Sunday 27 February 2011

HAZRAT ALI KI WASIAAT




بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
 اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰالَمِینَ وَالصَّلوٰةُ وَالسَّلامُ عَلیٰ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہِ الطَّیِّبِینَ الطَّاہِرِینَ وَصَحِبَہُ المُنتَجَبِینَ وَعَلٰی جَمِیعِ أَنبِیٰائِہِ المُرسَلِینَ۔
 دوستی اسلام کی نظر میں
 دین اسلام نے اس بات پر خاص توجہ دی ہے کہ انسانی تعلقات اورلوگوں کے درمیان قائم باہمی رشتے ایسی مضبوط اورپائدار بنیادوں پر قائم ہوں جو انسان کی عقل‘ اسکے قلب اور اسکی پوری زندگی کو اپنے تابع کر لیں۔ کیونکہ انسانوں کے باہمی تعلقات انسانی زندگی کے بہت سے انفرادی اور اجتماعی اور داخلی اور خارجی پہلوئوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یعنی ان تعلقات میں یہ خاصیت پائ جاتی ہے کہ یہ الفت و محبت اور اخلاص کی ایک ایسی فضا ایجاد کردیتے ہیں کہ انسان اپنے جذبات و احساسات ‘ افکار و خیالات ‘ مختصر یہ کہ تمام رجحانات و میلانات میں ایک دوسرے کے اندر جذب ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ کیونکہ انسان مدنی الطبع (فطرتاً گروہ کی صورت میں رہنا پسند کرنے والا) ہے‘ تنہا رہنا پسند نہیں کرتا ‘ اور چاہتا ہے کہ دوسرے انسانوں کے ساتھ مل جل کر زندگی بسر کرے‘ لہذا اسکے لۓ ضروری ہوتا ہے کہ کوئ اسکا مونس و مددگار ‘ ہمدم و ہمراز دوست ہو۔ اسی بنا پر اسلام نے قرآنِ کریم اور سنتِ معصومین میں دوستی ورفاقت کے متعلق گفتگو کی ہے اور اس بارے میں ضروری رہنمائ فرمائ ہے ۔ ممکن ہے اعزہ و اقربا سے تعلقات اور ان کے ساتھ مل جل کر رہنا انسان کی روحانی پیاس نہ بجھاسکے اور وہ اپنوں کے درمیان بھی خود کو اجنبی اور تنہا محسوس کرے او راپنے بھی اسے پراۓ نظر آئں۔ لہٰذا اسے کچھ ایسے لوگوں کی ضرورت ہو گی جو اسکی فکر اور روح سے قریب ہوں اور ممکن ہے یہ اسکے اقربا و اعزہ سے بھی زیادہ اسکے قریب ہو جائں۔اس بارے میں امیر المومنین ں نے کیا خوبصورت جملہ فرمایا ہے کہ : رُبَّ اَخٍ لَکَ لَم تَلِدہُ اُمُّکَ ’’ممکن ہے تمہارے بھائوں میں سے کچھ ایسے بھی ہوں جنہیں تمہاری ماں نے پیدا نہ کیاہو۔‘‘
دوستی قرآن کی نظر میں اس گفتگو کی روشنی میں نیز ایک دوست کے دوسرے دوست پر بہت زیادہ اثر انداز ہونے کے پیش نظر پروردگارعالم نے انسان سے چاہا ہے کہ وہ دیکھ بھال کر اپنے دوست کا انتخاب کرے ۔اسی لۓ خداوندِ عالم نے قرآن مجید میں مثبت اور مفید دوستی کے بارے میں بھی گفتگو فرمائ ہے اور منفی ‘ مخرب اور خطرناک دوستی کے بارے میں بھی انتباہ کیا ہے۔
مثبت دوستی
 مثبت ومفید دوستی وہ ہے جو تقویٰ و پرہیز گاری کی بنیاد پر استوار ہو۔ یہ ایسا رابطہ ہے جو انسان کے افکار و خیالات ‘ اسکے قلب اور اس کی پوری زندگی کو تقویت پہنچاۓ۔ اس طرح کہ وہ فکری تقویٰ کا حامل ہو اور سواۓ حق کے اسکی کوئ فکر نہ ہو‘وہ قلبی تقویٰ کا حامل ہو اور سواۓ خیر اور نیکی کے اسکا دل کسی اور چیز کے لۓ نہ دھڑکے‘ اسکی پور ی حیات تقویٰ سے معمور ہو اور سواۓ صراطِ مستقیم کے کسی اور راستے پر قدم نہ اٹھاۓ۔ اگر انسان متقی اور پرہیز گار ہو او راس کی زندگی پرہیزگاری وتقویٰ پر مبنی ہو تو ایسا شخص یقینا اپنے دوست کا خیرخواہ ہوگا‘ اسے ہدایت اور اسکی راہنمائ کرے گا۔ کیونکہ دین ہے ہی نصیحت اور خیر خواہی ‘ایسا فرد اپنے دوست کا وفادار بھی ہوگا کیونکہ وفاداری ایمان کے عناصر میں سے ایک عنصر ہے۔ اگر انسان مومن ومتقی ہو تو یقینااپنے دوست کی مدد کرے گا‘ حتیٰ اس کو خود پر ترجیح دے  گا۔
اسی بنا پر خداوندِعالم فرماتا ہے کہ دوستی تقواۓ الٰہی کی بنیاد پر استوار ہو کیونکہ جن روابط و تعلقات کی بنیاد تقویٰ و پرہیزگاری پر قائم ہو ان کا آغاز خدا‘ اسکے رسول‘ اور اسکے اولیاء کے لۓ ہوتا ہے اور وہ اسلامی عقائد پر استوار ہوتے ہیں۔ لہٰذا جب تک انسان تقویٰ کے راستے پر گامزن ہو گا‘ گویا اس نے خدا کی مضبوط رسی کو تھاما ہوا ہے۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ پروردگارِ عالم نے اپنی رسی مضبوطی سے تھامنے والا ایسے شخص کو کہا ہے جو نیکوکار اور اسکے سامنے تسلیم ہو؟