرحکومت تو نہیں دلوائی لیکن حکومت کاسونا جاگنا ضرور حرام کردیا اور حالات بدسے بدتر ہوتے چلے گئے ۔ ادھر ہارون رشید گھریلو ہنگامہ سے عاجز آکر اپنی حکومت کو دوحصوں پر بانٹ دیا ۔ عرب کا حصہ امین کر دیدیا اور عجم کا خطہ مامون کو ۔ امین کولوگوں نے سمجھایا کہ ایک ملک میں دو بادشاہ نہیں رہ سکتے ۔ اس نے چاہا کہ مامون کو مہمان کو بلا کر قتل کرادے ۔ اور مطلق العنان بادشاہ بن جائے لیکن مامون نے جواب دیا کہ میرے ملک میں بغاوتیں بہت ہیں ۔ میں ملک چھوڑ کر آنے کے لائق نہیں ہوں ۔ امین سمجھ گیا کہ مامون نے ہوشیاری سے کام لیا ہے چنانچہ اس نے ایک عظیم فوج مامون کے علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے بھیج دی ۔ مامون کا سردار لشکر طاہر بن الحسین مقابلے کے لئے نکلا اور نہایت دلیری سے لڑ کر کامیاب ہوا ۔ امین نے دوسری فوج بھیجی طاہر نے اسے بھی پسپا کردیا اور مقابلوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ بالآخر امین کو شکست ہوئی ۔ اور طاہر عراق کی سر زمین  پر قبضہ کرتا چلا گیا ۔ ایک دن وہ بھی آیا کہ امین گرفتار ہوا اور اسے تہ تیغ کردیا گیا ۔ 
یہ سلطنت دنیا کا انجام ہے کہ بھائی بھائی کے قتل کا درپے ہے عزیز عزیز کے خون کا پیاسا ہے ۔ فرشتوں نے کیا برا کہا تھا کہ پروردگار کیا انھیں کو خلیفہ بنائے گا جو روئے زمین پر فساد اور خونریزی کریں ۔ پروردگار نے فرمادیا تھا "انی عالم مالا تعلمون " جومیں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے یعنی ایسے لوگ خلیفہ ہوں گے جو میرے نہیں ہوں گے ۔ اہل دنیا کے ہوں گے ۔ میرا خلیفہ صالح مصلح نیک کردار اور بلند افکار ہوگا ۔
آغاز تاریخ میں ایک قابیل تھا اور یہاں تو سب ہی قابیل ہیں ۔ ہابیل کا تلاش کرنا مشکل ہے ، قابیل کے ملنے میں کوئی زحمت نہیں ہے  ۔اس تاریخ ملوکیت کو ذرا تاریخ امامت سےملا کردیکھئے توفرق سمجھ میں آجائیگا یہاں باپ نے دو بھائیوں کو علاقوں کا حاکم بنایا ہے اور قتل و خون کا سلسلہ شروع ہے اور وہاں نانانے دونوں نواسوں کو ایک ملک کا سردار اور ایک دنیا کا امام بنایا ہے اور کردارمیں اتنا اتحاد ہے کہ رسول (ص) کی زلفیں دونوں بھائیوں کے ہاتھوں میں ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک ایک طرف لے جائے اور دوسرا دوسری طرف لے جائے ۔ قدرت آواز دے رہی ہے ۔۔ پہچان لوہمارا نمائندہ کتنا پاکیزہ کردار ہوتا ہے ۔ اور تمہارا نمائندہ کتنا بد نفس اور بد کار ہوتا ہے ۔
