Sunday 27 February 2011

DOSTI


 قرآن کی نظر میں غیر مطلوب اور
ناقابلِ معاشرت دوست
قرآن کی نظر میں غیر مطلوب اور ناقابلِ معاشرت دوست یہ بات جاننے کے لۓ کہ کن لوگوں سے دوستی اور فاقت کا رشتہ قائم نہ کیا جاۓ اور ان معیارات اور پیمانوں کی تشخیص کے لۓ جن پر مومن اور صالح افراد کی دوستیاں استوار ہونی چاہئں ‘ ہم کتابِ خدا قرآن مجید اور احادیثِ معصومین  سے رجوع کرتے ہیں۔اس بارے میں قرآن مجید فرمارہا ہے : یَومَ  یَعَضُّ الظّٰالِمُ عَلیٰ یَدَیہَ ’’اس دن ظالم (مارے افسوس کے) اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا۔‘‘یہاں ظالم سے مراد وہ شخص ہے جس نے کفر ‘ فسق وفجور او رانحراف کی راہ اپنا کر اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔ یَقُول یٰالَیتَنِی تَّخَذتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیلاً ’’اور کہے گا کہ کاش میں نے رسول کے ساتھ ہی راستہ اختیار کیا ہوتا۔‘‘یعنی‘ اے کاش‘ میں اس راستے کو اختیار کرتا جسکی پیغمبر  نے دعوت دی تھی‘ اور اسی راہ پر ان کے ہمراہ چلتا۔ پھر جانکاہ فریاد کے ساتھ کہے گا:  یٰا وَیلَتیٰ لَیتَنی لَم اَتَّخِذُ فُلاَناً خَلِیلاً ’’ہاۓ افسوس ‘  کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔‘‘ یعنی کافر او رگمراہ شخص جس نے غیر مناسب فرد کو اپنا دوست بنایا ہو گا‘ اب اس دوستی پر کفِ افسوس ملے گا۔لیکن کیوں پشیمان ہو گا؟ اس لۓ کہ: لَقَداَضَلَّنی عَنِ الذِّکرِ بَعدَ اِذجَائَنی’’اس (دوست) نے ذکر آنے کے بعد بھی مجھے گمراہ کر دیا۔‘‘وہ ذکر جسے پیغمبر لے کر آۓ وہ قرآنِ کریم ہے ‘ ایک ایسی کتاب جو انسان کو خداوندِ متعال اور اس راہ کی طرف متوجہ کرتی ہے جس پر انسان کو چلنا چاہۓ ۔وَکٰانَ الشَّیطٰانُ لِلانسٰانِ خُذُولاً ’’ اور شیطان تو انسان کو ذلت ورسوائ میں چھوڑدیتاہے ۔‘‘ اور روز قیامت کوئ ذمے داری قبول نہیں کرتا۔ ایک اور طرح کے دوست جن کی قرآنِ مجید میں مذمت کی گئ ہے اور جنہیں نامناسب قرار دیا گیا ہے وہ افراد ہیں جو باطل اور غلط طریقے سے آیاتِ الٰہی میں غور و خوض کرتے ہیں تاکہ بخیال خود ان میں نقص اور کمی ڈھونڈ کر ان کا انکار کریں‘ ان کا مذاق اڑائں او ران کی مخالفت کریں۔ اس طرح کے دوستوں کے متعلق قرآن مجید فرماتا ہے: وَاِذ رَاَیتَ الَّذِینَ یَخُوضُونَ فی آیٰاتِنٰا فَاَعرِض عَنہُم حَتّٰی یَخُوضُوا فی حَدِیثٍ غَیرَہُ وَاِمّٰا یُنسَیَنَّکَ الشَّیطٰانُ فَلاٰتَقعُد بَعدَ الذِّکریٰ مَعَ القَومِ الظّٰالِمِینَ ’’اور جب تم ان لوگوں کو دیکھو جوہماری آیتوں کے متعلق بیہودہ بحث کررہے ہیں تو ان(کے پاس) سے ہٹ جائو یہاں تک کہ وہ لوگ کسی اور بات پر بحث کرنے لگیں او راگر شیطان تمہیں یہ حکم بھلادے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ ہرگز نہ بیٹھنا۔‘‘  (سورہ انعام ۶  آیت ۶۸)
قرآنِ مجید کی اس آیت سے اچھی طرح سمجھا جاسکتاہے کہ ہمیں اسلام کے خلاف زہر اگلنے والے افراد سے دور رہنا چاہۓ۔ پردگارِعالم کو یہ بات پسند نہیں کہ ہم اس بزم میں شریک ہوں جس بزم میں لوگ اسلام کے خلاف گفتگو میں مصروف ہوں۔ لہذا ظاہر ہے کہ وہ ہمیں اس بات کی اجازت بھی نہ دے گا کہ ہم اس طرح کے افراد کے ساتھ نشست وبرخاست رکھیں۔جب اﷲ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ ہم اس محفل تک سے نکل جائں جس میں اسلام کے خلاف گفتگو ہورہی ہو تو پھر کیسے یقین کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایسے افراد کے ساتھ ہماری  دوستی او ران سے ہمارا میل جول قبول کرے گا؟ پروردگارِعالم ہم سے کہتا ہے کہ ایسی دوستی قائم کریں جس کی بنیاد ایمان اورتقویٰ پر ہو۔ لہٰذا ایسے مومن سے دوستی کا رشتہ قائم کریں جو خدا‘ رسول‘ اولیاۓ الہٰی اور روزِقیامت پر ایمان نیز تقویٰ‘ خشوع  اوراطاعتِ خدا میں آپ سے نزدیک ہو۔ کیونکہ ایسی ہی دوستیاں باقی رہتی ہیں یہاں تک کہ ایسے دوست باہم بہشت بریں میں داخل ہوں گے اور وہاں بھی اسی طرح دوست بن کر رہیں گے جس طرح دنیا میں ایک  دوسرے کے دوست تھے۔ لیکن وہ لوگ جو دیانت اور تقوا میںآپ کی مثل و مانند نہ ہوں‘ روز قیامت ان کی دوستی ختم ہو کر دشمنی میں تبدیل ہوجاۓ گی: آج (قیامت) کے دن صاحبانِ تقویٰ کے سوا تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائں گے۔ جی ہاں!  صرف متقین کی دوستیاں روزِ قیامت تک باقی رہیں گی ۔ارشاد الٰہی ہوتا ہے :  اِذ تَبَرَّاَ الَّذِینَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا وَرَأؤُا العَذٰابَ وَتَقَطَّعَت بِہِمُ الاَسبٰابَ وَقٰٰالَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا لَو اَنَّ لَنٰا کَرَّةً فَنَتَبَرَّا مِنہُم کَمٰا تَبَرَّأَوامِنّٰا کَذالِکَ یُرِیہِمُ اللّٰہُ اَعمٰالَہُم حَسَرَاتٍ عَلَیہِم وَمٰاہُم بِخٰارِجِینَ مِنَ النّٰار  ’’جب پیشوا اپنے پیروکاروں سے لاتعلقی کا اظہار کریں گے اور سب کے سامنے عذاب ہو گا اور تمام وسائل منقطع ہو چکے ہوں گے۔ اور پیروکار کہیں گے کہ اے کاش ہم ان سے اسی طرح لاتعلق رہتے ہوتے جس طرح یہ آج ہم سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں ۔خدا ان سب کے اعمال کو اسی طرح حسرت بنا کے پیش کرے گا اور ان میں سے کوئ بھی جہنم سے نکلنے والا نہیں ہے۔‘‘  (سورئہ بقرہ ۲ آیت ۱۶۶  ۱۶۷)  پس متقی اور پرہیز گار شخص کو دوست بنانا چاہۓ او راگر آپ ایسے دوست کے طالب ہیں جسے پروردگارِعالم انبیائ‘ اولیاۓ الہٰی او رمومنین پسند کریں اور وہ روزقیامت آپ کے ہمراہ اور آپ کا رفیق ہو تو آپ کومعلوم ہونا چاہۓ کہ اس قسم کا دوست‘ وہ ہے جو آپ کے اندر یادِ خدا پیدا کرے۔ ایسے ہی خدا محو ردوستوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ : اِخوَاناً عَلیٰ سُرُرٍ مُتَقٰابِلِینَ ’’وہ بھائیوں کی طرح آمنے سامنے تخت پر بیٹھے ہوں گے۔‘‘                                    (سورئہ حجر ۱۵  آیت ۴۷)
معصومین کی نظر میں نامطلوب دوست
ہم نے کتابِ خدا اور سنتِ نبوی  کے ذریعے نامطلوب اور نامناسب دوستوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں‘ آیۓ اب اسی طرح اس بارے میں اہلِ بیت  کے کلام سے رجوع کرتے ہیں۔وہ کون لوگ ہیں جنہیں دوست نہیں بنانا چاہۓ؟اس بارے میں حضرت امام علی  فرماتے ہیں:صُحبَةُ الاَشرَارِ تَکسِبُ الشَّرّ ’’برے لوگوں کی دوستی سے برائ ہی حاصل ہوتی ہے‘‘ جی ہاں‘ حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر آپ کے دوست برے اور بدکار لوگ ہوں گے تو آپ ان سے برائ اور بدی ہی حاصل کریں گے ۔ حضرت ں نے مزید فرمایا:  کَالرِّیحِ اِذَا مَرَّت بِالنَّتَن حَمَلَت نَتناً’’ باکل اسی طرح جیسے ہوا جب بدبودار چیز پر سے گزرتی ہے تو اس کی بدبو اپنے ہمراہ لے آتی ہے۔‘ ‘قدرتی طور پر دو دوستوں کے درمیان ایک دوسرے کی طرف باہمی الفت و محبت کی ہوائں چلتی رہتی ہیں اور وہ ان ہوائوں سے متاثر ہوتے ہیں۔حضرت علی ں نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا ہے:  مُصٰاحِبُ الاَشرَارِکَرَاکِبِ البَحرِ اِن سَلِمَ مِنَ الغَرقِ لَم یَسلِم مِنَ الفَرقِ ’’برے لوگوں  کے ساتھ دوستی ایسی ہے جیسے انسان سمندری سفر میں ہو‘ کہ ڈوبنے سے محفوظ رہنے کے باوجود خوف و اضطراب سے محفوظ نہیں رہتا ۔‘‘ جی ہاں‘ ممکن ہے سمندری سفر کے دوران اسکی تند و تیز موجیں کشتی کو اپنی لپیٹ میں لے لیں‘ یہاں تک کہ وہ الٹ جاۓ اور اس پر بیٹھنے والے سمندر میں غرق ہو جائں۔ یہ لوگ اگر غرق ہونے سے محفوظ رہیں تب بھی وہ انتہائ خوف و ہراس میں مبتلا ہو جائں گے اور کبھی یہ حالت اس قدر شدت سے ان پر طاری ہو گی کہ مستقبل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لۓ ان کی شخضیت اور روح پر اثر انداز رہے گی۔ حضرت امام جواد ں (ہم میں سے بہت کم لوگ ہیں جو حضرت  کی فکر اور آپ  کی علمی میراث سے آشنا ہوںگے) فرماتے ہیں: اِیّٰاکَ وَمُصٰاحِبَةَ الشَّرِیرِ فَاِنَّہُ کَالسَّیفِ المَسلُولِ یَحسُنُ مَنظَرُہُ وَیَقبَحُ اَثَرُہُ ’’برے انسان کے ساتھ میل جول سے ہمیشہ پرہیز کرو‘ کیونکہ وہ ننگی تلوار کی مانند ہوتا ہے جو دیکھنے میں تو خوبصورت نظر آتی ہے لیکن اسکااثر بہت برا ہوتا ہے۔‘‘
