Friday 1 July 2011

محبت

زمانہ چاہے پرانا ہو یا نیا ، ہر چیز اور انداز میں تبدیلی لاتا ہے ۔۔ محبت کے انداز بھی اب وہ نہیں رہے جو پرانے زمانے میں ہوا کرتے تھے ۔۔ پہلے جھجک ، معصومیت تھی ۔۔ شرمائی سی ، نظریں چراتی آنچل کا کونا مروڑتی محبوبہ جس کو دیکھنے کے لیئے محبوب ہزار جتن کرتا تھا ۔۔۔ اور ایک جھلک سراپا مجسّم یا ہاتھ پیر پر نظر پڑنے کو ہی کافی سمجھ کے خوش رنگ خوابوں میں کھو کر یہ سوچتا تھا کہ پھر کب آئے گا وہ دن جب دیدار ہوگا ۔۔۔ سادہ سی محبوبہ پراندے اور کانچ کی چوڑیوں سے خوش ہو جایا کرتی تھی ۔۔۔ اس زمانے میں اگر ریڈ روز ڈے منایا جاتا تو شائد یوں ہوتا کہ بڑی مشکل سے محبوبہ کے گھر پہنچا جاتا ۔۔۔ پورے گھر والوں سے علیک سلیک کے بعد (پہلے کزن ہی محبوب ہوتے تھے زیادہ ) بیٹھنے کے لیئے ایسی جگہ منتخب کی جاتی جہاں سے اُن پہ نظر ہو اور کانوں میں آواز بھی جائے ۔۔ پھر ہمت جمع کرکے محبوبہ کے بھائی سے کہا جاتا !!! منّے دیکھو گلاب کا پودا کتنا اچھا لگ رہا ہے ۔۔ اپنی باجی سے کہو وہ گلاب اُن کے لیئے ہے :P
پرانا وقت ذرا آگے بڑھا اس وقت بھی محبت کرنے والے گھر اور زمانے کی نظروں سے بچ بچا کے محبت کی پینگیں بڑھایا کرتے تھے ۔۔۔ آہیں بھرنا منظور ۔۔۔ مگر محبوب کی رسوائی گوارہ نہیں تھی ۔۔۔
آج کل کی محبت بیہودگی ، بے باکی ، خباثت اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔ شرم سے عاری محبوبہ کا آنچل غائب ۔۔۔ محبوب کے حوصلے جواں ۔۔۔ ہر لڑکا عمران ہاشمی کا جانشین بننے کو تیار ۔۔۔ ( ایسے لڑکوں کا منہ سِل پر رکھ کے بٹّے سے کوٹ دینا بہتر ) ہر وقت ملاقات اور جپّھی کے لیئے بیقرار ۔۔۔ لڑکی کرے انکار تو اس کو بائے بائے ، کسی اور حسین چہرے کو ہائے ہائے ۔۔۔ ویلینٹائن ڈے پر سرخ گلاب کے ساتھ ہر گُل کھلانے کو تیار ۔۔۔
محبت میں اظہار ، محبوب کو اپنا بنا لینے کی خواہش اپنی جگہ ۔۔۔ مگر محبت میں بے باکی اچھی نہیں لگتی ۔۔۔ سب کچھ کہہ کے کچھ نہ کہنے کا انداز برا نہیں ہوتا اگر کہنا آتا ہو ۔۔۔ مگر کیا کیا جائے جب محبت جیسا حسین مرض لاحق ہو ۔۔ نظروں کو محبوب کے سوا کوئی اور جلوہ دکھائی نہ دے ۔۔۔ یو فون کہے “ تم ہی تو ہو“ زونگ والے کہیں “ سب کہہ دو “ عشق کی آگ کو زمانہ ہوا دے رہا ہو تو بیچارہ عاشق کرے تو کیا کرے ۔۔۔ قصور ظالم زمانے کا الزام محبت پر ۔۔۔

No comments:

Post a Comment