مامون نے امین کو قتل کرادیا لیکن بغاوتوں کا ایک نیا طوفان ابل پڑا ۔ سادات کرام کا انتقام ایک طرف  ۔ امین پرستوں کے حملے دوسری طرف اور پھر سرداران لشکر کی بغاوت الگ ۔ مامون بدحواس ہوگیا کہ ایسے حالات میں حکومت کیسےچلے گی ۔ بالآخر عاجز آکر اپنے وزیر خاص فضل سے مشورہ کیا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے ۔ فضل نے کہا کہ بہترین ترکیب یہ ہے کہ سادات میں سے کسی کو ولی عہد بنا لیجئے ۔ مخالفت کا ایک طوفان تو دب ہی جائے گا ۔ اس نے مدتوں اس مسئلہ پر غور کیا ۔ بنی عباس سے مشورے کئے پوری فہرست پر نظر کی ۔ بنی عباس میں کو‏ئی ولی عہد کا اہل تو نہیں ہے ۔ اور پھر جب حضرت امام رضا علیہ السلام پر نظر ٹھہری تو ان کے علم وکردار کا بنی عباس سے موازنہ کیا کہ کل جب اعتراضات ہوں گے تو ان کا کیا جواب دیا جائے گا اور یہ سب طے کرکے امام کے پاس پیغام بھیج دیا  گیا ۔ امام (ع) مدینہ میں تشریف فرما تھے قبر رسول (ص) کی مجاوری فرمارہے تھے ۔ عبادت الہی میں زندگی گذار رہے تھے ۔ ادھر ایک عظیم قافلہ پہنچ گیا اور حضرت کو وطن چھوڑنے پر مجبور کیا ۔ آپ مدینہ سے نکلے لیکن اس شان سے جیسے حسین (ع) وطن چھوڑ رہے ہوں ۔ گریہ و زاری کا عالم ، کہرام برپا ، باربار روضہ رسول (ص) میں جاتےہیں ۔ اور باہر نکل آتے ہیں ۔ جد بزرگوار گواہ رہئے گا کہ مجبورا جارہاہوں ۔ میرا جانے کو جی نہیں چاہتا ۔ بھلا آپ کی قبر چھوڑ کرکہاں جاؤں گا ۔
نکلے تو در و دیوار مدینہ کو بہ حسرت دیکھتے ہوئے ۔ فرمایا کہ یہ میرا آخری سفر ہے ۔ اب اس سفر سے لوٹ کر آنے کا کوئی امکان نہیں ہے آپ اندازہ کريں کہ اہل مدینہ کا کیا عالم رہا ہوگا ۔ مدینہ سے رخصت ہوکر سیرت امام حسین (ع) پر چل کر مکہ آئے ۔ خانہ خدا کو وداع کیا ۔ طواف کرکے وہاں سے رخصت ہوئے ۔ امام محمد تقی (ع) کی عمر 6 برس کی تھی ۔ خانہ خدا سے لپٹ گئے میں تو حرم خدا سے نہ جاؤں گا ۔ فرمایا فرزند مشیت الہی پر نظر رکھو فورا باپ کی خدمت میں آگئے ۔ بابا جان اگر مرضی پروردگا ریہی ہے کہ ہم غریب الوطنی کی زندگی گذاریں اور حرم الہی سے دور رہیں تو میں راضی بہ رضا ہوں ۔ قافلہ چلا اور اجنبی راستوں سے چلاتاکہ چاہنے والے روکنے نہ پائیں ۔ مکہ سے رخصت ہو کر نیشا پور پہونچے ۔ وہاں ایک شخص کے مکان میں قیا م فرمایا ۔ ایک بادام  کا درخت لگا یا جو فورا باد آور ہوگیا اور اس سے بے شمار لوگوں مریضوں نے فائدہ اٹھایا ۔ ایک چشمہ خشک ہوگیا تھا ۔ اسے جاری فرمایا اور وہ " چشمہ رضا " کے نام سے موسوم ہوگیا ۔ وہاں سے چل کر شہر خراسان پہونچے ۔ نماز ظہر کا ہنگام تھا ۔ وضو کے لئے پانی نہ مل سکا تو ایک چشمہ جاری فرمایا جو آج تک موجود ہے ۔ اور لوگ اس سے مستفیض ہورہے ہیں ۔ خراسان سے چل کر طوس پہونچے جہاں پتھر کے ظروف بنانے کا رواج تھا ۔ پہاڑ کے قریب جاکر دعا فرمائی اور نرم ہوگیا اور لوگوں نے مقام فخر میں یہ کہنا شروع کردیا کہ داؤد کے لئے ہوہا نر م ہوا تھا اور ہمارے لئے پتھر کو نرم کردیا ہے ۔ طوس سے سنا باد تشریف لائے اور ہارون کی قبر کے پاس اپنی قبرکی جگہ معین فرمائی اور بالآخر دارالحکومت مرو میں نزول اجلال فرمایا ۔ مامون نے عظیم الشان استقبال کیا ۔ او ردو تین دن آرام کے بعد خلوت میں بلاکر کہا کہ آپ کو ولی عہد بنانا چاہتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے گوشہ نشین رہنے دے مجھے حکومت کی کوئی غرض نہیں ہے ۔ اس نے کہا کہ یہ عہدہ توآپ کو لینا ہی پڑے گا ۔ آپ نے قبول فرما لیا اور بارگاہ الہی میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھا ديئے ۔ پروردگار گواہ رہنا میں مجبورا اس عہدہ کو قبول کررہا ہوں ۔ میرے لئے تیری ولایت سے بہتر کوئی والایت نہیں ہے ۔ اب مجھے اپنے دین پر قائم رکھنا اور اپنی شریعت کی خدمت کی توفیق عطا فرمانا ۔
مورخین کا بیان ہے کہ حضرت نے بار بار ولی عہدی سے انکا کیا ۔ اور جب کئی روز گذر گئے تو مامون نے پوچھا آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ آپ میر ی ولی عہدی قبول نہیں فرماتے ۔ آپ نےفرمایا کہ میں نے اپنے آباؤ طاہرین (ع) سے سنا ہے کہ ولی عہدی مجھے نہ ملے گی ۔ اور میں تیری زندگی ہی میں زہر دغا سے  شہید کردیا جاؤں گا ۔ مامون نے کہا کہ کس کی مجال ہے کہ میرے ہوتے ہوۓ آپ کو زہر دے سکے ۔ آپ نے فرمایا کہ مصلحت ہوتی تو میں قاتل کا نام بھی بتا دیتا لیکن اس وقت مصلحت نہیں ہے ۔ یہ ہے امام کا علم اوریہ ہے امام کی بے نیازی ۔ قدرت کا انتقام کتنا شدید ہوتا ہے کہ حکومت خوشامد کررہی ہے ۔ اور امامت تخت وتاج کو ٹھوکر لگارہی ہے ۔
آخرمامون نے جھنجنھلا کر کہاکہ آپ اپنے انکا ر سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ میں بہت زاہد و پارسا ہوں اور بادشاہ اتنا عاجز ہے کہ مجھے ولی عہد تک نہیں بنا سکتا ۔ آپ نےفرمایا کہ ایسا نہیں ہے لیکن توبھی تو ولی عہد بناکر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ دنیا سے مجبورا کنارہ کش ہیں ورنہ جیسے ہی عہدہ مل جاتا ہے فورا دوڑ پڑتے ہیں ۔ امام (ع) کے اس جواب پر مامون آگ بگولہ ہوگیا اور کہنے لگا کہ اب اگر آپ نے انکار کیا تو میں آپ کو قتل کرادوں گا ۔ آپنے فرمایا کہ اگر بات اس منزل تک پہنچ گئی ہے تو میں حاضرہوں ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ امور مملکت میں دخل نہیں دوں گا ۔ اور حکم خدا و رسول (ع) سے مشورہ دیتا رہوں گا ۔ یہ ہے اتحاد کردار کہ جو انداز تاریخ میں پہلے علی (ع) کاتھا وہی انداز اس علی (ع) کا ہے ۔ کیوں نہ ہو اس خاندان میں سب محمد (ص) ہیں اور سب علی (ع) ہیں ۔ یہاں اول و آخر میں کوئی فرق کردار نہیں ہے  ۔