تلوار جب برہنہ ہوتی ہے تو چمکتی ہے اورنگاہوں کوخیرہ کرتی ہے لیکن جب گرتی ہے تو قتل وغارت اور خونریزی بپا کرتی ہے۔حضرت امام علیں کی ایک حدیث میں ہے: مَن لاٰیَصحَبُکَ مُعِیناً عَلٰی نَفسِکَ فَصُحبَتُہُ وَبَالٌ عَلَیکَ  ’’تمہارے دوستوں میں سے جو بھی تمہارے نفس کے خلاف جد و جہد میں تمہارا مددگار نہ ہو اس کی دوستی تمہارے لۓ وبال اور باعثِ زحمت ہے۔‘‘ لہٰذا وہ دوست جو تمہارے اندر کوئ عیب دیکھے او رتمہیں اس سے منع نہ کرے ‘تمہارے اندر انحراف وکج روی کا مشاہدہ کرے اورتمہیں راہِ راست کی طرف لانے کے لۓ کوشش نہ کرے ، تمہیں خطا میں مبتلا پاۓ اور درستگی کے لۓ اقدام نہ کرے تو ایسے دوست کی دوستی سے پرہیز کرو‘ اس لۓ کہ اس کی  دوستی بالکل بے سودہے بلکہ ممکن ہے کہ نصیحت کے سلسلے میں اس کا خاموش رہنا ‘کوئ قدم نہ اٹھانا تمہیں انحراف ‘ گمراہی‘ اور خطا کے راستے پر باقی رکھے اور یہ چیز تمہارے لۓ باعثِ وبال بن جاۓ گی۔حضرت امام محمد باقرں سے وارد ہوا ہے:مَن لَم تَنتَفِع بِدِینِہِ وَدُنیٰاہُ فَلاٰ خَیرَلَکَ فی مَجٰالِسَتِہِ‘ وَمَن لَم یُوجِب لَکَ فَلاٰ تُوجِب لَہُ وَلاٰکَرَامَةَ ’’جس شخص کے بھی دین یادنیا سے تمہیں کوئ فائدہ حاصل نہ ہو‘ اس کے ساتھ ہم نشینی میں تمہارے لۓ کوئ خیر نہیں ہے اور جوشخص بھی تمہاری (دوستی کے حق کی) رعایت نہیں کرتا‘ تم بھی اسکی رعایت نہ کرو اور نہ ہی (ایسے شخص کی دوستی میں) کوئ عزت ہے۔‘‘ در حقیقت یہاں امام  یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انسانی روابط و تعلقات کا نتیجہ لازماً کسی غیر حرام (حلال) فائدے کی صورت میں نکلنا چاہۓ۔ انسانی زندگی ہے ہی لوگوں کے باہمی مفادات کے تبادلے پر قائم اور یہ کوئ ناپسندہ اور قبیح بات نہیں ہے ۔ کیونکہ انسان کو حق حاصل ہے کہ جس طرح وہ آخرت کے فائدے کے حصول کی جدوجہد مےں مشغول رہتا ہے اسی طرح کسی حرام میں مبتلا ہوۓ بغیر دنےاوی مفاد کے حصول کے لۓ بھی کوشش کرے۔ اور یہی وجہ ہے کہ پروردگارِ عالم نے حبِ ذات کی بالکل ہی نفی نہیں فرمائ ہے بلکہ اس کے لۓ گنجائش رکھی ہے اوراس کی ایک حدمعین اورمخصوص فرمائ ہے ‘ کیونکہ حب ذات کی دواقسام ہیں:
کبھی حبِ ذات خود پرستی اور انانیت کو کہاجاتا ہے ‘ اس صورت میں انسان پوری دنیا صرف اپنے لۓ چاہتا ہے‘ اپنی ذات کے حصار میں اسیر ہوتا ہے ‘ اپنے اردگرد رہنے والے انسانوں سے بے خبر ہوتا ہے ‘دوسروں کی ذمے داری نہیں اٹھاتا او رزندگی کے فلسفے اور اسکی ضروریات سے نا بلد ہوتا ہے۔ اس طرح کی حبِ ذات ‘خود پرستی اورخودخواہی‘ مردود ومنفور ہے اور اسلام مردِ مسلمان سے اس طرح کی کوئ چیز نہیں چاہتا۔ کیونکہ پروردگارِعالم انسان سے چاہتا ہے کہ وہ زندگی کے میدان میں آگے بڑھے‘ زندگی بسر کرے ‘زندگی بخشے بلکہ زندگی کو معنی عطاکرے۔


۱۔ قابلِ مذمت حبِ ذات
حضرت امام علی ا بن موسیٰ الرضا ںسے سوال کیا گیا :مَن اَسوَأُ النّٰاسِ مَعَاشاً؟ قٰالَ مَن لَم یَعِش غَیرُہُ فی مَعٰاشِہِ (زندگی او رمعاشرت کے لۓ سب سے بدترشخص کون ہے؟ ) فرمایا: وہ شخص جس سے دوسرے لوگ اپنی زندگی میں فائدہ نہ اٹھاسکیں ۔ یعنی ایسا شخص جوصرف اپنے لۓ زندہ رہے اور دوسروں کو کوئی فائدہ نہ پہنچاۓ۔ اس کے علم‘ تجربے‘ قدرت‘ مال ‘اسکے مقام و منصب‘ اور اسی طرح کی دوسری چیزوں سے کسی دوسرے کو کوئی فائدہ نہ پہنچے۔ اسلام کی نظر میں ایسی حبِ ذات منفور ومردود ہے ۔ اسی ناپسندیدہ حبِ ذات میں لذت طلبی اور حرام کی گئ شہوتوں کا طلبگار ہونا بھی ہے ۔ پروردگار عالم انسان سے چاہتا ہے کہ وہ اس طرح کی خودپرستی اور حب ذات سے مقابلہ کرے اور اپنے آپ کو ہر طرح کی حرام شہوت اورہر اس لذت سے محفوظ رکھے جس سے پروردگارعالم راضی نہ ہو۔ اس طرح کی لذتیں انسان کو ذلیل‘ رسوا اورزوال سے دوچار کر دیتی ہیں۔اسی مذموم حبِ ذات میں ظالم کی مدد‘ اسے تقویت پہنچانا‘ کفار کے مقابل تواضع و انکساری دکھانا اور مستکبروں کی اعانت کرنا بھی شامل ہے۔ یہی وہ مقام ہے کہ اگر نفسانی خواہش تم سے چاہے کہ مستکبرین‘ کفار اور ستمگروں کے ساتھ مل بیٹھو تو لازماًاپنی اس خواہش کا مقابلہ کرو اور پروردگارعالم کے ساتھ ہوجاؤ: یٰااَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا  اتَّقُو اللّٰہَ وَکُونُوا مَعَ الصّٰادِقِینَ’’اے اہل ایمان ! تقوا اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ ہوجائو۔‘‘   (سورئہ توبہ ۹  آیت ۱۱۹)
٢۔    قابلِ تعریف حبِ ذات
البتہ اگر حبِ ذات سے مراد یہ ہو کہ انسان شرعاً جائز اور حلال چیزوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتا ہو‘ تو پروردگارِ عالم نے اس خواہش کو حرام قرار نہیں دیا ہے ۔نہ ہی اﷲ نے لباس کو حرام کیا ہے‘ نہ ہی کھانے اورپینے کی چیزوںکو، او رنہ ہی سکونت وتجارت کو بلکہ فرمایا ہے: اَلکٰادُّ عَلیٰ عَیٰالِہِ کَالمُجٰاہِدِ فی سَبِیلِ اللّٰہِ ( اپنے  اہل وعیال کے رزق کے لۓ تلاش وکوشش کرنے والا شخص راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کی مانند ہے) نیز فرمایا ہے: وَالعِبٰادَةُ سَبعُونَ جُزئً اَفضَلُہٰا طَلَبُ الحَلاٰلِ  (عبادت کے سترّ حصے ہیں اوران میں سب سے بہتر حصہ رزقِ حلال کے سلسلے میں کوشش ہے ) پس اگر حبِ ذات ‘ اس مفہوم میں ہواور اس رنگ کی حامل ہو تو اس کے معنی آخرت میں بلند درجات کی طلب اور جستجو ہے۔ اور اس قسم کی حبِ ذات کی بنیاد پر خداوندِ عالم نے ہمیں خطاب کرتے ہوۓ کہا ہے کہ اگر تم اپنی ذات کو دوست رکھتے ہو‘ اسکے خیر خواہ اور محب ہو تو رضاۓ الٰہی کے لۓ عمل انجام دو :    فَمَن یَعمَل مِثقٰالَ ذَرَّةٍ خَیراً یَرَہُ ’’پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا۔‘‘  (سورئہ زلزلہ ۹۹  آیت۷)