(١) پھرپروردگارِ عالم نے ایسی ہی دوستی کو قیامت تک باقی رہنے والی دوستی کہا ہے کیونکہ دنیامیں قائم ہونے والی ایسی دوستیاں جن کی بنیاد خدا پر ایمان اور تقویٰ و پرہیز گاری ہو‘ وہ اپنا حقیقی مقام روزِ قیامت ہی دیکھ سکیں گی‘ کیونکہ آخرت رضوانِ اکبر اور الٰہی نعمتوں کا گھر ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کے بارے میں قرآن کریم میں یوں ارشاد ہوا ہے: ألاَخِلّٰائُ یَؤمَئِذٍ بَعضُہُم لِبَعضٍ عَدُوٌّ لَّا المُتَّقِینَ ’’اس روز صاحبان تقویٰ کے سوا تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائں گے‘‘ (سورئہ زخرف ۴۳ آیت ۶۷) یعنی صرف اہلِ تقویٰ کی دوستی باقی اور جاویدانی ہوگی۔ کیونکہ متقین کی دوستی ناقابلِ زوال اور قوی بنیادوں کی حامل ہے‘ جو نہ صرف موت کی وجہ سے ختم نہیںہوتی ‘بلکہ جس طرح اس دنیا میں ان کے درمیان محبت ہو گی‘ اسی طرح سے یہ محبت آخرت میں بھی ان کے درمیان باقی رہے گی۔
آخرت میں دوست
روز قیامت باایمان اور باتقویٰ دوستوں کے بہشت میں مل بیٹھنے کے بارے٭ میں خداوندِ عالم فرماتا ہے: وَنَزَعنٰا مَافِی صُدُورِہِم مِن غِلٍّ خوَاناً عَلیٰ سُرُرٍ مُتَقٰابِلِینَ ’’اور ہم نے ان کے سینوں سے ہر طرح کی کدورت نکال لی ہے اور وہ بھائوں کی طرح آمنے سامنے تخت پر بیٹھے ہوں گے۔‘‘ (سورئہ حجر ۱۵ آیت ۴۷)
میدانِ حشر میں قدم رکھنے والے ان دوستوں کے دل میں کسی قسم کا کینہ وکدورت نہ ہوگی بلکہ ان کے دل محبت وعشقِ خدا سے پُر ہوں گے‘ اور وہ خداسے اپنے اس عشق ومحبت کی بناپر تما م انسانوں کو دوست رکھیں گے چاہے وہ ان کے حامی ہوں‘ یا مخالف۔ لہٰذا اگر کوئ واقعاً خداپر ایمان رکھتا ہو۔ یعنی خدا کی محبت نے اس کے دل کو لبریز کررکھا ہو تو پھراس کے پاس کینہ‘ کدورت اور نفرت کے لۓ کوئ جگہ باقی نہیں رہتی۔ یہ وہی بات ہے جس کی تعلیم ہمیں رسولِ کریم نے دی ہے۔ جن لوگوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کواذیت دی ان کے متعلق آپ نے پروردگارعالم سے اس طرح شکوہ کیا اور دعا فرمائ : أللّٰہُمَّ اہدِقَومِی فَنَّہُم لاٰیَعلَمُونَ’’پرودگار ا!  میری قوم کی ہدایت فرما، بلا شبہ یہ لوگ نہیں جانتے۔‘‘اس گفتگو کا نچوڑ یہ ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں دوسروں کے لۓ کینہ وکدورت نہیں اور جو بندگانِ الٰہی سے اس لۓ محبت کرتے ہیں کیونکہ خدا سے محبت کرتے ہیں وہی حقیقی مومن ہیں۔رسول اکرم فرماتے ہیں : اَلخَلقُ عَیٰالُ اللّٰہِ فَاَحَبُّ الخَلقِ لَی اللّٰہِ مَن نَفَعَ عَیٰالَ اللّٰہِ وَادخَلَ عَلیٰ بَیتٍ سُرُوراً ’’تما م مخلوق خدا کا کنبہ ہے او رخدا کے نزدیک محبوب ترین فرد وہ ہے جو خدا کے کنبے کو فائدہ پہنچاۓ اور ان کے گھروں میں سے کسی گھر میں خوشی داخل کرے ۔‘‘( اصول کافی  ج۳  ص ۱۷۰)ارشاد الٰہی ہے : وَنَزَعنٰا مَافِی صُدُورِہِم مِن غَلٍّ خوَاناً عَلیٰ سُرُرٍ مُتَقٰابِلِینَ  ’’اور ہم نے ان کے سینوں سے ہر طرح کی کدورت نکال لی ہے اور وہ بھائوں کی طرح آمنے سامنے تخت پر بیٹھے ہوں گے۔‘‘ (سورئہ حجر ۱۵ آیت ۴۷)ایمانی دوست محبت بھرے ماحول میں ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو میں مشغول ہوں گے‘ سعادت مند زندگی بسر کر رہے ہوں گے اور عظیم الٰہی نعمتوں سے سرفراز ہوں گے ’’وَرِضوانٌمن  اللہ ۔‘‘
کن لوگوں سے دوستی کریں؟
قرآنِ کریم ایک ایسے معاشرے کی تشکیل پر زور دیتا ہے جس کی بنیاددوستی اور مل جل کے زندگی بسرکرنا ہو لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کون لوگ دوستی او رمعاشرت کے قابل ہیں ؟ خداوندِ عالم رسولِ کریم  سے فرماتا ہے: وَاصبِر نَفسَک۔۔۔۔۔
یہاں خداوند ِ عالم براہِ راست پیغمبرِ اسلام  سے خطاب فرما رہا ہے‘ لیکن دراصل آنحضور  کے توسط سے تمام افرادِ بشر سے مخاطب ہے ۔ یہ اندازِ تخاطب لوگوں کے سامنے موضوع کی اہمیت میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ کیونکہ جب رب العالمین اپنے حبیب اور مخلوقات میں سے اپنی محبوب ترین ہستی سے ایک عمل کا خواستگار ہے اور اس سلسلے میں انہیں تکلیف اور مشقت برداشت کرنے کا حکم دے رہا ہے‘ تو کیسے ہو سکتا ہے کہ عام لوگوں سے یہ نہ چاہے ؟ یوں یہ انداز خداوندِ عالم کے نزدیک اس مسئلے کی انتہائ اہمیت کا عکاس ہے۔ فرمان الٰہی ہے : وَاصبِر نَفسَکَ مَعَ الَّذِینَ یَدعُونَ رَبَّہُم بِالغَدوٰةِ وَالعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجھَہُ وَلاٰ تَعُد عَینٰاکَ عَنہُم تُرِیدُ زِینَةَ الحَیٰوةِ الدُّنیٰا وَلاٰ تُطِع مَن أَغفَلنَا قَلبَہُ عَن ذِکرِنٰاوَاتَّبَعَ ہَوٰاہُ وَکَانَ اَمرُہُ فُرُطاً’’اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر پر آمادہ کرو جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلب گار ہیں اور خبردار تمہاری نگاہیں ان کی طرف سے پھر نہ جائں کہ تم زندگانی ٔ دنیا کی زینت کے طلبگار بن جائو اور کسی صورت اس کی اطاعت نہ کرنا جس کے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے محروم کر دیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کا پیروکار ہے اور اسکا کام سراسر زیادتی کرنا ہے۔‘‘ (سورئہ کہف ۱۸  آیت ۲۸)