ولی عہد کا اعلان ہوا ۔ یکم رمضان 201 ہجری کودربار عام آراستہ ہوا امام (ع) کے دست اقدس پربیعت ہوئی رضا لقب سےیاد کئے گئے ۔ بنی عباس کا لباس سیاہ سے سبز بنایا گیا ۔ لوگوں نے نذرانے پیش کئے شعراء نے قصیدے پڑھے ۔ امام (ع) کے نام کا سکہ چلا اور قدرت نے آواز دی ۔ دنیا کے بیہوشو ! اب ہوش میں آجاؤ ۔ اور میرے نمائندہ کا اقتدار دیکھو ۔ یہ منظر عام پر آجائے گا تو حکومت تمہاری ہوگی ۔ اور سکہ اس کے نام کا ہوگا ۔
بنی عباس میں ایک کھلبلی مچ گئی ۔ لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ مامون نے معاذاللہ ایک ان پڑھ آدمی کو ولی عہد بنا دیا ہے ۔ مامون نے امام (ع) کودربار میں طلب کیا اور ایک خطبہ پڑھنے کی فرمائش ک ۔ امام (ع) نے خطبہ پڑھا ۔ اہل دربار ششدر رہ گئے ۔ اور پھر علمی مجلسوں کا سلسلہ قائم ہوگیا ۔ آئے دن نئے نئے اعتراضات او ر امام (ع) کے جوابات ۔ یہی ایک مصلحت تھی جس کی بنا پر امام (ع) ولی عہد ی قبول کی تھی کہ اس طرح حکومت کے سہارے اسلامی علو م کے نشر و اشاعت کا موقع جائے گا ورنہ کہاں علی (ع) کا لال اور کہاں تخت حکومت ۔ کہاں محمد (ص) کا وارث اور کہاں مامون کی ولی عہدی ۔
محمد عیسی یقطینی کا بیان ہے کہ امام رضا (ع) سے دریافت کئے جانے والے سوالات ک واکٹھا کیاگیا توان کی تعداد 18 ہزار تھی ۔ آئے دن نئے نئے سوالات اور نئے نئے مناظرے ۔ تمام مباحثات کے نقل کرنے کا محل نہیں ہے  ۔  صرف دوایک واقعات کی طرف اشارہ کردینا کافی ہے ۔
مامون کےدربار میں ایک لا مذہب انسان وارد ہوتا ہے اور طرح طرح کے اعتراضات کرتاہے ۔ دربار جو اب سے عاجز ہے اور بالآخر امام رضا (ع) کے سامنے مسئلہ پیش کیا جاتا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ بھائی کیا پوچھ رہا ہے ۔ اس نے کہا کہ آپ کا خدا کیسا ہے کہاں ہے ۔ ؟
آپنے فرمایا توخدا کے معنی ہی سمجھتا ۔ خدا مخلوق نہیں ہے ۔ خالق ہے ۔ کیسا اورکہاں یہ مخلوق کے صفات ہیں وہ تمام کیفیات کا خالق ہے اور تمام مکانات کی پیدا کرنے والا ہے ۔ اسے کون سا مکان اپنے احاطہ میں لے سکتا ہے ۔ اور کس جگہ کی مجال ہے کہ اس پر حاوی ہوسکے ۔
اس نے کہا کہ پھر صاف کہئے کہ نہیں ہے ۔ اس لئے کہ جو چیز حواس سے باہر ہو اس کے وجود کا اقرار نہیں کیا جاسکتا ۔ آپ نے فرمایا کہ یہی تو مجھ میں اور تجھ میں فرق ہے تو حواس سے  باہر ہونے پر انکا ر کرتا ہے  اور ہم اسی پر اقرار کرتے ہیں کہ حواس کا قبضہ میں نہیں آتا ورنہ بندہ ہوجاتا خدا نہ رہ جاتا ۔