لہٰذا حبِ ذات نہ ہی یکسر مثبت ہے اور نہ ہی یکسر منفی۔حبِ ذات اگران حدود میں ہو جنہیں پروردگارِعالم نے دنیا میںانسان کے لۓ حلال قرار دیا ہے یا جن کا پروردگار عالم نے آخرت میں انسان سے وعدہ کیا ہے تو ایسی حبِ ذات میں کوئی مضائقہ نہیں۔ وَابتَغِ فِیمٰااٰتٰاکَ اللّٰہُ الدّٰارَ الاٰخِرَةَ وَلاٰ تَنسِ نَصِیبَکَ مِنَ الدُّنیٰا وَاَحسِن کَمٰا اَحسَنَ اللّٰہُ اِلَیکَ وَلاٰتَبغِ الفِسٰادِ فِی الاَرضِ اِنَّ اللّٰہَ لاٰیُحِبُّ   المُفسِدِینَ ’’اور جو کچھ خدا نے دے رکھا ہے اس سے آخرت کے گھر کا انتظام کرو‘ اور دنیا میں اپنا حصہ بھول نہ جائو۔ اور جس طرح خدا نے تمہارے ساتھ نیک برتائو کیا ہے تو تم بھی دوسروں کے ساتھ نیک سلوک کرو‘ اور روۓ زمین پر فساد کی کوشش نہ کرو کہ پروردگارِعالم فساد کرنے والوں کو پسند نہیںکرتا ہے۔‘‘  (سورئہ قصص ۲۸  آیت ۷۷)
بہرصورت جس کسی کے ساتھ بھی دوستی اور رفاقت کا رشتہ قائم کرنا چاہتے ہو ‘ تو پہلے اسکے بارے میں تحقیق کر لو اور دیکھ لو کہ کیا وہ تمہارے دین و ایمان کے لۓ مفید واقع ہو سکتا ہے؟ کیا دنیا میں تمہارے کسی کام آ سکتا ہے؟ تمہارے لۓ کوئی زحمت و مشقت جھیل سکتا ہے؟اگر ان سوالوں کا جواب مثبت ہے تو پھر اسکی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائو ‘البتہ شرائط کے ساتھ لیکن اگر مدِمقابل ایسا ہے کہ جس سے تم کو نہ کوئی دینی فائدہ ہوگا نہ دنیاوی ‘ تو پھر ایسے شخص کی ہم نشینی اوردوستی میں تمہارے لۓ کوئی خوبی نہیں۔ جو تمہارے لۓ زحمت و مشقت نہ اٹھا سکے‘ تم بھی اسکے لۓ مشکل میں نہ پڑو اور نہ ہی اسے اہمیت دو۔ حضرت امام صادق ںفرماتے ہیں: اُنظُر کُلَّ مَن لاٰیُفَیدُکَ مَنفَعَۃً فی دِینِکَ فَلاٰ تَعتَدَنَّ بِہِ وَلاٰ تَرغَبَنَّ فی صُحبَتِہِ فَاِنَّ کُلَّ مٰا سِویٰ اللّٰہِ تَبٰارَکَ وَتَعٰالَی مُضمَحِلٌّ وَخِیمٌ عَاقِبَتُہُ ’’دیکھو اور غور کرو‘ جو کوئی بھی تمہارے دین کے لۓ مفید نہ ہو اس کی پرواہ نہ کرو اور نہ ہی اس کی ہم نشینی کی خواہش کرو۔ اس لۓ کہ پروردگارِعالم کے علاوہ ہر چیز فنا ہونے والی ہے اور اسکا انجام بہت برا ہے۔‘‘یعنی دوستی کے لۓ ایسے شخص کے چنائو کی کوشش کروجو اطاعتِ خدا میں تمہارا مدد گار بنے ‘تمہارے دین کو قوی کرے اورتمہیں آخرت کی جانب متوجہ کرے۔
ایسے لوگوں سے دور رہو
حضرت علی ںسے نقل ہوا ہے :اِحذِر مَن اِذَا حَدَّثتَہُ مَلَّکَ  (ایسے شخص سے بچو کہ جب تم اس سے  بات کرو تو وہ تمہیں پریشان کرے ) یعنی تمہاری باتوںپر توجہ نہ دے اگرچہ اس کی بھلائ میں ہوں بلکہ ابتدا سے ہی شکوہ او رملامت آمیز کلام شروع کرے اور :  وَاِذٰا حَدَّثَکَ غَمَّکَ  (جب تم سے بات کرے تو تمہیں غمگین کرے )  وَاِن سَرَرتَہ اَو ضَرَرتَہُ سَلَکَ فِیہِ مَعَکَ سَبِیلَکَ (اور اگر اسے خوش کرو  یا ضرر پہنچاؤ تو وہ بھی تمہارے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے۔ ) یعنی درگزر نہ کرے بلکہ اگر اسے تم سے نقصان پہنچ جاۓ تو وہ بھی تمہیں نقصان پہنچا کے دم لے۔   وَاِن فَارَقتَہُ سَائَ کَ مَغِیبَہُ بِذَکرِ سَوأتِکَ (اگر اس سے جدا ہوجائو تو وہ تمہارے پسِ پشت تمہاری برائ کرے اوراس طرح تمہیں نقصان پہنچاۓ) یعنی جب تک تمہارے ساتھ ہو‘ تمہاری اچھائاں بیان کرے اور تمہاری غیر موجودگی میں تمہاری برائاں کرے۔   وَاِن وَافَقتَہُ حَسَدَکَ وَاعتَدیٰ(اور اگراس کے ساتھ موافقت کرو تو تم سے حسد کرے اورتم پر ظلم کرے)۔ اس لۓ کہ تمہیں برتر نہیں دیکھ سکتا۔ اورجب بھی تم سے خوش خلقی اوراچھے برتاؤ کا مشاہدہ کرتا ہے تو تم سے حسد کرتا ہے اور تمہاری تعریف نہیں کرتا بلکہ تم سے زیادتی کرتا ہے۔ وَاِن خٰالَفتَہُ مَقَتَکَ وَمٰاریٰ (اوراگر اس کی مخالفت کرو تو تم سے نفرت کرے اور جھگڑنے لگے)۔ جب تم اس کی مخالفت کرو تو غصے کا اظہار کرے اور یہ قبول کرنے پر تیار نہ ہو کہ ممکن ہے تمہارا یہ اختلافِ نظر موضوع کی تشخیص کی بناپر ہو ۔یَعجُزُ عَن مَکٰافَاةِ مَن اَحسَنَ اَلَیہِ (اپنے ساتھ نیکی کرنے والے کو نیک بدلہ دینے سے عاجز ہو)۔ لہٰذااگر کوئی  اس کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہے تو یہ اسے اس کا بدلہ نہیں دیتا۔  وَیَفَرِّطُ عَلٰی مَن بَغٰی عَلَیہِ (اور اگر کوئی اس کے ساتھ زیادتی کرے تو اس سے قصاص اوربدلہ لینے میں حد سے بڑھ جاتاہے)۔اگر کوئی اس پر ظلم کرے توجتنااس پر ظلم ہوا ہے اسی کے برابر قصاص پر اکتفا  نہیں کرتا بلکہ افراط سے کام لےتا ہے اور ایک تھپڑکا جواب دو تھپڑ سے دیتا ہے !۔ یُصبَحُ صَاحِبُہُ فی اَجرٍ وَیُصبِحُ ہُوَ وِزرٌ (ایسے شخص کا دوست او رہم نشین تو اجر کا مستحق بن جاتا ہے جبکہ خود وہ گناہوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے)۔ پس ایسے شخص کے ساتھ میل جول رکھنے والا شخص مومن ہے‘ اجر وثواب کا حقدار اور نجات یافتہ ہے جبکہ خود وہ شخص اپنے عملِ بد کی وجہ سے گناہ میںعمر گزاررہا ہے۔ لسانہ علیہ لالہ( اپنی زبان کواپنے دوست کے خلاف استعمال کرتا ہے ‘اس کے دفاع کے لۓ نہیں )۔ وَلاٰ یَضبُطُ قَلبُہُ قَولَہُ(اس کے دل کا اس کی زبان پر قابو نہیں ہوتا) اسکے قلب اور اسکی گفتار کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہوتی۔ یَتَعَلَّمَ لِلمَرأء (دوسروں سے جدال کرنے کے لۓ علم حاصل کرتا ہے) تہذیب نفس اور علم میں اضافے کے لۓ نہیں بلکہ مناظرہ کرنے اور جھگڑنے کے لۓ علم حاصل کرتا ہے۔وَیَتَثقَفُ لِلرِّیٰائِ(اور  دکھاوے کے لۓ مہذب بنتا ہے )تاکہ لوگ اسے ہوشیار اورعقل مند سمجھیں۔یُبٰادِرُ لِلدُّنیٰا( دنیا کے لۓ تیز قدم اٹھاتا ہے) اسکا کوئی اقدام آخرت کے لۓ نہیں ہوتا‘ صرف دنیا کے لۓ ہوتا ہے ۔ وََیُوَاکِلُ التَّقویٰ( تقویٰ کے کاموں میں سست رو ہوتا ہے) اگر تقویٰ اور پرہیزگاری کسی عمل کا تقاضا کرے تو اس عمل کی انجامدہی میں تاخیر کرتا ہے۔ اسکی جانب تیزی سے نہیں لپکتا۔نیز آنحضرتں فرماتے ہیں: اِحذَر مُصٰاحِبَةَ الفُسّٰاقِ وَالفُجّٰارِ وَالمُجٰاہِرِینَ بِمَعٰاصِی اللّٰہ ’’ فاسقوں‘ فاجروں او رکھلم کھلا خدا کی نافرمانی کرنے والوں کی دوستی سے پرہیز کرو۔‘‘پھر دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: عَدُوُّعٰاقِلٍ خَیرٌمِن صَدِیقٍ اَحمَقٍ  ’’عقلمند دشمن احمق دوست سے بہتر ہے۔‘‘ کیونکہ عقل مند دشمن کی دشمنی و عداوت ظاہر وآشکارا ہے او روہ اپنی دشمنی میںکچھ اصولوں کا پابند ہوتا ہے لہٰذا اس سے محفوظ رہا اور بچا جا سکتا ہے۔ لیکن احمق دوست تمہیں فائدہ پہنچانا چاہے گا لیکن حماقت کی بناپر نقصان پہنچابیٹھے گا کیونکہ اس میں فکری توازن نہیںپایا جاتا۔ جن لوگوں سے دوستی کا رشتہ قائم کرنے اور ان سے میل جول سے منع کیا گیا ہے‘ احادیثِ معصومین  میں ان کی کچھ اور خصوصیات بھی بیان کی گئ ہیں۔ایک حدیث میں حضرت امام علی سے مروی ہے : اِیّٰاکَ وَمُصٰاحِبَۃَ اَہلِ الفُسُوقُ ’’فاسقوں کی دوستی سے پرہیز کرو۔‘‘ یعنی جن لوگوںکی زندگی کے طور طریقے فسق وفجور‘ خدا کی متعین کردہ حدود سے تجاوز اوراسکی نافرمانی پر استوار ہیں۔فَاِنَّ الرّٰاضِی بِفِعلِ قَومٍ کَالدَّاخِلِ فِیہِ مَعَہُم’’کسی گروہ کے فعل پر راضی ہونے والا اسی طرح ہے جیسے اس گروہ میں شامل ہو ۔‘‘بلاشبہ پروردگارِ عالم جس طرح کسی عمل کی انجامدہی پر انسان سے جواب طلب کرے گا اسی طرح عملِ بد انجام دینے والے سے راضی اور خوشنود رہنے والے اور اسکی تائد کرنے والے سے بھی جواب طلب کرے گا۔پھر آپ  ں کے ایک دوسرے کلام میں اس طرح نظر آتا ہے : اَلرّٰاضِی بِفِعلِ قَومٍ  کَالدّٰاخِلِ ِفیہِ مَعَہُم وَعَلَی الدَّاخِلِ اِثمٰانِ: اِثمُ الرَّضٰا  وَاِثمُ العَمَلِ’’کسی گروہ کے عمل سے راضی ہوجانے والا بھی اسی گروہ میں شامل سمجھا جاۓ گا ۔