حفظان صحت اور ہدایات نبوی
صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
چونکہ صحت و عافیت اللہ تعالٰی کی اپنے بندے پر سب سے بڑی اور اہم نعمت ہے اور اس کے عطیات و انعامات میں سب سے عمدہ ترین اور کامل ترین ہے، لٰہذا ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی صحت و عافیت کی حفاظت و مراعات اور اس کی نگہبانی اور نگرانی ان تمام چیزوں سے کرے جو صحت کے منافی ہیں اور جس سے صحت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
چنانچہ حدیث شریف میں ارشاد ہے۔ “تمہارے جسم کا بھی تمہارے اوپر حق ہے اور وہ یہی حق ہے کہ انسان اپنے جسم کی حفاظت کرے اور ایسے اسباب پیدا نہ ہونے دئیے جائیں کہ بدن کو بیماریوں کی حد تک پہنچا دیا جائے۔“ آج کی تحقیقات نے تندرستی کے لئے یہ باتیں ضروری قرار دی ہیں۔ مثلاً بدن اور لباس صاف ستھرا رکھنا۔ پانچ وقت اعضائے ظاہری کو پاک صاف رکھنا یعنی وضو، غسل اور نماز کو قائم کرنا صحت و توانائی کے ضامن ہیں۔
یہ بھی حدیث شریف ہے کہ اللہ عزوجل کی نظر میں ایک قوی مومن کمزور مومن کے مقابلہ میں بہتر اور پسندیدہ ہے۔ یہ حدیث اس بات پر زور دیتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی صحت کی طرف خیال کرنا اور ہمیشہ صحت مند رہنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ محض بیماری اور ضعف کو دور کرنے کا نام صحت نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر جسمانی، روحانی اور سماجی آسودگی کا نام صحت ہے۔
حفظان صحت کے اصولوں کا تاجدار رسالت
حضرت ابو ہریرہ
“دوران سفر رات بسر کرنے کے لئے عام گزر گاہ سے ہٹ کر آرام کرو کیونکہ سڑک چوپاؤں کی گزرگاہ اور کیڑے مکوڑوں کا ٹھکانہ ہوتی ہے۔“(مسلم)
تاجدار رسالت
یعنی آدھا دھوپ اور آدھا چھاؤں میں نہ رہے کیونکہ اس سے بیماری کا خطرہ ہوتا ہے۔
اس موضوع پر ہم ایک مختصر گفتگو نقل کرتے ہیں جو حضور اکرم
آپ
اور یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے جذبات اور خواہشات پر قابو رکھنا ایک مسلمان کی صفت ہے اور جسم و روح کے لئے صحت کی شرط ہے۔ خیالات کی پرا گندگی اور ذہنی آوارگی سے صرف قلب ہی مردہ نہیں ہوتا بلکہ چہرے کی معصومیت اور فطری حسن بھی ختم ہو جاتا ہے۔
امام بخاری نے اپنی صحیح میں حضرت عبداللہ بن عباس
ایک صحت اور دوسرے فارغ البالی۔
سنن نسائی میں حضرت ابو ہریرہ
ترمذی ہی میں حدیث ابو ہریرہ
مسند امام میں مذکور ہے کہ نبی کریم
مسند احمد ہی میں حضرت ابو بکر صدیق
اس حدیث میں دنیا و آخرت دونوں کی عافیت کو یکجا کر دیا ہے کیونکہ دنیا و آخرت میں بندے کی پوری طور پر اصلاح یقین و عافیت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ یقین کے ذریعے آخرت کے عذاب کا دفاع ہوتا ہے اور عافیت سے دنیا کے تمام قلبی و جسمانی امراض دور ہوتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس
__________________
No comments:
Post a Comment