اس نے کہا اچھا یہ بتائیے کہ وہ کب سے ہے ؟ آپنے فرمایا کہ کب نہیں تھا کہ میں بتاؤں کب سے ہے ۔ یہ سوال تواس کے بارے میں ہوتا ہے جو کبھی نہ رہا ہو اور جس کے نہ رہنے کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے ۔ اس کے بارے میں یہ عقیدہ رکھو کہ ہمیشہ سے ہے ۔ کب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اس نے کہا خیر پہلے یہی بتائیے کہ اس کے ہونے ہی پر کیا دلیل ہے ؟ آپنے فرمایا کہ لاکھوں دلیلیں ہیں ۔ خود تیرا وجود ہی ایک دلیل ہے کہ جب تو اپنے جسم کے طول و عرض پر قادر نہیں ہے تو یہ علامت ہے کہ یہ سب کسی اور کے اختیار میں ہے ۔ پھر پوری کائنات ، چاند سورج زمین ، آسمان سب پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ان کا کوئی خالق ہے اور یہ بغیر خالق کے پیدا نہیں ہوئے ۔
اس نے کہا اچھا اگر ہے تو دکھائی کیوں نہیں دیتا ۔ آپ نے فرمایا کہ دکھائی دینا مخلوق کی شان ہے ۔ خالق کی شان نہیں ہے ۔ اس کی کوئی جگہ بھی نہیں ہے کہ اسے دیکھا جاسکے ۔ اس میں کمی زیادتی کا بھی امکان نہیں ہے وہ دیکھنے سننے میں آنکھ کا ن کا بھی محتاج نہیں ہے ۔
اس نے کہا کہ عجیب  بات ہے کہ دیکھتا سنتا ہے اور آنکھ کان نہیں ہیں یہ عجیب قسم کا خدا ہے  ؟ آپ نےفرمایا کہ بیشک عجیب قسم کا خدا ہے ۔ اس کا قیاس مخلوقات پرنہیں ہوسکتا ۔ آنکھ کان کا محتاج ہونا مخلوقات کا کام ہے یہ خالق کی شان نہیں ہے ۔
روایت کہتی ہےکہ دہریہ نے سوالات تو بیشمار کئے لیکن اتنا انصاف پسند تھا ککہ جب ہر طرح سے مطمئن ہوگیاتو حضرت کے دست حق پرست پرمسلمان ہوگیا ۔
یہ تھا اللہ والوں کا کام اوراس کے بنائے ہوئے نمائندوں کا طرز عمل ۔ یہاں تخت و تاج کا مسئلہ نہیں ہے یہاں دین و مذہب کے مسائل ہیں تخت و تاج کو لے کے عاجز ہوجانا نااہل دنیا کا کام اور سب کچھ ترک کرکے کلمہ پڑھوا لینا نمائندوگان پروردگار کا کام ہے ۔
مامون یہ حالات دیکھتا رہا اور ایک طرف تو خوش ہوتا رہا کہ حریفوں کی نظر میں عزت بھی بڑھ رہی ہے اور اغیار کی نگاہ میں عزت بھی بچ رہی ہے کہ اگر یہ نہ ہوتے تو ہلا ک ہی ہوجاتا ۔ او ربعض اوقات خود بھی عجیب غریب سوالات کرتا تھا ۔ عصمت انبیاء کے بارے میں اس کے سوالات مشہور ہیں ۔
ایک مرتبہ دریافت کرتاہے کہ فرزند رسول (ص) ! ایک مرد کو چار عورتوں کی اجازت دی گئی ہے تو ایک عورت کو چار مردوں کی اجازت کیوں نہیں دی گئی ؟ آپ نےفرمایا کہ اس طر ح نسل مشکوک ہوجاتی اور کوئی شجرہ طے نہیں ہوسکتا ۔ ہر پیدا ہونے والا یہ شبہ لیکر آتا کہ وہ کس باپ کا بیٹا ہے اور پھر اللہ نے خلقت میں بھی عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ رکھی ہے ۔ اب اگر نظام الٹ گیا تو ایک پوری خلقت کنواری ہی رہ جائے گی ۔ اور یہیں سے یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا کہ اسلام میں زنا کیوں حرام ہے ؟ زنا میں نسب طے نہیں ہوسکتا اور اسلام یہ چاہتا ہے کہ آنے والے کے نسب کا صحیح علم رہے تاکہ میراث وغیرہ کے مسائل مشکوک نہ ہونے پائیں ۔ جہاں نسب مشکوک ہوتا ہے وہاں میراث کے مسئلہ میں جھگڑا اٹھ جاتا ہے ۔