اس پر دہرا گناہ ہو گا‘ ایک گناہ اس عمل سے رضایت کی بناپر اور دوسرااس عمل کو انجام دینے کی وجہ سے ۔‘‘ حضرت ںمزید فرماتے ہیں:اِنَّ مَا یَجمَعُ النَّاسُ الرِّضَا وَالسَّخَطُ وَاِنَّمَا عَقَرَ نَاقۃََ ثَمُودٍ رَجُلٌ وَاحِدٌ فَعَمَہُمُ اللّٰہُ بِالعَذٰابِ لَمّٰا عَمُّوہُ بِالرَّضٰا فَقَالَ: فَعَقَرُوہٰا فَاصبَحُوا نَادِمِینَ‘‘ ’’لوگوں کا (ایک عمل سے) رضامند اور ناراض ہونا انھیں ایک گروہ اور قوم کی صورت عطا کردیتا ہے۔ قومِ ثمود کے ناقے کے پیر ایک شخص نے کاٹے تھے لیکن کیونکہ دوسرے اس عمل سے راضی اورخوش تھے لہٰذا پروردگارِ عالم نے پوری قوم پر عذاب نازل کیا اور فرمایا: فَعَقَرُوہٰا فَاصبَحُوا نَادِمِین (پھر ان لوگوں نے اس کے پیر کاٹ دیۓ اور بعد میں بہت شرمندہ ہوۓ۔)‘‘ اس عمل کو انجام دینے والا ایک فرد تھا لیکن پورے قبیلے نے اس عمل پر رضامندی کا اظہار کیا ‘ یا اس عمل کی حوصلہ افزائ کی ۔لہٰذا  اس ایک آدمی کے اس عمل میں سبھی شریکِ جرم ہوۓ ۔کیونکہ ایک عمل میں کبھی قلبی اور قولی طورپر شریک ہوا جاتا ہے اور کبھی عملی طور پر۔یہی وجہ ہے کہ مردِ مسلمان کو ایسے افراد کے بارے میں اپنے دل کی دھڑکنوں اور زبان سے نکل جانے والے بے ساختہ الفاظ تک کے بارے میں محتاط اور باریک بین ہونا چاہۓ جو کسی عملِ بد کے مرتکب ہوتے ہیں یا ظالموں کی تقویت کا باعث بنتے ہیں۔آپ  ہی کی ایک دوسری حدیث ہے:اَلظّٰالِمُ وَالرّٰاضِی بِالظُّلمِ وَالمُعِینُ لَہُ شُرَکَاءُ ثَلاٰثَتَہُم’’ظالم‘ ظلم پر رضامندی کا اظہار کرنے والا اور ظلم میں معاونت کرنے والا تینوں شریکِ ظلم ہیں ۔‘‘کیونکہ پروردگارِ عالم چاہتا ہے کہ انسان کی فکر ‘روح ‘ قلب اور زندگی سے برائ و شرارت کا خاتمہ ہوجاۓ۔جبکہ ظلم پر رضامندی کے اظہار اور ظالم کے ظلم پر خوش ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ایسے فرد کے ذہن میں بدی‘ دوسروں پر ظلم و ستم اور ہر دوسری برائ کے بیج موجود ہیں اور جب بھی حالات سازگار ہوں گے یہ بیج برگ و بار لائں گے۔ لہٰذا جو کوئی ظلم و ستم دیکھ کر اس سے رضامندی کا اظہار کرتا ہے وہ درحقیقت ظالم کی تائد کرتا ہے ‘ اسکے عمل کو سندِ جواز دیتا ہے‘ کیونکہ اگر بعض افراد ظلم نہیں کرتے‘ تواس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ انھیں دوسروں پر ظلم کرنا اچھا نہیں لگتا بلکہ وہ ظلم کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور جب بھی ان کے اندر ظلم و ستم ڈھانے کی طاقت پیدا ہوگی وہ ظلم کی طرف ضرور جائں گے۔حضرت امام علی ںفرماتے ہیں : اِیّٰاکَ وَمُصَاحِبۃََ الفُسّٰاقَ فَاِنَّ الشَّرَّباِلشَّرِّ مُلحَقٌ فاسقوں کی دوستی سے بچو ‘ کیونکہ برائی‘ برائی سے آ ملتی ہے ۔‘‘ حضرت اما م صادق ںنے فرمایا:  ایّٰاکَ وَ مُخَالَطَۃَ السَّقَلَۃِ فَاِنَّ مُخٰالَطَۃُ السَّفَلَۃِ لاٰ لُؤَدّی اِلیٰ خَیرٍ۔  ’’پست اور کمینے لوگوں کے ساتھ میل جول سے بچو‘ کیونکہ ان سے میل جول اچھائ کی طرف نہیں لے جاتا۔‘‘پست اور کمینے لوگوں سے مراد‘ وہ پست فطرت افراد ہیں‘ جو ایسے کام کرتے ہیں جو لوگوں کے لۓ ضرر رساں اور ان کی شخصیت کو نقصان پہنچانے والے ہوں۔ حضرت علی کا ارشاد ہے :اِیّٰاکَ وَ مُصَاحِبۃََ مَن اَلھٰاکَ عَن ذِکرِ اﷲِ وَاَغرَاکَ بِالمَعصِیۃِِ فَاِنَّہُ یَخذُلُکَ عِندَ حَاجَتَکَ اِلَیہِ وَیُوبِقَکَ۔(ایسے شخص کی دوستی سے پرہیز کرو جوتمہیں خدا سے غافل کردے اور گناہ کرنے میں تمہیں جری کردے ۔ ایسا شخص ضرورت کے وقت تہیں تنہا چھوڑدے گا او رتمیں ہلاک کردے گا۔) نیز فرمایا:اِیّٰاکَ وَمُصٰاحِبۃََ الکَذّٰابَ۔(جھوٹے کی دوستی سے پرہیز کرو)۔اور معاشرتی اورمادی حالات یا رشتے داری کے سبب : فَاِذَا اضطَرَرتَ اِلَیہِ فَلاٰ تُصِدِّقہُ(اگر مجبوراً اس سے ربط و تعلق کی ضرورت ہو تو اس کی تصدیق نہ کرو۔) کیونکہ ایسا شخص جو جھوٹ بولنے کا عادی ہو‘ تو یہ خصلت اس میں رچ بس جاتی ہے اور اسکی باتیں جھوٹ ہوتی ہیں (لیکن اس کے باوجود):وَلاٰتُعلِمہُ اَنَّکَ تُکذِّبُہُ(اور اسے یہ باور نہ ہونے دو کہ تم اسے جھوٹا سمجھتے ہو)۔ یعنی اس کے ساتھ ہوشیاری اور زیرکی سے پیش آئو اور اسے اس بات کا علم نہ ہونے دو کہ تم اس پر اعتماد نہیں کرتے ۔فَاِنَّہُ یَنتَقِلُ عَن وُدِّکَ وَلاٰینَتَقِلُ  عَن طَبعِہِ(اس لۓ کہ ایسا فرد تمہاری دوستی سے تو ہاتھ کھینچ سکتا ہے لیکن اپنی طبیعت اورخصلت سے ہرگز باز نہیں آ سکتا)۔ حضرت امام محمد باقر ںنے فرمایا:  قَالَ لِی عَلیُّ بنُ الحُسَینِ عَلَیہُمَا السَّلاٰم یٰا بُنِیَّ اِیّٰاکَ وَمُصٰاحِبۃََ القٰاطِعِ الرَّحمَہِ فَاِنِّی وَجَدتُہُ مَلعُوناً فِی کِتٰابَ اللّٰہِ فِی ثَلاٰثَ مَوَاضِعَ ’’میرے والد علی بن الحسین (ع) نے فرمایا: بیٹا !  جس نے اپنے والدین سے قطع تعلق کرلیا ہو (یعنی جس کے والدین نے اسے عاق کر دیا ہو)اس کی دوستی سے پرہیز کرنا۔ کیونکہ میں نے قرآنِ مجید میں اسے تین جگہ ملعون اور خدا کی لعنت کا مستحق پایا ہے ۔‘‘حضرت امام صادق ںفرماتے ہیں: اِیّٰاکَ وَصُحبَۃَ الاَحمَقِ’’احمق کی دوستی سے پرہیزکرو۔‘‘ احمق وہ ہے جو عقلی توازن اور فکری گہرائی سے محروم ہو۔ جو اچھائیوں کو برا اور برائیوں کو اچھا سمجھے کیونکہ : فَاِنَّہُ اَقرَبُ مٰاتَکُونُ مِنہُ اَقرَبُ مٰایَکُونِ مَسٰاءَ تَکَ ’’  تم جتنا بھی اس کے نزدیک ہوگے برائی سے نزدیک ہوگے۔‘‘نیز آپ  ہی فرماتے ہیں:اِیّٰاکَ وَصُحبۃََ الاَ حمَق الکَذّٰابِ فَاِنَّہُ یُرِیدُ اَن یَنفَعَکَ فَیَضُرُّکَ‘ وَیُقَرِّبُ مِنکَ البَعِیدَ وَیُبَعِّدُ مِنکَ القَرِیبَ‘ اِن اِئتَمَنتَہُ خَانَکَ وَاِن اِئتَمَنکَ ہٰانَکَ ’’جھوٹے احمق کی ہم نشینی سے پرہیز کرو۔ اس لۓ کہ وہ تم کو فائدہ پہنچانا چاہے گا لیکن نقصان پہنچابیٹھے گا۔ دور کونزدیک اور نزدیک کو دوربناکرپیش کرے گا اور اگر تم اس کو امین بنائو گے تو خیانت کرے گا او راگر وہ تمہارے پاس امانت رکھے گا تو تمہاری توہین کرے گا۔‘‘اِن حَدَّثَکَ کَذَّبَکَ وَاِن حَدَّثَتہُ کَذَّبَکَ وَاَنتَ مِنہُ بِمَنزِلۃَِ السَّرَابِ الَّذِی یَحسَبُہُ الظَّمَاٰنُ مَاءً حَتّیٰ اِذٰا جَائَہُ لَم َیجِدہُ شَیئاً’’اگر وہ تم سے بات کرے گا تو جھوٹ بولے گا او راگر تم کچھ کہوگے تو تمہیں جھٹلاۓ گا۔ وہ تمہارے لۓ ایسے سراب کی مانند ہو گا جسے پیاسا دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب نزدیک آتا ہے تو کچھ نظر نہیں آتا۔‘‘


تمہارے دوست اورتمہارے دشمن