یعنی ایسے افراد سے دوستی کیجۓ جن کی زندگی  بس خدا کے لۓ ہو‘ وہ صرف اسی کی پرستش کرتے ہوں او ران کا مقصدِ وحید خدا ہی ہو۔کیونکہ ایسے افراد کی دوستی ایمان میں اضافہ کرتی ہے‘ اور وہ آپ سے اپنی دوستی کے بندھن کی حفاظت کرتے ہیں اوراپنے عہد وپیمان پر باقی رہتے ہیں۔
دوست کا کردار
پروردگارِعالم نے دوزخ میں داخل ہوتے وقت اہلِ عذاب کی چیخ وپکار اور مدد کی التجا کا ذکر کرتے ہوۓ دوست کی اہمیت اور اس کے کردار کے متعلق بیان کیاہے ۔روز قیامت وہ کس طرح فریاد کررہے ہوں گے؟ قرآن ان کی زبان میں کہتا ہے : فَمٰالَنٰا مِن شَافِعِینَ وَلاٰصَدِیقٍ حَمِیمٍ’’اب ہمارے لۓ کوئ شفاعت کرنے والا بھی نہیں ہے اور نہ کوئ دل پسند دوست ہے۔‘‘ (سورئہ شعرا ۲۶  آیت ۱۰۰ ۔ ۱۰۱)حضرت اما م صادق ں  اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’لَقَدعَظُمَت مَنزِلَةَ الصَّدِیقِ حَتّٰی أَنَّ أَہلَ النّٰارِ یَستَغِیثُونَ بِہِ وَیَدعُونَ بِہِ فِی النّٰارِ قَبلَ القَرِیبِ الحَمِیمِ‘ قٰالَ اللّٰہُ مُخبِراً عَنہُم: فَمٰالَنٰا مِن شَافِعِینَ وَلاٰصَدِیقٍ حَمِیمٍ‘‘ ’’دوست کا کردار اس درجہ اہم اور عظیم ہے کہ اہلِ عذاب بھی اپنے دوستوں کو مدد کے لۓ بلائں گے اور قبل اس کے کہ جہنم کے کھولتے پانی (حمیم)کو پئں ‘ آتش جہنم میں انہیں پکاریں گے۔ پروردگارِ عالم ان کی حالت بیان کرتے ہوۓ فرماتا ہے :( وہ کہیں گے) نہ اب کوئ ہماری شفاعت کرنے والا ہے اور نہ ہی کوئ مخلص دوست ۔ یہاں صدیق حمیم سے مراد ایسا مخلص او رحقیقی دوست ہے جو وفادار ہو اوردوست کی مدد کے لۓ اٹھ کھڑا ہو۔ یہاں تک کہ اہلِ عذا ب بھی اپنے دائں بائں دیکھیں گے او راپنے کسی دوست کو تلاش کریں گے لیکن انہیں ان میں سے کوئ بھی نظر نہیں آۓ گا ۔ لہٰذاایک دوسرے سے سوال کریں گے کہ میراوہ فداکار دوست کہاں ہے؟اس وقت انھیں احساس ہوگاکہ غیر مومن اور غیر خداپرست شخص کے ساتھ ان کی دوستی کسی مضبوط بنیاد پر استوار نہ تھی لہٰذا موت کے بعد باقی نہیں رہی۔  جی ہاں !
   ألأَ خَلّٰائُ یَؤمَئِذٍ بَعضُہُم لِبَعضٍ عَدُوٌّ لَّا المُتَّقِینَ
’’آج کے دن صاحبانِ تقویٰ کے سوا تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائں گے۔‘‘ (سورئہ زخرف ۴۳  آیت ۶۷)
____________________
٭فمن یکفر باالطاغوت و یومن باللہ فقد استمسک بِالعُروَۃِ الوُثقٰی لاٰانفِصَامَ لَہٰا
اب جو شخص بھی طاعوت کا انکار کرکے اﷲ پر ایمان لے آۓ وہ اسکی مضبوط رسی سے متمسک ہو گیا ہے جس کے ٹوٹنے کا امکان نہیں ہے۔ سورئہ بقرہ۲  آیت۲۵۶


برے دوست
پروردگارعالم نے برے اورنامناسب دوستوں کے متعلق بھی ارشاد فرمایا ہے۔ یہ ایسے دوست ہیں جن کی دوستی پر لوگ روزِ قیامت شرمندہ ہوں گے۔ پروردگارِعالم فرماتا ہے: وَیَومَ یَعَضُّ الظّٰالِمُ عَلیٰ یَدَیہِ یَقُولُ یٰا لَیتَنِی تَّخَذتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیلاً’’اور جس دن ظلم کرنے والا (مارے افسوس کے) اپنے ہاتھ کاٹنے لگے گا اورکہے گا کہ کاش میں بھی رسول کے ساتھ دین کا سیدھا راستہ اختیار کرتا۔‘‘ (سورئہ فرقان ۲۵  آیت ۲۷) یہاں ظالم سے مراد ایسا شخص ہے جس نے کفر ‘ گمراہی اور گناہ کی راہ اختیار کرکے اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔ یہ شخص روزِ قیامت حسرت و اندوہ کے عالم میں کہے گا کہ کاش میں نے رسول کی دکھائ ہوئ راہ اختیار کی ہوتی۔ قرآنِ کریم مذکورہ بالا آیت میں آگے چل کر اس افسوس کرنے والے کی زبان میں کہتا ہے : یٰا وَیلَتٰی لَیتَنِی لَم تَّخِذ فَلاٰناً خَلِیلاً ’’ہاۓ افسوس‘ کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔‘‘ (سورئہ فرقان ۲۵  آیت ۲۸)
اس سے سوال کیا جاۓ گا :تمہیں کیا ہواہے ‘فلاںنے تمہارے ساتھ کیا کیا ہے؟ وہ جواب میں کہے گا: لَقَد أَضَلَّنِی عَنِ الذِّکرِ بَعدَ ذجَائَنی وَکَانَ الشَّیطٰانُ لِلاِنسَانِ خَذُولاً’’ اس نے ذکر (کلامِ الٰہی) آنے کے بعد بھی مجھے گمراہ کر دیا اور شیطان تو آدمی کو رسوا کرنے والا ہے ہی۔‘‘   (سورئہ فرقان۲۵   آیت ۲۹)