یہ سب  باتیں اپی جگہ پرہیں لیکن مامون ان کمالات کو برداشت بھی نہ کرسکتا تھا ۔ اسے ہر آن خطرہ تھا کہ دنیا کا رخ علی رضا (ع) کی طرف نہ ہوجائے چنانچہ ایک دن یہ طے کرلیا کہ حضرت کوزہر دے کر ختم کرادیا جائے ۔ اور مامون نے یہ منصوبہ بنالیا ادھر حضرت نے ہرثمہ کو بلاکر فرمایا کہ میرا وقت قریب آچکا ہے ۔ عنقریب یہ ظالم مجھے انگور میں زہر دے گا اورانگور کو زہر آلود دھاگے میں پرو یاجائے گا ۔ پھر ہاتھوں میں زہر مل کرانار نچوڑا جائے گا اور مجھے پلایا جائے گا ۔ میں دوروز کے بعد دنیا سے رخصت ہوجاؤں گا ۔ دیکھو  ہرثم تم میرے قریب نہ آنا او رجب میرا انتقال ہوجائے تو انتظار کرنا میرا فرزند آکر غسل و کفن دے گا ۔ اس کے بعد تم اندر آنا ۔ مامون میرا اہتمام کرنا چاہے گا لیکن کہہ دینا کہ اگر جنازہ کو ہاتھ لگایا توعذاب الہی نازل ہوجائے گا ۔ ہارون کے قریب میری قبر تیار ملے گی ۔ اس مجھے دفن کردینا ۔ اور جب مامون سرگذشت پوچھے تو میرے فرزند کی آمد اور زہر کی تیاری کا پورا قصہ بیان کردینا ۔  
وقت گذرا ۔ مامون نے حضرت کودربار میں طلب کیا ۔ ہرثمہ نے پیغام پہونچایا ۔ آپنے فرمایا میرا وقت آگیا ہے ۔ دربار میں آئے اس نے انگور پیش کئے ۔ آپنے انکار فرمایا ۔ اس نے کہا کہ اس سے بہتر انگور ممکن نہیں ہیں آپ نے فرمایا کہ جنت میں اس سے بہتر ہیں ۔ اس نے کہا کہ آپ میری طرف سے مشکوک ہیں ۔ آپ نے فرمایا میرا وقت آچکا ہے ۔ یہ  کہہ کر دو ایک دانے تناول فرمائے ۔ اور اٹھ کر چل دئیے ۔ مامون نے پوچھا کیا ارادہ ہے فرمایا جہاں تونے بھیجا ہے وہاں جارہا ہوں ۔ بیت الشرف میں آکر کروٹیں  بدلتے رہے ۔ تھوڑی دیر کے بعد انتقال فرمایا ۔ ہرثمہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک خیمہ نصب ہے او ر اس میں سے  غسل و کفن دینے کی آواز آرہی ہے ۔ غسل و کفن تمام ہوا ۔ دروازہ خود بخود کھل گیا ۔ میں نے مامون کو اطلاع دی ۔ اس نے تجہیز و تکفین کا ارادہ کیا ۔ میں نے وصیت کا ذکرکیا ۔ اس نے کہا اور کیا کہا ہے ۔ میں نے کہا کہ انگور کا پورا واقعہ بیان کیاہے ۔ مامون بوکھلا گیا اور کہنے لگا  کہ مجھ پر رسول (ص) کی لعنت ، علی (ع) کی لعنت ، حسن و حسین (ع) کی لعنت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ میں نے کیا غضب کیا خیر دیکھو ہرثمہ کسی سے اس واقعہ کو بیان نہ کرنا ۔ حکومت کی طرف سے اعلان عام کرادیا گیا کہ ولی عہد مملکت کا انتقال ہوگیا ہے تمام لوگ جنازے میں شرکت کریں ۔ جنازہ تیار ہوا ۔ اہتمام سے اٹھا اور ہارون کی قبر کے قریب ایک قبر تیار ملی اس میں رکھا گیا ۔ قبر خود بخود بند ہوگئی ۔ اور زہرا (ع) کا لال اپنی جدہ ماجدہ کی خدمت میں پہونچ گیا ۔ اللہ رے انقلاب زمانہ یہ دامادی یہ محبت ، یہ ولی عہدی اور سال بھر کے اندر یہ ظلم ۔ خیر حکومت نے پردہ پوشی کے لئے سہی جنازہ تواٹھوایا ۔ اہتمام سے میت دفن تو ہوگئی ۔ کم از کم وہ نہیں جو باپ کے ساتھ بغداد کے پل پربرتاؤ کیا گیا تھا ۔ اور کم از کم وہ سلوک تو نہیں ہوا جو کربلا میں فرزند فاطمہ (ع) کے ساتھ کیا گیا تھا ۔