کون لوگ ہمارے دوست ہیں اورکون لوگ ہمارے دشمن ؟ اس بارے میں حضرت علی ںنے فرمایا ہے : اَصدَقَائُ کَ ثَلاٰثۃٌَ: صَدِیقُکَ وَصَدِیقُ صَدِیقِکَ وَعَدُوِّکَ وَاَعدَائُکَ ثَلاٰثۃٌَ عَدُوّکَ وَعَدُوُّصَدِیقِکَ وَصَدِیقُ عَدُوِّکَ ’’تمہارے دوستوں کی تین قسمیں ہیں : (١)تمہارا دوست‘(٢) تمہارے دوست کا دوست‘(٣) تمہارے دشمن کا دشمن ۔ اسی طرح تمہارے دشمن کی بھی تین قسمیں ہیں: (١)تمہارا دشمن‘ (٢)تمہارے دوست کا دشمن ‘(٣) تمہارے دشمن کا دوست۔‘‘یہ واضح طریقہ جسے حضرت علی ںنے ہمارے لۓ معین کیا ہے ‘اسے ہمیں صرف  فردی مسائل میں منحصر نہیں کرنا چاہۓ بلکہ ہمیں چاہۓ کہ اسے تمام اجتماعی‘ اقتصادی اور سیاسی میدانوں میں اور عالمی اور بین الاقوامی تنظیموں او رحکومتوں کی سطح تک وسعت دیں۔ مثال کے طور پر صہیونیوں کو لیتے ہیں‘ جو فلسطین میں گھس بیٹھے ہیں اور وہاں کے اصل باشندوں کو دربدر کر دیا ہے اور ایک طویل مدتی منصوبہ بندی کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلے ہوۓ یہودیوں کو فلسطین میں اکھٹا کر کے وہاں بسانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اہل اسلام سے ان کی دشمنی اور عداوت کے بارے میں ارشاد ربانی ہے : لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوةً لِلَّذِینَ اٰمَنُوا الیَہُودَ وَالَّذِینَ اَشرَکُوا ’’آپ دیکھیں گے کہ صاحبانِ ایمان سے سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں۔‘‘ (سورئہ مائدہ ٥  آیت ٢٨)یہ وہ دشمن ہیں جنہوں نے پچاس برس سے زیادہ عرصے سے خطے کو سیاسی‘ اقتصادی‘ فوجی‘ سیکیوریٹی اور حتیٰ ثقافتی اعتبار سے فتنہ و فساد کی آگ میں دھکیل رکھا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا صرف اسرائل ہمارا دشمن ہے؟ یا اسرائل کے دوست بھی ہمارے دشمن ہیں؟  ہمیں اسرائل کے حوالے سے جائزہ لیتے ہوۓ یہ نکتہ مدِ نظر رکھنا چاہۓ کہ یہ صرف امریکہ ہی ہے جو اسرائل کا سو فیصدی حمایتی اور مسلمانوں کا مخالف ہے۔ پس امریکہ جو ہمارے دشمن نمبر ایک اسرائل کا دوست ہے درحقیقت ہمارا دشمن ہے۔ہمیں امریکی عوام سے کوئی شکایت نہیں ہے۔  وہاں کے عوام طبیعتاً صلح پسند ہیں اور بہت سے امریکی دائرۂ اسلام میں داخل ہوۓ ہیں اور اگر انہیں اچھے انداز سے اسلام کی دعوت دی جاۓ تو ممکن ہے ان کی ایک کثیر تعداد اسلام قبول کر لے ۔ مسلمان ملت کو بھی امریکی شہریوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے نیز پروردگارعالم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اچھے طرزِ عمل کے ذریعے اپنے دشمنوں کو اپنا دوست بنائں : وَلاٰتَستَوِی الحَسَنۃََ وَلاٰالسَّیِّئَۃَ اِدفَع بِاللَّتِی ہِیَ اَحسَنُ فَاِذَا الَّذِی بَینَکَ وَبَینَہُ عَدَاوَةً کَاَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ ’’نیکی اور برائی ہرگز مساوی نہیں ہوسکتی ۔لہذا تم برائ کا جواب بہترین طریقے سے دو کہ اس طرح جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے وہ بھی ایسا ہو جاۓ گا جیسے گہرا دوست ہوتا ہے۔‘‘         (سورئہ فصلت ۱۴  آیت۳۴)
اسلام کا اصول ملاپ اور میل جول ہے
عزیزو! اسلام کا اصول ملاپ اور میل جول ہے‘ جدائی اور قطع تعلق نہیں۔ کیونکہ انسانوں کا ایک دوسرے سے میل ملاپ‘ ربط و تعلق معاشرے میں موجود دراڑوں کو پرکردیتا ہے۔اور بعض اوقات باہمی ربط و تعلق نہ ہونے اور دوریوں کی وجہ سے انسان ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کے درمیان خلیج گہری ہو جاتی ہے۔ لیکن باہمی میل ملاپ‘ قربت اور گفتگو کے ذریعے پتا چلتا ہے کہ سامنے والے کی فکر کیا ہے؟اسکے اہداف و خواہشات کیا ہیں؟ اسکے خواب اور تمنائں کیا ہیں؟ اسکا نکتہ نظر کیا ہے؟ اور اسی طرح فریق ثانی آپ کے متعلق تمام شناسائ حاصل کر لیتا ہے اور یوں ایک انسان دوسرے انسان کوسمجھنے لگتا ہے۔ اور یہ اسلامی معاشرے کی تنظیم کے اسرار میں سے ایک راز ہے۔ لہٰذا معاشرے میں نظر آنے والی یہ بات کہ بعض لوگ ایک دوسرے سے قطع تعلق کۓ ہوۓ ہیں اور بعض ایک دوسرے سے گفتگو تک کے روادار نہیں‘ اسلامی اصولوں کے برخلاف ہے۔دوستی کے متعلق ایک حدیث میں حضرت امام موسی کاظم ںفرماتے ہیں: لاٰتَذہَبِ الحِشَمۃََ بَینَکَ وَبَینَ اَخِیکَ وَابقِ مِنہَا‘ فَاِنَّ ذَہَابَہٰا ذَہٰابُ الحَیٰاءِ ’’ اپنے اور اپنے دوست کے درمیان شرم و حیا کا پردہ ختم نہ کرنا کیونکہ اس پردے کے اٹھ جانے سے حیا کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔‘‘ دو افراد جن کے درمیان دوستی اور رفاقت کا رشتہ قائم ہے ‘ وہ ایک دوسرے کے ساتھ دو انداز سے پیش آ سکتے ہیں:
 ١۔ ایک انداز اور طریقہ یہ ہے کہ ان کے درمیان کوئی پاس و لحاظ نہ ہو‘ کوئی پردہ نہ رہے، سارے حجاب پارہ ہوجائں اور دونوں کے درمیان ایسی کوئی بھی چیز باقی نہ بچے۔ اس بات سے روکا گیا ہے ۔ حضرت امام کاظم ںنے تاکید فرمائ ہے کہ دو افراد کے درمیان کچھ نہ کچھ حیا باقی رہنی چاہۓ جس سے پتا چلے کہ وہ ایک دوسرے کا لحاظ کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے احترام کے قائل ہیں۔ کیونکہ اگر سارے حجاب پارہ ہوجائں اورکوئی حد باقی نہ بچے تو دونوں کی دوستی کو نقصان پہنچے گا ۔
٢۔ دوسرا انداز و اسلوب یہ ہے کہ دونوں کے درمیان ایک حدِ فاصل قائم ر ہے‘ وہ ایک دوسرے کے تمام رازوں سے واقف نہ ہوں اور ان کے درمیان باہمی پاس و لحاظ برقرار رہے۔ اور یہی انداز مطلوب ہے۔ ایک حدیث میں حضرت امام صادق ںفرماتے ہیں:اِن اَرَدتَ اَن یَصفُوَلَکَ وُدَّ اَخِیکَ فَلاٰ تُمٰازِحَنَّہُ(ا گر تم چاہتے ہو کہ تمہارے بھائی کے ساتھ تمہاری دوستی خالص ہو تو اس سے ہنسی مذاق نہ کرنا) ۔یہاں مذاق سے مراد گھٹیا اور غیر مہذب مذاق ہیں۔ وَلاٰتُمٰارِیَنَّہُ  (اس کے ساتھ جھگڑا نہ کرنا)۔مراد یہ ہے کہ ایسی بحث نہ کرنا جس میں بدکلامی ہو‘ جو دوستی کو خراب کر دیتی ہے۔ وَلاٰ تُبٰاہِیَنَّہُ (اور اس کے سامنے شیخی نہ بگھارنا)۔ یعنی اسے اپنے رتبے و مقام‘ مال ودولت سے مرعوب کرنے کی کوشش نہ کرنا اور اپنے اس عمل کے ذریعے اس کی شخصیت کو نیچا مت دکھانا۔ وَلاٰتُشٰارَنَّہُ (اور اسے نقصان نہ پہنچانا)۔یعنی اس کے ساتھ ایسا معاملہ نہ کرنا جس سے فتنہ و فساد سر ابھارے‘ یاایسا عمل نہ کرنا جس سے اس کے او رتمہارے درمیان اختلاف پیدا ہو ۔ 
حضرت امام علی نقی ںفرماتے ہیں: اَلمِرَاءُ یُفسِدُ  الصَّدَاقۃََ القَدِیمۃََ ‘ وَیُحلِّلُ العِقدۃََ الوَثِیقۃََ ‘ وَاَقَلُّ مٰا فِیہِ اَن تَکُونَ فِیہِ المُغٰالبۃََ ’’جدال پرانی دوستیوں کو خراب کر دیتا ہے‘ مضبوط رشتوں کو توڑ دیتا ہے اور اس میں کم از کم یہ ضرور ہوتا ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق کو زیر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘  جدال میں کیونکہ ہر ایک کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ دوسرے کو مغلوب کرے ‘ لہٰذا یہ عمل دوستی پر منفی اثرات چھوڑتا ہے ۔ وَالمُغٰالبۃُ اُسُّ اَسبَابِ القطعیۃَِ’’اور ایک دوسرے کو مغلوب کرنے کے لۓ کوشش ہر برائ کی جڑ ہے۔ ‘‘ کیونکہ مغلوب شخص محسوس کرتا ہے کہ وہ غالب کی نظر میں حقیر ہو چکا ہے جبکہ غالب رہنے والا خود کو مغلوب پر برتر محسوس کرتا ہے۔ یہ احساسات دوستانہ تعلقات میں دراڑیں ڈال دیتے ہیں اور دوستی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔حضرت علی ںنے ہمیں متوجہ فرمایا ہے کہ اگر چغل خور لوگ ہمارے بارے میں ہمارے دوستوں کی کہی ہوئی ناروا باتیں ‘ ہمیں آ کر بتائں تو ہمیں ان کی بتائ ہوئی باتوں کو قبول نہیں کرنا چاہۓ : مَن اَطٰاعَ الوٰاشِی ضَیَّعَ الصَّدِیقَ (جوبھی چغلخور کی بات مانتا ہے وہ اپنے دوست کوضائع کر دیتا ہے) کیونکہ چغلخور کا توکام ہی منفی اور بری باتوں کو ایک دوسرے سے بیان کرنا ہے اور اس طرح وہ دوستوں کے درمیان قائم پرانی دوستیوں کو بھی نابود کردیتا ہے اور بنیادی طور پر چغلخور کا مقصد بدی پھیلانے او رایک دوسرے کے درمیان جدائ ڈالنے کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا۔