خدا کی نصیحت‘ اسکے پیغمبر کے ذریعے مجھ تک پہنچی ‘ جس نے میرے قلب و ذہن کو روشن کیا لیکن یہ شخص‘ میرا دوست میرے پاس آیا اور اس نے مجھے کلام الٰہی سے دور کر دیا‘ میری روح اورمیری فکر کو فطری راستے سے ہٹادیا او راپنی مطلوبہ جگہ پہنچانے کے بعد مجھے تنہا چھوڑ گیا۔ جی ہاں! شیطان‘ چاہے وہ جنوں میں سے ہو‘ چاہے انسانوں میں سے ‘بالآخر وہ انسان کو تنہا چھوڑدیگا ۔ پروردگار عالم نے انسانوں کو فریب دینے کے لۓ شیطان کے حیلوں و بہانوں کے متعلق فرمایا ہے:کَمَثَلِ الشَّیطٰانِ ذقٰالَ لِلاِنسٰانِ اکفُر فَلَمّٰا کَفَرَ قٰالَ نِّی بَرِیئٌ مِنکَ نِّی اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ العٰالَمِینَ’’ان کی مثال شیطان جیسی ہے کہ اس نے انسان سے کہا کہ کفر اختیار کر لے اور جب وہ کافر ہوگیا تو کہنے لگا کہ میں تجھ سے بیزار ہوں میں عالمین کے پروردگار سے ڈرتا ہوں۔‘‘  (سورئہ حشر ۵۹  آیت ۱۶)
 روزِ قیامت شیطان محشر میں کھڑا ہوگا ‘ لوگ آکر کہیں گے کہ اے پروردگار! شیطان نے ذمے داری قبول کرنے کے ساتھ ہمیں گمراہ کیا اور فریب دیا ہے۔ لیکن شیطان دوسرے طریقے سے اپنا دفاع کرے گا اورساری کی ساری ذمے داری خود لوگوں کے سر ڈالے گا : وَقَالَ الشَّیطٰانُ لَمّٰا قُضِیَ الأَمرُ اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُم وَعدَالحَقِّ’’اور شیطان تمام امور کا فیصلہ ہو جانے کے بعد کہے گا کہ اﷲنے تم سے بالکل برحق وعدہ کیا تھا۔‘‘ (سورئہ ابراہیم ۴۱  آیت ۲۲)
اور کہے گا : سٰارِعُوا لیٰ مَغفِرَةمِن رَبِّکُم وَجَنَّةٍ عَرضَہَا السَّمٰوٰاتِ وَالأرضِ اُعِدَّت لِلمُتَّقِینَ ’’اور اپنے پروردگارکی مغفرت اور اس جنت کی طرف سبقت کرو جس کی وسعت زمین و آسمان کے برابر ہے اور اسے ان صاحبانِ تقویٰ کے لۓ مہیا کیا گیا ہے۔‘‘   (سورئہ آل عمران ۳  آیت ۱۳۳)
اور کہے گا : انَّ اللّٰہَ وَعَدَکُم وَعدَالحَقِّ وَ وَعَدتُکُم فَاخلَفتَکُم ’’اﷲ نے تم سے بالکل برحق وعدہ کیا تھا اور میں نے بھی ایک وعدہ کیا تھا‘ پھر میں نے اپنے وعدے کی مخالفت کی۔‘‘  (سورئہ ابراہیم ۱۴  آیت ۲۲)
کیونکہ میں تو چاہتا ہی یہ تھا کہ تم سے جھوٹا وعدہ کروں ‘ تمہارے دلوں میں وسوسہ پیداکروں‘ تمہارے سامنے اچھائوں کوبرائ اور برائوں کو اچھائ بناکر پیش کروں ‘اس لۓ کہ تم سے میری دشمنی کی ابتدا تو تمہارے باپ آدم اور تمہاری ماں حوا ہی سے ہو چکی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے :انَّ الشَّیطٰانَ لَکُم عَدُوًّا فَاتَّخِذُوہُ عَدُوًّا نَّمٰا یَدعُوحِزبَہُ لِیَکُونُو مِن اَصحٰابِ السَّعیر’’بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے‘ تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھو ۔وہ اپنے گروہ کو صرف اس بات کی طرف دعوت دیتا ہے کہ وہ سب کے سب جہنمی بن جائں۔‘‘ (سورئہ فاطر ۵۳ آیت ۶) دشمن‘ دشمن کے ساتھ کس طرح پیش آتا ہے؟کیا دشمن ‘ دشمن کا خیر خواہ ہوتا ہے یا اس سے کینہ و عداوت رکھتا ہے؟ پروردگارِ عالم اپنی کتاب قرآن مجید میں شیطان کے قول کو نقل کرتا ہے ‘(وہ کہے گا)۔ وَمٰاکٰانَ لی عَلَیکُم مِن سُلطٰانٍ’’اور میرا تمہارے اوپر کوئ زور بھی نہیں تھا۔‘‘  (سورئہ ابراہیم۱۴۔ آیت ۲۲) اور پرودگارِ عالم نے شیطان کو خطاب کرکے کہا: اِنَّ عِبٰادِی لَیسَ لَکَ عَلَیہِم سُلطٰاناً اِلّٰا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الغٰاوِینَ ’’میرے بندوں پر تیرا کوئ اختیار نہیں ہے سواۓ ان گمراہوں کے جو تیری پیروی کرنے لگیں۔‘‘ (سورئہ حجر ۱۵  آیت ۴۲) فَلاٰ تَلُومُونی ’’تو اب تم مجھے ملامت نہ کرو‘‘ (سورئہ ابراہیم ۱۴  آیت ۲۲)اس وقت شیطان کہے گا کہ پروردگار کی طرف سے اس قدر اتمام حجت کر دینے کے بعد مجھے ملامت نہ کرو۔ اس لۓ کہ میں نے پہلے ہی پروردگار عالم سے عرض کردیا تھا : فَبِمٰا اَغوَیتَنِی لَأَقعُدَنَّ لَہُم صِرَاطِکَ المُستَقِیمَ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُم مِن بَینَ اَیدِیہِم وَمِن خَلفِہِم وَعَن اَیمٰانِہِم وَعَن شِمٰائِلِہِم وَلٰاتَجِدُ اَکثَرَہُم الشَّاکِرِینَ ’’پس جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے‘ میں تیرے سیدھے راستے پر بیٹھ جائوں گا۔ اسکے بعد سامنے‘ پیچھے اور دائں‘ بائں سے آئوں گا اور تو دیکھے گا کہ اکثریت شکرگزار نہیں۔‘‘  (سورئہ اعراف ۷  آیت ۱۶۱۷)