ارباب عزا ! روایت بیان کرتی ہے کہ امام (ع) کی ایک بہن حضرت فاطمہ (ص)تھیں جنھیں معصومہ قم کہا جاتا ہے ۔ عرصہ سے بھائی کی خبر نہ ملی ۔ تواشتیاق ملاقات میں وطن سے چلیں ۔ قم کے قریب پہونچیں تواشراف قم کو اطلاع ملی کہ امام (ع) کی بہن بھائی سے ملنے آرہی ہیں ۔ سارا شہر استقبال کے لئے باہر نکل پڑا ۔ لیکن آج استقبال کا انداز نرالا ہے ۔ ہاتھوں میں سیاہ پرچم ۔ جسم پر سیاہ کپڑے ۔ پرسے کی مکمل تیاریاں ۔ سواری قم کے قریب پہونچی ۔ اشراف نے بڑھ کر استقبال کیا ۔ معصومہ نے گوشہ محمل سے دیکھا کہ سیاہ پرچم نظر آئے ۔ سیاہ پردے دکھائی دیئے ۔ بیتاب ہوگئیں ۔ ارے بھائیو ! یہ استقبا ل کاکون سا  انداز ہے ۔ خدا رکھے میرا بھائی ولی عہد مملکت ہے ۔ کیا ولی عہد مملکت کی بہن کا استقبال یوں ہی کیا جاتاہے ۔ یہ تم  نےکیا طریقہ اختیارکیاہے ۔ مجھے ہول آرہا ہے  ۔ جلدی بتاؤ میرے بھائی کاکیاعالم ہے لوگوں نے عرض کی بی بی ! ہم آپ کوآپ کے بھائی کا پرسہ دینے کے لئے آئے ہیں ۔ آپ کے بھائی نے انتقال فرمایا ، یہ سننا تھا کہ غش کھا گئیں ، بیمار ہوئیں انتقال فرماگئیں اور آگے نہ بڑھ سکیں ، یہ ہے بھائی کی محبت کہ مرنے کی خبر سنی اور برداشت نہ کرسکیں ، اور دنیا سے انتقال فرما گئیں ۔
ارباب عزا ! کیا کہنے کی ضرورت ہے ۔ کہئے تو عرض کروں کہ معصومہ قم آپ بڑی خوش نصیب ہیں ، بھائی نے عالم غربت میں انتقال کیا مگر جنازہ دھوم سے اٹھا ۔ پرسہ دینے والے آئے ۔ تعزیت پیش کرنے والے جمع ہوئے مگر ہائے وہ بہن جو بلندی سے دیکھ رہی ہے کہ بھائی کے گلے پر شمر کا خنجر چل رہا ہے اور کوئی نہیں ہے جس سے فریاد کرے ۔ ایک بیکسی کا عالم ہے اور ایک بے بسی کی دنیا ، آواز دے رہی ہیں ۔ اوپسر سعد میرا مانجایا ذبح ہورہا ہے اور تو کھڑا دیکھ رہا ہے ۔ اور جب بھائی کے اشارہ پر  پلٹ کر خیمہ میں آئیں تو پرسہ کا نیا انداز ، خیموں میں آگ ، سروں سے چادریں ، سکینہ کے منھ پر طمانچے ، عابد بیمار کا بستر ، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پیروں میں بیڑیاں ، گلے میں طوق خار دار ، سیدانیوں کے با‌زؤں میں رسیاں سر برہنہ خواتین  ، بلوائے عام ، وامحمدا واعلیاہ واحسینا ہ ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
وسیعلم الذین ظلمو ا ای منقلب ینقلبون

No comments:

Post a Comment