Thursday 21 July 2011

آنکھ بن جاتی ہے ساون کی گھٹا شام کے بع


آنکھ بن جاتی ہے ساون کی گھٹا شام کے بعد
لوٹ جاتا ہے اگر کوئی خفا شام کے بعد
وہ جو ٹل جاتی رہی سر سے بلا شام کے بعد
کوئی تو تھا کہ جو دیتا تھا دعا شام کے بعد
آہیں بھرتی ہے شب ہجر یتیموں کی طرح
سرد ہو جاتی ہے ہر روز ہوا شام کے بعد
شام تک رہا کرتے ہیں دل کے اندر
درد ہو جاتے ہیں سارے ہی رہا شام کے بعد
لوگ تھک ہار کے سو جاتے ہیں لیکن جاناں
ہم نے خوش ہو کے ترا درد سہا شام کے بعد
خواب ٹکرا کے پلٹ جاتے ہیں‌بند آنکھوں سے
جانے کس جرم کی کس کو ہے سزا شام کے بعد
چاند جب رو کے ستاروں سے گلے ملتا ہے
اک عجب رنگ کی ہوتی ہے فضا شام کے بعد
ہم نے تنہائی سے پوچھا کہ ملو گی کب تک
اس نے بے چینی سے فورا ہی کہا شام کے بعد
میں اگر خوش بھی رہوں پھر بھی مرے سینے میں
سوگواری کوئی روتی ہے سدا شام کے بعد
تم گئے ہو تو سیہ رنگ کے کپڑے پہنے
پھرتی رہتی ہے مرے گھر میں قضا شام کے بعد
لوٹ آتی ہے مری شب کی عبادت خالی
جانے کس عرش پہ رہتا ہے خدا شام کے بعد
دن عجب مٹھی میں‌جکڑے ہوئے رکھتا ہے مجھے
مجھ کو اس بات کا احساس ہوا شام کے بعد
کوئی بھولا ہوا غم ہے جو مسلمل مجھ کو
دل کے پاتال سے دیتا ہے صدا شام کے بعد
مار دیتا ہے اجڑ جانے کا دہرا احساس
کاش ہو کوئی کسی سے نہ جدا شام کے بعد

No comments:

Post a Comment