Iftikhar ahmed
Monday, 30 December 2013
Saturday, 5 November 2011
gazlen
|
Wednesday, 26 October 2011
AMJAD ISALAM AMJAD
گزل
دل کے دریا کو کسی روز اُتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل، لوٹ کے گھر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل، لوٹ کے گھر جانا ہے
اُس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھہر جاتی ہے
جیسے پانا ہی اسے، اصل میں مر جانا ہے
جیسے پانا ہی اسے، اصل میں مر جانا ہے
بول اے شامِ سفر، رنگِ رہائی کیا ہے؟
دل کو رُکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے
دل کو رُکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے
کون اُبھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
اس کو ہر طور سوئے دشتِ سحر جانا ہے
اس کو ہر طور سوئے دشتِ سحر جانا ہے
میں کِھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے
وہ تو خوشبو ہے، اسے اگلے نگر جانا ہے
وہ تو خوشبو ہے، اسے اگلے نگر جانا ہے
وہ ترے حُسن کا جادو ہو کہ میرا غمِ دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اُتر جانا ہے
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اُتر جانا ہے
AMJAD ISALAM AMJAD
غزل
چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو تیرے غم کے بہانے نکلے
کتنے غم تھے جو تیرے غم کے بہانے نکلے
فصل گل آئی پھر اک بار اسیران ِ وفا
اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے
اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے
ہجر کی چوٹ عجب سنگ شکن ہوتی ہے
دل کی بے فیض زمینوں سے خزانے نکلے
دل کی بے فیض زمینوں سے خزانے نکلے
عُمر گزری ہے شبِ تار میں آنکھیں ملتے
کس اُفق سے مرا خورشید نہ جانے نکلے
کس اُفق سے مرا خورشید نہ جانے نکلے
کوئے قاتل میں چلے جیسے شہیدوں کا جلوس
خواب یوں بھیگتی آنکھوں کو سجانے نکلے
خواب یوں بھیگتی آنکھوں کو سجانے نکلے
دل نے اک اینٹ سے تعمیر کیا تاج محل
توُنے اک بات کہی لاکھ فسانے نکلے
توُنے اک بات کہی لاکھ فسانے نکلے
دشت تنہائی ہجراں میں کھڑا سوچتا ہوں
ہائے کیا لوگ میرا ساتھ نبھانے نکلے
ہائے کیا لوگ میرا ساتھ نبھانے نکلے
میں نے امجد اسے بے واسطہ دیکھا ہی نہیں
وہ تو خوشبو میں بھی آہٹ کے بہانے نکلے
وہ تو خوشبو میں بھی آہٹ کے بہانے نکلے
AMJAD ISALAM AMJAD
غزل
زیرِ لب یہ جو تبسّم کا دِیا رکھا ہے
ہے کوئی بات جسے تم نے چھپا رکھا ہے
چند بے ربط سے صفحوں میں‘ کتابِ جاں کے
اِک نشانی کی طرح عہدِ وفا رکھا ہے
ایک ہی شکل نظر آتی ہے‘ جاگے‘ سوئے
تم نے جادُو سا کوئی مجھ پہ چلا رکھا ہے
یہ جو اِک خواب ہے آنکھوں میں نہفتہ‘ مت پوچھ
کس طرح ہم نے زمانے سے بچا رکھا ہے!
کیسے خوشبو کو بِکھر جانے سے روکے کوئی!
رزقِ غنچہ اسی گٹھڑی میں بندھا رکھا ہے
کب سے احباب جِسے حلقہ کیے بیٹھے تھے
وہ چراغ آج سرِ راہِ َہوا‘ رکھا ہے
دن میں سائے کی طرح ساتھ رہا‘ لشکرِ غم
رات نے اور ہی طوفان اٹھا رکھا ہے
یاد بھی آتا نہیں اب کہ گِلے تھے کیا کیا
سب کو اُس آنکھ نے باتوں میں لگا رکھا ہے
دل میں خوشبو کی طرح پھرتی ہیں یادیں‘ امجد
ہم نے اس دشت کو گلزار بنا رکھا ہے
ہے کوئی بات جسے تم نے چھپا رکھا ہے
چند بے ربط سے صفحوں میں‘ کتابِ جاں کے
اِک نشانی کی طرح عہدِ وفا رکھا ہے
ایک ہی شکل نظر آتی ہے‘ جاگے‘ سوئے
تم نے جادُو سا کوئی مجھ پہ چلا رکھا ہے
یہ جو اِک خواب ہے آنکھوں میں نہفتہ‘ مت پوچھ
کس طرح ہم نے زمانے سے بچا رکھا ہے!
کیسے خوشبو کو بِکھر جانے سے روکے کوئی!
رزقِ غنچہ اسی گٹھڑی میں بندھا رکھا ہے
کب سے احباب جِسے حلقہ کیے بیٹھے تھے
وہ چراغ آج سرِ راہِ َہوا‘ رکھا ہے
دن میں سائے کی طرح ساتھ رہا‘ لشکرِ غم
رات نے اور ہی طوفان اٹھا رکھا ہے
یاد بھی آتا نہیں اب کہ گِلے تھے کیا کیا
سب کو اُس آنکھ نے باتوں میں لگا رکھا ہے
دل میں خوشبو کی طرح پھرتی ہیں یادیں‘ امجد
ہم نے اس دشت کو گلزار بنا رکھا ہے
Monday, 10 October 2011
KOI TO HOTA....
KOI TO HOTA....
mai jis k dil ki kitaab benta
mai jis ki chahet ka khawab benta
mai hijr k mosem ki lembi raaton mein
yaad ben ker azaab benta
KOI TO HOTA.....
mai jis k dil ki kitaab benta
mai jis ki chahet ka khawab benta
mai hijr k mosem ki lembi raaton mein
yaad ben ker azaab benta
KOI TO HOTA.....
jo meri khawahish mein uthh ker raaton ko khoob rota
dukhon ki chader lapeit ker hajoom_e_dunya se door hota
mai rooth jata manata mujh ko
k chahe mera kasoor hota
KOI TO HOTA....
dukhon ki chader lapeit ker hajoom_e_dunya se door hota
mai rooth jata manata mujh ko
k chahe mera kasoor hota
KOI TO HOTA....
mai jis k itna kareeb hota
na paas koi rakeeb hota
mai itna uus ka habeeb hota
ye silsila bhi ajeeb hota
KOI TO HOTA.
na paas koi rakeeb hota
mai itna uus ka habeeb hota
ye silsila bhi ajeeb hota
KOI TO HOTA.
Subscribe to:
Posts (Atom)