حضرت علی ںنے اپنی وصیت میں محمد بن حنفیہ سے فرمایا: اِیّٰاکَ وَالعُجبَ (خود پسندی سے پرہیز کرنا) ۔یعنی ایسا نہ ہو کہ تم اپنے آپ پر ناز کرنے لگو‘ اور اپنی شخصیت کو بزرگ و برتر سمجھنے لگو۔ وَسُوءُ الخُلقِ (بد اخلاقی سے پرہیز کرنا)۔ایسا نہ ہو کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ برے اخلاق سے پیش آؤ ‘ بد کلامی کرو اور سخت رویہ اختیار کرو۔ وَقِلَُّۃ الصَّبرِ(کم حوصلگی اوربے صبری سے پرہیز کرنا)۔ یعنی کہیں ایسانہ ہو کہ تم دوسروں کی بد سلوکی اور ان کی اذیت وآزار (خواہ عمداً ہو یا بھولے سے) کوبرداشت نہ کرو اور خبردارکہیں ایسا نہ ہو کہ اگر کوئی تمہیں اذیت پہنچاۓ‘ تمہارے ساتھ بد سلوکی کرے اور تم ایک مدت تک حقیقت واضح ہونے کا انتظار نہ کرو۔ فَاِنَّہُ لاٰیَستَقِیمُ لَکَ عَلَی ہِذِہِ الخِصٰالِ الثَّلاٰثِ صَاحبٌ(اس لۓ کہ (تم میں)ان تین صفات کے ہوتے ہوۓ کوئی تمہاری دوستی پر باقی نہیں  رہے گا۔) کیونکہ اگر تم اپنے دوستوں کے سامنے اپنی برتری اور فوقیت جتائو گے اور یہ کہو گے کہ میں تم سے برتر ہوں او رتم پست ہو‘ یا ان کے ساتھ بد سلوکی کرو گے یا تعلقات کے دوران پیش آنے والی کمزوریوں کو برداشت نہ کرو گے تو پھر دوستی اور رفاقت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔  وَلاٰیَزَالُ لَکَ عَلَیہٰا مِنَ النّٰاسِ مُجٰانِبُ ’’ ان صفات اورایسی شخصیت کی بناپر لوگ تم سے گریز کریں گے اورتم لوگوں سے کٹ کے رہ جائو گے۔‘‘
بدگمانی کی ممانعت
امام علی ںنے ہمیںدوستوں کے بارے میں بدگمانی سے منع فرمایا ہے کیونکہ بعض اوقات ہم دوستوں سے یا اسی طرح دوسرے افراد سے ایسا عمل سرزد ہوتے دیکھتے ہیں جسے ہم نیکی او رحسن نیت پر مبنی بھی سمجھ سکتے ہیں او ر اسے شر اوربدی سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں ۔ اسی موقع کے لۓ امام علی ںنے فرمایا ہے:’’اِیّٰاکَ وَسُوءَ الظَّنِّ‘‘ ( بدگمانی سے پرہیز کرو) یعنی کہیں ایسانہ ہو کہ کسی کے منفی پہلو کو اس کے مثبت پہلو پر ترجیح دو ۔ کیونکہ اس طرح تم دوسروں پر اعتماد کرنا چھوڑ دو گے ۔او رتم اگر دوسروں پر اعتماد سے محروم ہو جائو بالخصوص جبکہ وہ تمہارے دوست بھی ہوں تو یہ بد اعتمادی ممکن ہے تمہاے تعلقات کا خاتمہ کر دے اور تمہاری دوستی میں شگاف ڈال دے اور دوسرے لوگوں سے تمہارے روابط کو پیچیدگیوں کا شکار کر دے۔ حضرت علی ں سے ایک جملہ نقل ہوا ہے جو انسان کو ایک اصول فراہم کرتا ہے‘ جو بتاتا ہے کہ انسان جب بھی کسی دوسرے انسان کے کسی قول یا عمل کا سامنا کرے تو اس کے  بارے میںمثبت راۓ رکھے۔حضرتں فرماتے ہیں:  ضَع اَمرَ اَخِیکَ عَلیٰ اَحسَنَہُ   (اپنے بھائ کے عمل کی توجیہ بہترین گمان سے کرو)۔ یعنی اگر تمہارا دینی بھائ کوئی ایساکام انجام دے جو مختلف احتمالات او ر پہلوئوں کا حامل ہو۔ یعنی اس میں اچھا احتمال بھی پایا جاتا ہو اور برا احتمال بھی‘ تو برے احتمال پر اچھے احتمال کو فوقیت دو۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اس پر برائ کا حکم نہ لگائو جبکہ اس سے اچھائ کا پہلو نکلالنا بھی ممکن ہو۔ وَلاٰتَظُنَّنَّ بکلمۃٍ خَرَجَت مِن اَخِیکَ سُوء اً وَاَنتَ تَجِدُلَہَا فِی الخَیرِمَحمِلاً  ’’اپنے  بھائی کے منھ سے نکلنے واے الفاظ کے متعلق بدگمانی سے کام نہ لو جبکہ تم اس کلام کے متعلق اچھا احتمال بھی دے سکتے ہو۔‘‘ بالفرض اس کی بات میں ۹۹ فی صد بری نیت نظر آ رہی ہو اور صرف ایک فی صد اچھی نیت کا امکان دکھائ دے رہا ہو‘ تو کہو کہ شاید یہی ایک فی صد والا پہلو اس کی مراد ہو۔ اور اسلام اسی نظریے پر اپنے ماننے والوں کی تربیت کرنا چاہتا ہے جو اسلام کے عدالتی اصولوں سے ساز گار ہے۔ اگر ملزم پر الزام ثابت نہ ہو سکے تو ایسے مواقع پر وہ بری ہو جاتا ہے۔ مثلاً اگر کسی شخص کے ہاتھ میں ریوالور ہو او راس کے سامنے ایک لاش پڑی ہوئی ہو، تو فوراً ہی یہ فیصلہ نہیں کر لینا چاہۓ کہ جس شخص کے ہاتھ میں ریوالور ہے وہی قاتل ہے۔ اسلامی عدالت کہتی ہے کہ یہ شخص ملزم ہے ‘اسے مجرم نہ کہو‘ جب تک کہ دلائل اور ثبوت اس کے جرم کوثابت نہ کردیں کیونکہ ممکن ہے کچھ نامرئ اور پوشیدہ عوامل سامنے آئں جن کی بنیاد پر وہ شخص جرم سے بری ہوجاۓ۔ البتہ قدرتی بات ہے کہ حسنِ ظن رکھنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم ملزم کو جرم سے سوفی صد بری سمجھیں،بلکہ مراد یہ ہے کہ نہ اسے صد فی صد مجرم سمجھیں او رنہ ہی اسے صد فی صد بے گناہ جانیں۔ بلکہ اس جگہ او راس سے ملتی جلتی صورتوں میں فرد کو صرف ملزم سمجھیں یہاں تک کہ حقیقتِ امرواضح ہوجاۓ ۔اور اصولاً ملزم ومجرم میں فرق ہے‘ دونوں بالکل علیحدہ مقولے ہیں۔  چنانچہ حضرت علی ںفرماتے ہیں: لاٰیَغلَبَنَّ عَلَیکَ سُوءُ الظَّنِّ فَاِنَّہُ لاٰیَدَعُ بَینَکَ وَبَینَ صَدِیقٍ صَفحاً ’’کہیں ایسانہ ہو کہ تم پر بدگمانی غالب آجاۓ۔ اس صورت میں تمہارے اورتمہارے دوست کے درمیان بخشش اور در گزر کی کوئی گنجائش نہ رہے گی۔‘‘ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اگر کسی کے منھ سے کوئی اچھا کلمہ سنیں تو اسے برے کلمے میں تبدیل کردیتے ہیں کیونکہ وہ دوسروں میں کوئی خوبی نہیں دیکھ سکتے۔ ایسے لوگ ان بدبخت افراد کی مانند ہیں جن کی نظر میں زندگی کا صرف تاریک پہلو ہوتا ہے ۔ مثلاً عباسی دربارکے معروف شاعر ابن رومی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ہر چیز میں سے منفی پہلو نکالنے میں ماہر تھا۔ ایک مرتبہ اس کے کچھ دوستوں نے تفریح کا پروگرام بنایا اور اسے مدعو کرنے کے لۓ ایک شخص کو جس کا نام حسن تھا اس کے پاس بھیجا ۔جب حسن ‘ ابنِ رومی کے پاس پہنچا تو ابن رومی نے اس سے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: حسن۔ یہ سن کرابن رومی نے لفظ حسن کے الفاظ کی جگہوں کو تبدیل کر دیا او رکہا: نَحساً یعنی تم نحس اور بد شگون ہو اور یہ کہہ کر دروازہ بند کرلیا۔اس کے دوستوں نے دوسرے شخص کو بھیجا جس کا نام اقبال تھا۔ ابنِ رومی نے اس کے نام کے حروف کو ادل بدل دیا او رکہا: لابقا‘ (نہ رہنے والا )اور دروازہ بند کرلیا۔ جی ہاں! بعض افراد ابنِ رومی کی طرح نفسیاتی الجھائو (Complex) کا شکار ہوتے ہیں او رلوگوں کے بارے میں بدگمان رہتے ہیں۔بعض اوقات لوگ کوئی ایسی بات کرتے ہیں جس میں خیر کا احتمال پایا جاتا ہے نیز بہت سے صحیح معنی موجود ہوتے ہیں لیکن اس قسم کے لوگ اس بات میں سے برے احتمال کو ترجیح دیتے ہیں اور اسکے بارے میں اچھے احتمال کا اظہار نہیں کرتے ۔ یہ بات ہمیں سیاسی ‘ اعتقادی‘ اجتماعی اور شرعی مسائل میں بھی نظر آتی ہے۔ ایسے افراد کے نزدیک بدگمانی سے زیادہ کوئی دوسری چیز اہم نہیں ہوتی اور جب انھیں ٹوکا جاتا ہے کہ اس درجہ بدگمانی نہ کرو‘ تو جواب میں کہتے ہیں: سو ء الظن من حسن الفطن (بدگمانی ذہانت اور چالاکی میں سے ہے) جبکہ انھیں معلوم نہیں کہ بدگمانی نہ صرف ذہانت کی علامت نہیں بلکہ عدالت‘ عقل او رحکمِ شرعی کے برخلاف ہے بالخصوص اس وقت جب بد گمانی کسی  فرد کے متعلق حکم کی بنیاد واساس بن جاۓ۔ دوستی کے رشتے میں استحکام اور مضبوطی سے متعلق حضرت امام علی ںکی ایک حدیث ہے : مَن نَاقَشَ الاِخوَانَ قَلَّ صَدِیقُہُ  ’’جو کوئی اپنے دوستوں سے کڑا حساب لیتا ہے‘ ان پر سخت نکتہ چینی کرتا ہے اس کے دوست کم ہوجاتے ہیں۔‘‘ لہٰذا یہ کوشش نہیں ہونی چاہۓ کہ اپنے دوستوں کی  بات بات پر نکتہ چینی کرو ‘ اور ان کی ایک ایک سانس تک شمار کرو‘کیونکہ کوئی چیز ایسی نہیں جس میں سے خامیاں نہ نکالی جا سکیں۔بقول شاعر   