لہٰذا میرا مقصداور ارادہ  پہلے ہی سے واضح تھا او رمیں نے تمہارے باپ آدم سے کینہ او رانتقام کی بنا  پر تمہیں فریب دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وَلُومُوا اَنفُسَکُم پس میرے بجاۓ ‘خود اپنے آپ کو ملامت کرو ۔ پروردگارِ عالم نے تمہیں عقل دی‘ تمہارے لۓ اپنے پیغمبر بھیجے‘ تمہیں ارادہ و اختیار اور حقِ انتخاب بخشا‘ سعادت اورشقاوت کے راستے تمہارے سامنے واضح کۓ ‘ پھر بھی تم نے کیوں جنت کا راستہ نہیں اپنایا اور جہنم کا راستہ منتخب کیا؟جبکہ تم کو علم تھا کہ میرا گروہ‘ جہنمیوں کا گروہ ہے : مٰااَنَا بِمُصرِخِکُم  نہ میں تمہاری مددکو پہنچ سکتا ہوں  وَمٰا اَنتُم بِمُصرِخِی او رنہ تم میری مدد کو پہنچ سکتے ہو۔ وہاں ہر ایک کو اپنی پڑی ہو گی۔ انِّی کَفَرتُ بِمَا اَشرَکتُمُونِ ’’میں تو پہلے ہی سے اس بات سے منکر ہوں کہ تم نے مجھے اس کا شریک بنا دیا۔‘‘ (سورئہ ابراہیم ۱۴ آیت ۲۲)
اقوالِ معصومین میں دوستی
ہم نے جو کچھ عرض کیا اس سے واضح ہے کہ یہ آیت (سورئہ ابراہیم کی آیت ۲۲) بہت سی احادیث کے معنی کو اجاگر کرتی ہے۔ رسول اسلام  کی ایک حدیث ہے جس میں آنحضرت فرماتے ہیں : اَلمَرئُ عَلیٰ دِینِ خَلِیلِہِ فَلیَنظُر اَحَدُکُم اِلیٰ مَن یُخٰالِلُ  ’’ہر شخص اپنے دوست کی عادات و اطوار اپناتاہے لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو نظر رکھنا چاہۓ کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے۔‘‘ یعنی دوستی اور میل جول انسان پر اثر انداز ہوتی ہے اور اسی کے زیر اثر وہ اپنے دوستوں اور ملنے جلنے والوں کا دین اپنا لیتا ہے۔ لہٰذا جب بھی کسی سے دوستی کرنا چاہیں تو اس شخص کے دین کی تحقیق کرلیں اور جب تک مطمئن نہ ہوجائں کہ مدِمقابل آپ کو آپ کے عقیدے اور دین سے منحرف نہ کرے گا اور نہ صرف آپ کو آپ کے دین سے گمراہ نہ کرے گابلکہ آپ کے دین میں تقویت کا بھی باعث ہو گا اس وقت تک اسکی جانب دوستی کا ہاتھ نہ بڑھائں۔ اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا ایک ذریعہ ان کے دوست بھی ہیں۔ لہٰذا اگر آپ کسی انسان کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں تو یہ فیصلہ کس بنیاد اور کسوٹی پر کریں گے؟ حضرت  سلیمان  بن داؤد فرماتے ہیں: لٰا تُحَکِّمُوا عَلیٰ رَجُلٍ بِشَیئٍ حَتّٰی تَنظِرُوا لیٰ مَن یُصٰاحِب’’کسی شخص کے بارے میں اس وقت تک فیصلہ نہ دو جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ وہ کس کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔‘‘ یہ وہی معروف مثل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ : تم بتائو کس کے دوست ہو تاکہ ہم بتائں کہ تم کون ہو۔ او رحقیت بھی یہی ہے۔ انسان کو اس کے ہم فکر، ہمدل اور ہمدم سے پہچانا جا سکتا ہے ۔اس لۓ کہ ہر شخص اپنے ہم رنگ سے مانوس ہوتا ہے : ایک دوسری حدیث میں پیغمبر اسلام  سے نقل ہوا ہے :  ختَبُروا النَّاسَ بِاَخدَانِہِم’’لوگوں کی شناخت ان کے دوستوں کے ذریعے کرو۔‘‘ اخدان خدین کی جمع ہے خدین یعنی ہم راز دوست یا راز محفوظ رکھنے والا دوست  لہٰذا جو کوئ بھی اپنے لۓ کسی کو ہمراز دوست کے بطور منتخب کرتا ہے ، درحقیقت اس سے فکری وروحی مماثلت رکھتا ہے۔  اور یہ احادیث اس بات کی شدیدتاکید کررہی ہےں کہ دوستی مشکلات کا سبب اور خطرناک بھی ہوسکتی ہے۔ واضح سی بات ہے کہ جب انسان کسی کی جانب کشش محسوس کرتا ہے اور اسکا شیفتہ ہوتا ہے تو دراصل اسکی صفات اور عادات و اطوار کا شیفتہ ہوتا ہے ‘ اسکی شخصیت کے عناصر سامنے والے فرد کی شخصیت کے عناصر سے نزدیک ہوتے ہیں۔
حضرت علیں فرماتے ہیں:اَلنَّفُوسُ اَشکٰالٌ فَمَا تَشَاکَلَ مِنہٰا اِتَّفَقَ وَالنَّاسُ اِلیٰ اَشکٰالِہِم اَمیَلُ
’’نفوس مختلف اور طرح طرح کی شکلوں کے ہوتے ہیں‘ ایک جیسی شکلیں آپس میں مل جاتی ہیں اور لوگ اپنی شکلوں کی جانب زیادہ مائل ہوتے ہیں‘‘۔ایک دوسری حدیث میں فرمایا: فَسَادُالاَخلاٰقِ مَعٰاشِرُة السُّفہٰائِ وَصَلاٰحُ الاَخلاٰقِ بِمُنٰافِسَةِ العُقَلاٰئِ وَالخَلقُ اَشکٰالٌ فَکُلٌّ یَعمَلُ عَلیٰ شَاکِلَتِہِ وَالنّٰاسُ اِخوٰانٌ فَمَن کٰانَت اِخوَتُہُ فِی غَیرِ ذَاتِ اللّٰہِ فَاِنَّہٰا تَحُوزُ عَدَاوَةً وَذٰالِکَ قَولُہُ تَعٰالیٰ: اَلاٰخَلاّٰئَُ یَومَئِذٍ بَعضُہُم لِبَعضٍ عَدُوٌّ اِلاّٰ المُتَّقِینَ ’’احمقوں اور بےوقوفوں کے ساتھ ہم نشینی اخلاقی بگاڑ پیداکرتی ہے اور عقلمندوں کے ساتھ میل جول اخلاقی سدھار کا موجب ہوتا ہے۔ لوگ طرح طرح کے ہوتے ہیں اور ہر شخص اپنے جیسے شخص کے ساتھ گامزن ہے ۔ لوگ آپس میں بھائ بھائ ہیں ۔اب جس کی برادری بھی خدا کے لۓ نہ ہو دشمنی میں تبدیل ہوجاتی ہے اور یہی پروردگارِ عالم کے اس قول کے معنی ہیں کہ :َاس دن سارے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائں گے سواۓ متقین کے ۔‘‘ قرآن کریم نے حساب اور عذاب کے موقع پر برے دوست کی کیفیت کے متعلق اس طرح فرمایا ہے: قٰالَ قَائِلٌ مِنہُم اِنّی کٰانَ لِی قَرِینٌ یَقُولُ اَئِنَّکَ لَمِنَ المُصَدِّقِینَ اَئِذٰا مِتنٰا وَکُنّٰا تُرٰاباً وَعِظٰاماًأَ ئِ نَّا لَمَدیِنُونَ قَالَ ہَل اَنتُم مُطَّلِعُونَ فَاطَّلَعَ فَر ہُ فِی سَوَائِ الجَحیمِ قَالَ تَاللّٰہِ اِن کِدتَ لَتُردِینَ ’’انھیں میںسے ایک کہنے والا کہے گا کہ دنیا میں میرا ایک دوست تھا اور(مجھ سے) کہا کرتا تھاکہ کیا تم بھی قیامت کی تصدیق کرنے والوں میں سے ہو۔ بھلا جب ہم مرکر مٹی اور ہڈی ہو جائں گے تو ہمیں ہمارے عمل کا بدلہ دیا جاۓ گا(پھر بہشت میں اپنے ساتھیوں سے کہے گا) کیا تم لوگ بھی اسے دیکھوگے۔ یہ کہہ کر نگاہ ڈالی تو اسے بیچ جہنم میں پڑا ہوا دیکھا (یہ دیکھ کر بے ساختہ ) کہے گا کہ خدا کی قسم قریب تھا کہ تو مجھے بھی تباہ کر دیتا ۔‘‘  (سورئہ صافات ۳۷  آیت ۵۱ ۵۶)
توہمیں ہوشیار رہنا چاہۓ اور ایسے دوست بنانے چاہئں جو اہلِ بہشت میں سے ہوں‘ جنہیں لوگ ان کے ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے پہچانتے ہوں‘ اہلِ کفر و عذاب میں سے نہ ہوں۔جب انسان روزِ قیامت اپنے برے دوست کو دیکھے گا تو پشیمان ہوگا او رایسے دوست کی دوستی پر کفِ افسوس ملے گا۔ قرآن مجید نے اس لمحے کی اس کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: قَالَ یٰالَیتَ بَینی وَبَینَکَ بُعدَ المَشرِقَینِ فَبِئسَ القَرِینِ’’کہے گا کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق ومغرب کا فاصلہ ہوتا‘ یہ تو بڑا بدترین ساتھی نکلا۔‘‘(سورئہ زخرف ۴۳  آیت ۳۸) اے کاش‘ میں کبھی نہ تجھ سے ملا ہوتا ‘میرے اور تیرے درمیان اس قدر فاصلہ ہوتا کہ کبھی ہماری ملاقات نہ ہوئ ہوتی ۔مجھے یاد ہے کہ تونے مجھ میں کیسے کیسے وسوسے پیدا کۓ‘ مجھے گمراہ کیا اور ایسے راستے پر ڈال دیا جس کا انجام دوزخ میں ڈالے جانے کی صورت میں برآمد ہوا۔ پروردگارِ عالم برے دوست کی کیفیت کے متعلق اس طرح فرماتا ہے: جب انسان کے عمل کا حساب وکتاب ہورہا ہوگا اورجب وہ پرودگارِعالم کی عدالت میں اس کے سامنے کھڑا ہوگا تو اپنے اعمالِ بد کے لۓ عذر پیش کرے گا ‘ بہانے تلاش کرے گا اوراپنی گمراہی کاالزام اپنے دوست کے سر ڈالنے کی کوشش کرے گا۔قٰالَ قَرِینُہُ رَبَّنٰا مَا اَطغَیتُہُ وَلٰکِن کٰانَ فِی ضَلاٰلٍ بَعِیدٍ قٰالَ لاٰ تَختَصِمُوا لَدَیَّ وَقَد قَدَّمتُ لَیکُم بِالوَعِیدِمٰا یُبَدَّلُ القَول لَدَیَّ وَمٰااَنَا بِظَلاّٰمٍ لِلعَبِیدِ یَومَ نَقُولُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امتَلاتِ وَتَقُولُ ہَل مِن مَزِیدٍ ’’اس وقت اس کا ساتھی کہے گا پروردگارا! ہم نے اس کو گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ تو خود گمراہی میں بہت دور چلا گیا تھا۔ اس پر خدا فرماۓ گا: ہمارے سامنے جھگڑا نہ کرو ‘ میں تو تم کو پہلے ہی عذاب کی خبر دے چکا تھا‘ میرے یہاں بات بدلا نہیں کرتی اورنہ میں بندوں پر ذرّہ برابر ظلم کیا کرتا ہوں۔ اس دن ہم دوزخ سے پوچھیں گے کہ کیا تو بھر چکی ہے تو وہ کہے گی: کیا کچھ اور مل سکتا ہے۔‘‘  (سورئہ ق ۵۰  آیت ۲۷  ۳۰)
دوسر ے مقام پر اﷲ رب العزت ان برے احباب کے متعلق (جو اس پر مسلط ہیں اور اسے چاروں طرف سے گھیرے ہوۓ ہیں )اس طرح فرماتا ہے : وَقَیَّضنٰا لَہُم قُرَنٰائَ فَزَیَّنُوا لَہُم مٰا بَینَ اَیدِیہِم  وَمٰاخَلَفَہُم’’او رہم نے ان پر ایسے احباب او رہم نشینوں کو مقرر کیا کہ جنھوں نے جو کچھ ان کے سامنے تھا او رجو کچھ ان کے پیچھے تھا اسے ان کی نظروں میں خوبصورت بناکر پیش کیا تھا۔‘‘ (سورئہ فصلت ۴۱  آیت ۲۵)
صحیح ہے کہ پروردگارِعالم نے اس آیت میں برے دوستوں کے ذریعے لوگوں کی گمراہی کا قصور وار خود انہی لوگوں کو قرار دیاہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خدا نے برے دوستوں کو ان پر زبردستی مسلط کردیا تھا بلکہ خود انھوں نے اپنے ارادے اور اختیار سے برے دوستوں کا انتخاب کیا تھا۔ اسی طرح پروردگارِعالم نے ہمیں یہ اختیار وارادہ دیا ہے کہ ہم برے دوستوں کی جگہ اچھے اور صحیح ددستوں کا انتخاب کریں اور سیدھا راستہ طے کرنے میں ان سے مدد لیں۔
دوست کی آزمائش
حضرت امام صادق ں نے کچھ ایسی علامات بتائ ہیں جن کے ذریعے دوستوں کی آزمائش کی جاسکتی ہے۔مَن غَضَبَ عَلَیکَ مِن خوَانِکَ ثَلاٰثَ مَرّٰاتٍ فَلَم یَقُل فِیکَ شَرّاً فَاتَّخِذہُ لِنَفسِکَ صَدِیقاً
’’تمہارے بھائوں میں سے جو کوئ تم سے تین مرتبہ ناراض ہو اس کے باوجود تمہارے بارے میں کوئ بری بات نہ کہے تو اسے اپنا دوست بنالو۔‘‘بعض اوقات دوستوں کے درمیان اختلاف اور مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایک دوست ددسرے دوست سے ناراض ہو جاتا ہے لیکن ان میں محبت اسی طرح باقی رہتی ہے اور ایک دوسرے کی برائ نہیں کرتے۔ لہٰذا اگر یہی کیفیت تین مرتبہ پیش آۓ تو اپنے ساتھی کو ایک متوازن شخصیت کا حامل اورودستی کے قابل سمجھو۔ کیونکہ ایسا شخص اخلاقی قواعد کی پابندی کرے گا اوراسے اس کا غصہ تمہارے متعلق برا بھلا کہنے پر آمادہ نہ کر سکے گا۔ایک دوسری حدیث میں حضرت سے وارد ہوا ہے : لٰاتَسَمِّ رَجُلاً صَدِیقاً سِمَۃً مَعرُوفَۃً حَتّیٰ تَختَبِرَہُ بِثَلاٰثٍ فَتَنظُر غَضَبَہُ یَخرُجُہُ مِنَ الحَقِّ اِلیٰ البٰاطِلِ وَعِندَ الدِّینٰارِ وَالدِّرہَمِ وَحَتّیٰ تُسٰافِرَمَعَہُ  کسی کو اس وقت تک اپنا جگری دوست نہ کہو اور ایک دوست کی حیثیت سے اسکا تعارف نہ کرائو جب تک تین چیزوں سے اس کا امتحان نہ کرلو۔ دیکھو کہ :
١۔اس کا غصہ اسے حق سے نکال کر باطل کی طرف تو نہیں لے جاتا۔ ٢۔ درہم ودینار (روپے پیسے کے معاملے) میں کیسا ہے؟ (خیانت کا مرتکب ہوتا ہے یا تمہارے اموال کو بطور امانت محفوظ رکھتا ہے؟ روپیہ پیسہ اسے تمہاری دوستی سے زیادہ تو عزیز نہیں۔)
٣۔ اس کے ساتھ سفر کرو‘ (کیونکہ بعض اوقات سفر کی صعوبتیں انسان کوتعادل اور توازن سے خارج کردیتی ہیں۔ لہٰذا اگر اس موقع پر اس میں توازن باقی رہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مضبوط اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر چلنے والا شخص ہے)۔ 


مطلوب دوست
معصومین  کی احادیث میں ان لوگوں کی خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے دوستی کی جاسکتی ہے اور جنہیں بطور دوست منتخب کیا جاسکتا ہے ۔حضرت امام صادق ں فرماتے ہیں :’’اِصحَب مَن تَتَزَیَّنَ بِہِ وِلاٰ تَصحَب مَن یَتَزَیَّنُ بِکَ‘‘ ’’ایسے شخص کو دوست بنائوجو تمہاری زینت بنے اور ایسے شخص کو دوست نہ بنائو جو(تم سے سوء استفادہ کرے)تمہارے ذریعے اپنی شان بناۓ (اور بالا خر تمہاری آبرو کم  ہوجاۓ) ۔‘‘ یعنی ہم نشینی اور دوستی کے لۓ مفید شخص کا انتخاب کرو تاکہ اس دوران اس کے علم واخلاق سے استفادہ کر سکو۔ ایسے شخص کو دوستی کے لۓ منتخب نہ کرو جس سے مستفید نہ ہو سکواوروہ تمہیں اپنا دوست سمجھے جبکہ وہ تمہارا ہم پلہ نہ ہو بلکہ تم سے کمتر ہو۔حضرت امام حسن ںنے اپنی عمر کے آخری لمحات میں جنادہ کو نصیحت فرمائی: اِصحَب مَن اِذَا صَحِبتَہُ زَانَکَ وَاِذَا خَدَمتَہُ صٰانَکَ‘  َواِذٰا اَرَدتَ مِنہُ مَعُونََۃً اَعٰانَکَ‘ وَاِن قُلتَ صَدِّقَ قَولَکَ وَاِن صِلتَ شَدَّ صَولَکَ‘ وَاِن مَدَدتَ یَدَکَ بِفَضلٍ مَدَّہٰا‘ وَاِن بَدَت عَنکَ ثُلمَةً سَدَّہٰا‘ وَاِن رَایٰ مِنکَ حَسَنَۃً عَدَّہٰا‘ وَاِن سَاَلتَہُ اَعطٰاکَ وَاِن سَکَتَّ  عَنہُ اِبتَدَاکَ‘ وَاِن نَزَلَت ِاحدَی المُلِمّٰاتِ بِہِ َسٰاوَاَکَ ’’دوستی اورہم نشینی کے لۓ ایسے شخص کا انتخاب کروجس کی دوستی تمہارے لۓ زینت کا باعث ہو‘ اور جب اس کی خدمت کرو تو وہ تمہارا خیال رکھے ‘اگر اس سے مدد چاہو تو وہ تمہاری مددکرے ‘ اگر کوئ بات کہو تو تمہاری تصدیق کرے‘ اگر گوئ حملہ کرو تووہ تمہارے حملے کو شدت بخشے‘ اگر ہاتھ بڑھا کر اس سے کوئ چیز طلب کرو تو تمہاری مدد کرے‘  اگر تم کوئ نقصان اٹھائو تو وہ اس کی تلافی کرے‘ اگر تم اس کے حق میں نیکی اور بھلائ کرو تو اس کا لحاظ رکھے‘ اگر اس سے کوئ چیز مانگو تو تمہیں عطاکرے، اگر (حیا کی وجہ سے) خاموش رہو تو مدد اور بخشش میں پیش قدم ہو اور اگر کسی مصیبت سے دوچار ہوجائو تو وہ بھی خود کو مصیبت میں مبتلا سمجھے۔‘‘حضرت علیںنے فرمایا: اَکثِرِالصَّوابَ وَالصَّلاٰحَ فِی صُحبَۃِ اُولی النُّہیٰ وَالاَلبٰابِ’’اپنی خوش نصیبی اور شائستگی کوصاحبانِ خرد کی ہم نشینی سے بڑھائو۔‘‘ مزید فرماتے ہیں: صاحب الحکمائ(صاحبان حکمت کی صحبت اختیار کرو۔) تاکہ ان کی حکمت سے فائدہ اٹھائو۔ وَ جَالِسِ الحُلَمَاء  (بردبار اور حلیم افراد کے ہم نشین بنو )بردبار افراد وہ ہیں جن کے قلوب میں وسعت پائ جاتی ہے ۔ وَاَعرِض عَنِ الدُّنیٰا تَسکُنُ جَنّۃََ المٰأویٰ ( دنیا سے منھ موڑلو تاکہ بہشتِ بریں میں جگہ حاصل کرسکو)۔ دوسرے مقام پر حضرت علی ں فرماتے ہیں: عَجِبتُ لِمَن یَرغَبُ فِی التَّکَثُّرِ مِنَ الاصحٰابِ کَیفَ لٰا یَصحَبُ العُلَمَاء الأَلِبَّاء الاَتقِیَاء اَلَّذِینَ یَغنِمُ فَضَائِلَہُم وَتُہَذِّبُہُ عُلُومُہُم وَتُزَیِّنُہُ صُحبَتَہُم ۔’’مجھے تعجب ہے ایسے شخص پر جو دوستوں کی کثرت کا خواہشمند ہوتا ہے‘ آخر وہ کیوں صاحبانِ علم و خرد اور اہلِ تقویٰ کی صحبت اختیار نہیں کرتا ہے جن کے فضائل اسکے لۓ غنیمت ہوں گے‘ جن کے علوم اسے مہذب بنائں گے‘ نیز ان کی ہم نشینی اس کے لۓ زینت بخش ہو گی۔‘‘مَن دَعٰا کَ اِلَی الدَّارِالبَاقِیۃِ وَاَعٰانَکَ عَلَی العَمَلِ فَہُوَالصَّدیقُ الشَّفِیقُ جو بھی تمہیں دارِ بقا (آخرت) کی طرف بلاۓ اورمیدانِ عمل میں تمہارا معاون ومددگار ہو‘  وہ تمہارامہربان اور حقیقی دوست ہے۔‘‘ کیونکہ ایسا ہی دوست تمہیں آخرت کی یاد دلانے والا‘ خدا پسند کاموں میں تمہاری مدد کرنے والا اور تمہیں نجات اور اچھے راستے کی طرف لے جانے والا ہے۔ نیز آپ نے فرمایا: قٰارِن اَہلَ الخَیرِ تَکُن مِنہُم وَبٰایِن اَہلَ الشَّرِّ تَبِن مِنہُم بِہِ ’’نیک افراد کا قرب اختیار کرو ‘ تاکہ انھیں میںسے ہوجائو ‘او ربرے افراد سے دور رہو ‘ تاکہ ان میں شمار نہ کۓ جائو۔‘‘
اہلِ بیت (ع) کے افکار
 میرے عزیز و! ائمہ ٔ اہل بیت  کی امامت کا پیروکار ہونا ہم پر لازم کرتا ہے کہ ہم زندگی کے متعلق ان کی راہ وروش کا مطالعہ کریں‘ وہی راہ و روش جو صحیح معنی میں حقیقی اور خالص اسلامی راہ و روش ہے ۔ ہمارا فرض ہے کہ ان کے کلمات او ران کے ارشادات بھی پیشِ نظر رکھیں اور واقعات وحوادث کے مقابل ان کے طریقے اور سیرت کو بھی مدِنظر رکھیں ۔اس لۓ کہ امامت کی پیروی کے معنی کتاب خدا اور سنتِ پیغمبر سے ماخوذ اسلام کی پیروی ہے۔ ائمۂ ہدیٰ کی سیرت ‘سیرتِ پیغمبر  ہی ہے اور ان کا کلام بھی وہی ہے جو رسولِ خدا  کا کلام ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنی زندگی کو ان کی فکری اور عملی زندگی کے مطابق بنانا چاہۓ ‘ صرف ان کے غم اور مسرت کے ایام منانے پر اکتفانہ کریں۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ وہ اسلام کا ان حضرات نے جو کچھ بھی مظالم او رمصائب برداشت کۓ وہ صرف اسلام کے لۓ تھے۔اور یہ وہی چیز ہے جسے ہم معصومۂ کونین ‘ سیدة النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی میں بھی دیکھتے ہیں۔ بالخصوص فتنہ وآشوب کے ایام میں آپ نے جو کچھ فرمایا‘ جب اس کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس پر غور کرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ آپ کے کلام کا محور اسلام اور اس کا دفاع تھا۔حتی آپ نے حضرت علی کا دفاع بھی اس وجہ سے کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے برحق امام اور امیرِ اسلام تھے اس وجہ سے نہیں کہ علی  آپ کے شوہر تھے۔ گو کہ ہم حضرت علی  کے امامِ برحق اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے شوہر ہونے کے درمیان کسی فرق کے قائل نہیں ہیں لیکن انھوں نے آپ  کی امامت کی وجہ سے آپ  کا دفاع کیا اپنا شوہر ہونے کی بناپر نہیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جسے ہمیں اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ مدِ نظر رکھنا چاہۓ اور اہلِ بیت  سے فکر‘ عقیدے‘ عمل اور زندگی کے میدان میں رابطہ استوار کرنا چاہۓ‘ تاکہ ہم انہیں اپنے عصر اور زمانے میں لا سکیں اور انھیں تاریخ کے ایک خاص حصے او ردائرے میں محدود نہ کریں‘ اسی طرح جیسے بدقسمتی سے تاریخ کے دوران ان کے ساتھ یہی سلوک ہوا ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ ہمیں مسلمانوں اور غیر مسلموں نیز مغرب و مشرق میں پھیلے ہوۓ عصرِ حاضر کے انسانوں کے اذہان کو افکارِ اہلِ بیت  سے معمور اور منور کرنا چاہۓ۔ کیونکہ صرف انہی کے افکار انسانی حیات کو روشن کر سکتے ہیں۔ پس ہمیں انہیں چھوٹا اور معمولی بنا کر پیش نہیں کرنا چاہۓ‘ انہیں صرف اشک و عزا تک محدود نہیں کرنا چاہۓ بلکہ ہمیں چاہۓ کہ انہیں فکر و تہذیب کا سرچشمہ اور تمام عالم کو منور کرنے والا سمجھیں۔

No comments:

Post a Comment