اِذٰاکُنتَ  فی کُلِّ الاُمُورِ مُعَاتِباً صَدِیقَکَ لَم تَلقِ الَّذِی لاٰتُعٰاقِبُہُ ’’اگر طے ہوکہ دوست او ردوستی کی دنیا میں تحقیق کی جاۓ تو تمہیں کوئی ایسا دوست نہ ملے گا جس کی سرزنش ‘ نکتہ چینی اور باز پرس ممکن نہ ہو۔‘‘  ہر انسان سے لغزش ‘ انحراف اور بے فائدہ عمل سرزد ہو سکتے ہیں جنہیں نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔اسی بنا پر امام علی ںنے فرمایا ہے: مَن نَاقَشَ الاِخوَانَ قَلَّ صَدِیقُہُ ’’جو بھی اپنے دوستوں پر نکتہ چینی کرتا ہے اس کے دوست کم ہوجاتے ہیں۔‘‘  جی ہاں نکتہ چینی ایک ایسا عمل ہے جو دوستوں کی تعداد کم کردیتا ہے ۔ 


دوست بڑھانے کے طریقے
کیا چیزیں ہیں جو دوستوں میں اضافے کا باعث ہوتی ہیں؟ یہاں ہم یہ بتا دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ اجتماعی مسائل میں بھی اہلِ بیت  ہمارے معلم ہیں۔ حضرت امام حسن عسکری فرماتے ہیں : مَن کَانَ الوَرَعُ سَجِیَّتُہُ وَالکَرَمُ طَبِیعتُہُ وَالحِلمُ خُلَّتُہُ کَثُرَ صَدِیقُہُ وَالثَّنٰائُ عَلَیہِ وَانتَصَرَ مِن اَعدَائِہِ بِحُسنِ الثَّنٰائِ عَلَیہِ ’’پرہیز گاری جس کی عادت بن جاۓ ‘ کرم وبخشش جس کی سرشت ہو اور حلم و بردباری جس کی شان ہو‘ اس کے دوست زیادہ ہوتے ہیںاور اس کی تعریف کثرت سے کی جاتی ہے اوراسی تعریف کی مدد سے وہ اپنے دشمنوں پر غالب ہوجاتا ہے۔‘‘  یعنی ان صفات اورخصوصیات کی وجہ سے وہ لوگوں کے دل جیت لیتا ہے ‘ اس کے دوست زیادہ ہوجاتے ہیں اور اس کی محبوبیت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ وہ اپنی اس صلاحیت کے ذریعے  دشمنوں پر کامیابی حاصل کرتا ہے او راس کے دشمن بھی اس کی تعریف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ امام زین العابدین ں نے زُہری کو جو نصیحتیں کیں‘ ان میں ہے کہ : ایک روز آپ  نے زہری کو دیکھا کہ وہ حاسدوں اور ان لوگوں کی وجہ سے غمگین اور رنجیدہ خاطر ہیں جن پر انہوں نے احسانات کۓ تھے (یاد رہے کہ زہری امام سجادںکے اصحاب میں سے تھے اور انہوں نے حضرت سے بہت سی روایتیں نقل کی ہیں) امام نے زہری سے غم و اندوہ کا سبب دریافت کیا تو زہری نے عرض کیا : میں لوگوں کے ساتھ نیکی کرتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ برائ کرتے ہیں ۔ ایسے افراد کے درمیان زندگی بسر کررہاہوں کہ جو ‘ان چیزوں کی وجہ سے مجھ سے حسد کرتے ہیں جو پروردگارعالم نے مجھے عطا کی ہیں اورمیرے لۓ بہت سی انفرادی اور اجتماعی مشکلات پیداکرتے ہیں۔ (بالکل ویسی ہی مشکلات جیسی حاسداور احسان فراموش بد خواہ افراد کی طرف سے بہت سے انسانوں کو اٹھانی پڑتی ہیں۔) امام سجادںنے ان سے فرمایا: اَمَّاعَلَیکَ اَن تَجعَلَ المُسلِمِینَ مِنکَ بِمَنزِلَةِ اَہلِ بَیتِکَ ’’تمہیں چاہۓ کہ تم تمام مسلمانوں کو اپنے اہلِ خانہ کی طرح سمجھو۔‘‘ یعنی اگر مشکلات سے نجات چاہتے ہو تو اپنی فکر ونظر کوتبدیل کرو او راسلامی سماج کے ہر فرد کواپنے افراد خانہ کی طرح سمجھو اور دیکھو کہ انسان اپنے گھر کے چھوٹوں اور بڑوں کے ساتھ کس طرح پیش آتا ہے ؟ پس تمام مسلمانوں کے ساتھ ایسے ہی پیش آؤ ۔  پروردگارِعالم نے ہم سے مطالبہ کیا ہے کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ مہر ومحبت سے پیش آئں اور ان سے برادرانہ سلوک کریں ۔ ارشاد الٰہی ہے:اِنَّمٰاالمُؤمِنُونَ اِخوَةٌ (بلاشبہ تمام مومنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائ ہیں) یعنی پروردگارِ عالم نے ان کے درمیان قائم ایمانی رشتے کو سب سے مضبوط رشتہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا تم بھی تمام مسلمانوں کو ایک کنبے کے افراد شمار کرو جس میں سب مل جل کر رہتے ہیں ۔ فَتَجعَلَ کَبِیرَ ہُم بِمَنزِلَةِوَالِدِکَ  (ان کے بڑوں کو اپنے والد کا درجہ دو) اور ان کا اسی طرح احترام کرو جیسے اپنے والد کا احترام کرتے ہو۔ وَتَجعَلُ صَغِیرَہُم بِمَنزِلَةِ وَلَدَکَ (اور ان کے چھوٹوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھو) ۔لہٰذا ان کے ساتھ اسی طرح شفقت اور محبت سے پیش آؤ جیسے اپنے بچوں سے  پیش آتے ہو۔ وَتَجعَل تِربَکَ بِمَنزِلَةِ اَخِیکَ فَاَیُّ ہٰؤُلاٰئِ تُحِبُّ اَن تُظلِمُ(اور اپنے ہم سن وسال افراد کو اپنے بھائوں کی طرح سمجھو۔جب صورتحال یہ ہو تو تم خود ہی بتائو کہ ان میں سے کس پر ظلم و زیادتی کرنا پسند کرو گے؟) ۔کیا عقلِ سلیم رکھنے والے کسی انسان کو یہ بات پسند ہو گی کہ وہ اپنے والد‘ اپنے بچوں یا اپنے بھائوں پر ظلم کرے ؟ واضح ہے کہ جب مسلمانوں کو اس نگاہ سے دیکھوگے او ران کے متعلق اس طرح کا شعور و احساس رکھوگے ‘ تو لازماً ان کے ساتھ اس طرح پیش آئو گے کہ ان پر چھوٹے سے چھوٹا ظلم بھی نہ ہو‘ کیونکہ انسان ہرگز نہیں چاہتا کہ خود سے وابستہ افراد میں سے کسی پر ظلم کرے۔وَاِن عَرَضَ لَکَ اِبلِیسُ (لَعنَةُ اللّٰہِ) اَنَّ لَکَ فَضلاً عَلَی اَحَدٍ مِن اَہلِ القِبلَةِ (اور اگر شیطان (لعنتہ اللہ ) تمہارے سامنے یوں ظاہر کرے کہ تم مسلمانوں میں سے کسی سے برتر اور افضل ہو )۔ممکن ہے کہ شیطان تمہارے دل میں یہ وسوسہ پیدا کرے کہ تمہیں دوسروں پر برتری حاصل ہے۔ صرف تم نیک کام انجام دیتے ہو‘ دوسروں کی خدمت کرتے ہو اورسماج کی اصلاح کے لۓ کوشاں ہو‘ لہٰذا سب پر لازم ہے کہ تمہاری اطاعت کریں اور تمہارے سامنے سرِ تعظیم خم کریں۔ ہاں‘ بعض لوگوں کا یہ حال ہوتا ہے ۔ جتنی ان کی شہرت بڑھتی ہے‘ اتنا ہی وہ یہ تصور کرنے لگتے ہیں کہ وہ لوگوں پر حق رکھتے ہیں جبکہ لوگوں کو ان پر کوئی حق حاصل نہیں۔ لہٰذا وہ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی خدمت کریں اوروہ کسی کی خدمت نہ کریں، وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ نیکی اور احسان ہو لیکن وہ کسی کے ساتھ نیکی واحسان نہ کریں۔ پس اگر شیطان تمہارے دل میں یہ خیال پیدا کر دے کہ تمہیں کسی پر فوقیت حاصل ہے تو   :  فَاِن کَانَ اَکبَرُ مِنکَ فَقُل قَد سَبَقنِی بِالاِیمٰانِ وَالعَمَلِ الصَّالِحِ( اگر وہ شخص تم سے عمر میں بڑا ہے تو اپنے آپ سے کہو کہ وہ ایمان او رعملِ صالح میں مجھ سے سابق ہے) ۔یعنی شیطان کے اس فریب اور وسوسے کے متعلق خود اپنے آپ سے کلام کرو اور اس شخص کے بارے میں معلومات کرو‘ اگر وہ تم سے عمر میں بڑا ہو تو اپنے آپ کو سمجھائو کہ اسے مجھ پر فضیلت حاصل ہے۔ کیونکہ اگر مجھ میں کچھ ایسی خوبیاں ہیں جن کی بنیاد پر میں اس سے بہتر ہوں تب بھی وہ مجھ سے پہلے دنیا میں آنے کی وجہ سے ایک باایمان اور صالح زندگی گزارنے میں مجھ سے سبقت رکھتا ہے۔ جب میں پیدا بھی نہ ہوا تھا‘ وہ اس سے قبل ہی ایمان اور عملِ صالح کے ساتھ زندگی بسر کر رہا تھا :  فَہُوَ خَیرٌ مِنِّی  (لہٰذا وہ مجھ سے بہتر ہے)۔ وَاِن کَانَ اَصغَرُ مِنکَ فَقُل قَد سَبَقتَہُ بِالمَعٰاصِی وَالذُّنُوبِ فَہُوَ خَیرٌ مِنِّی(اوراگر وہ عمر میں تم سے چھوٹا ہے تو اپنے آپ سے کہو کہ گناہ اور نافرمانی میں ‘ میںاس پر سبقت رکھتا ہوں لہٰذا وہ مجھ سے بہتر ہے) میں معصوم تو ہوںنہیں نیز اس سے پہلے بالغ اور سنِ شعور کو پہنچا ہوںاور اس سے پہلے گناہ کا مرتکب ہوا ہوں لہٰذا وہ مجھ سے بہتر ہے کیونکہ میرے گناہ اس سے زیادہ ہیں ۔ وَاِن کَانَ تِربَکَ فَقُل اَنَا عَلَی یَقِینٍ مِن ذَنبِی وَفِی شَکٍّ مِن اَمرِہِ فَمٰا اَدَعُ یَقِینِی لِشَکِّی(اور اگر وہ سن وسال میں تمہارے برابر ہے تو اپنے آپ سے کہو کہ اپنے گناہوں کے بارے میں تو مجھے یقین ہے لیکن اس کے گناہوں کے متعلق شک رکھتا ہوں۔ پس میں شک کی بنیاد پر یقین کو نہیں چھوڑ سکتا) مجھے اپنے گناہوں کا تو علم ہے‘ لیکن اس کے گناہوں کے بارے میں نہیں جانتا۔ مجھے اپنے انجام دیۓ ہوۓ گناہوں کے بارے میں تو یقین ہے لیکن اس کے گناہوں کا علم نہیں اور اس بارے میں شک کا شکار ہوں‘ لہٰذا کیسے اپنے یقین کوترک کرکے شک پر تکیہ کروں۔ یوں اس طرح وہ مجھ سے بہتر ہے ۔ وَاِن رَائتَ المُسلِمِینَ یُعَظِّمُونَکَ وَیُوَقِّرُونَکَ وَیُحِبُّونَکَ فَقُل ہٰذا مِن فَضلٍ اُخِذُوبِہِ(او راگر دیکھو کہ مسلمان تمہاری تعظیم و توقیر کررہے ہیں او رتم کو چاہتے ہیں تو کہو کہ (ان کا یہ طرزِ عمل) ان کی حاصل کردہ فضیلت ہے)۔ بعض لوگ جب یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ انہیں بڑا سمجھتے ہوۓ ان کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں ‘ان کی تعظیم کررہے ہیں‘ یا ان کے لۓ راستہ چھوڑ رہے ہیں‘ یا ان کے نام کے نعرے بلند کر رہے ہیں تو خود میں نے سماتے‘ اپنے آپ کو دوسری ہی دنیا کی مخلوق سمجھنے لگتے ہیں‘ جبکہ اگر حقیقت امر جاننا چاہیں تو حقیقت یہ ہے کہ احترام کرنے والے یہ افراد ان پر برتری رکھتے ہیں کیونکہ ان لوگوں پر ان کا احترام کرنا واجب نہ تھا (یہ تو ان لوگوں کے عظمت ہے کہ انہوں نے ان کا احترام کیا) حتیٰ بعض مواقع پر تو یہ لوگ اس قابل بھی نہ تھے کہ ان کا احترام کیا جاتا۔ ہمیں امیر المومنین حضرت علی ں سے عاجزی اور انکساری کا درس لینا چاہۓ جبکہ آپ  مقامِ عصمت پر فائز تھے اور اگر اس سے بھی بلند کوئی مقام فرض کیا جا سکتا ہے تو آپ  اس پر فائز ہیں‘ لیکن اسکے باوجود آپ  خدا اور بندگانِ خدا کے سامنے تواضع اور انکساری کے ساتھ پیش آتے تھے اور جب بھی کوئی آپ  کی تعریف کرتا تھا‘ خوف خدا کا اظہار کرتے ہوۓ فرماتے تھے:اَللّٰہُمَّ اجعَلنِی  خَیراً مِمّٰا یَظُنُّونَ وَاغفِر لی مَالاٰیَعلَمُونَ ’’پرودگار ا  ! یہ جیسا مجھ کو سمجھتے ہیں اس سے بہتر قرار دے او رمیری جن لغزشوں کوتو جانتا ہے اور یہ نہیں جانتے ان کو بخش دے۔‘‘ اور حضرت امام سجادں دعاۓ مکارم الاخلاق میں ہمیں تعلیم دیتے ہیں (میری نصیحت ہے کہ اس دعا کو روزانہ پڑھۓ کیونکہ یہ دعا ہمارے سامنے بہترین انداز میںاخلاقی اور تربیتی راہ و روش کی نشاہدہی کرتی ہے۔ اور کوئی اخلاقی مسئلہ ایسا نہیں جس کا ذکر اس دعا میں نہ کیا گیا ہو۔ لیکن افسوس ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم امام سجاد کی معرفت نہیں رکھتے ‘ نہ صرف امام سجاد  بلکہ تمام ہی ائمہ  کو ہم نے صرف عزاداری تک محدود کر کے رکھ      دیاہے ‘ ایک مدرسۂ فکر اور وسیع افق کی حامل ہستیوں کے طور پر ان سے استفادہ نہیں کرتے۔)
   بہر حال امام سجاد اس دعا کے ایک حصے میں فرماتے ہیں : اَللّٰھُمَّ لَاتَرفَعنِی فِی النّٰاسِ دَرَجَۃً اِلاّٰ حَطَطتَنِی عِندَ نَفسِی مِثلَہَا وَلاٰ تُحدِث لی عِزاً ظٰاہِراً اِلاّٰ اَحدَثتَ لی ذِلَّۃً بَاطِنَۃً عِندَ نَفسِی بِقَدرِھٰا ’’بار الٰہا ! لوگوں کے درمیان میرے کسی درجے میں اس وقت تک اضافہ نہ فرمانا جب تک اسی مقدار میں مجھے اپنی نگاہوں میں حقیر نہ کر دے اور کوئی بھی ظاہری عزت و شوکت مجھے نصیب نہ فرما جب تک اسی مقدار میں مجھے خود میری نظروں میں ذلیل نہ کر دے۔‘‘ لوگوں سے روابط و تعلقات کے بارے میں امام سجاد  نے اپنے صحابی زہری کو جو نصیحتیں فرمائں ‘ ہم ایک مرتبہ پھر ان کی طرف آتے ہیں۔ امام  نے فرمایا:  وَ اِن رَأیتَ مِنہُم جَفٰائً اَو اِنقِبَاضاً عَنکَ فَقُل ہٰذا  الذَّنبُ اَحدَثتُہُ (اور اگر دیکھو کہ لوگ تم پر ظلم کر رہے ہیں ‘ تم سے بے توجہی برت رہے ہیں‘ تو کہو کہ مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے۔) پس اگر دیکھو کہ لوگ تمہاری تعظیم و تکریم نہیں کرتے‘ تم سے محبت سے پیش نہیں آتے ‘ تو اسکا قصور وار بھی خود اپنے آپ ہی کو سمجھو ‘ یعنی لوگوں کو الزام نہ دو‘ انہیں برا نہ کہو ‘ بلکہ خود کو موردِ الزام ٹھہرائو کہ تم کسی گناہ کے مرتکب ہوۓ ہو یا لوگوں کے حق میں تم نے کوئی کوتاہی کی ہے جس کی وجہ سے وہ تم سے دور ہو گۓ ہیں اور یہ خود تمہارے گناہوں کی سزا ہے۔ فَاِنَّکَ اِن فَعَلتَ ذٰالِکَ سَہَّلَ اللّٰہُ عَلَیکَ عَیشَکَ وَکَثَّرَ اَصدِقَائُکَ وَقَلَّ اَعدَائُ کَ(اگر تم نے اس طرح عمل کیا تو پروردگار عالم تمہاری زندگی کو آسان کر دے گا‘ تمہارے دوستوں میں اضافہ اور تمہارے دشمنوں میں کمی کر دے گا)۔ یعنی اگر اس فکر اور ذہنیت کے ساتھ لوگوں کے درمیان زندگی بسر کرو گے تو نہایت عمدہ نتائج دیکھو گے۔ یہاں ہم‘ لوگوں کے ساتھ پیش آنے اور ان کے ساتھ اختیار کۓ جانے والے طرزِ عمل سے متعلق ائمہ علیہم السلام کی ہدایات و رہنمائوں کے صرف ایک گوشے کو سامنے لاۓ ہیں۔

دوستی کی حدود
اس حصے میں ہم دوستی اور اس کی حدود کے متعلق گفتگو کرنے جا رہے ہیں اور اس گفتگو کا آغاز حضرت امام جعفر صادق ںکے ایک خوبصورت کلام سے کریں گے: لَاتَکُونُ الصِّدَاقَةُ اِلَّا بِحُدُودِ ہَا ‘فَمَن کَانَت فِیہِ ہٰذِہِ الحُدُودُ اَو شَییٌٔ مِنہَا‘ وَ اِلَّا فَلَا تَنسِبہُ اِلیٰ شَییئٍ مِنَ الصِّدَاقَةِ ’’بغیر حدود کے دوستی نہیں ہوتی۔ پس جس کسی میں یہ حدود یا ان کا کوئی حصہ پایا جاۓ وہ دوستی کے لائق ہے او راگر یہ حدود یا ان میں سے کچھ اس میں نہ پائ جائں تو ہرگز اسے اپنا دوست مت سمجھنا۔‘‘ فَاَوَّلُہَا: اَن تَکُونَ سَرِیرَتُہُ وَ عَلاَنِیَّتُہُ لَکَ وَاحِدَةٌ’’  پہلی شرط یہ ہے کہ: تمہارے لۓ اس کا ظاہر و باطن ایک ہو ۔‘‘ ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے سامنے تو تمہیں گلے لگاۓ لیکن پیٹھ پیچھے سے خنجر گھونپے۔ بلکہ سامنے اور پیٹھ پیچھے دونوں مواقع پر تمہارے لۓ اس کی محبت ا ور اس کا خلوص یکساں ہونا چاہۓ۔الثانیۃ: اَن یَرَی زَینَکَ زَینَہُ وَ شَینَکَ شَینَہُ ’’دوسری شرط  یہ ہے کہ : تمہاری اچھائ کو اپنی اچھائ سمجھے اور تمہاری برائ کو اپنی برائ۔‘‘ یعنی تمہاری پسندیدہ صفات اور فضائل کو اپنے لۓ خوبی سمجھے اور اگر تمہارے اندر کوئی برائ دیکھے تو اسے تکلیف ہو۔ والثالثۃ: اَن لاَ تُغَیِّرَہُ عَلَیکَ وِلَایَةٌ وَ لَا مَالٌ ’’تیسری شرط یہ ہے کہ : اقتدار اور مال و دولت تمہارے ساتھ اسکے طرزِ عمل میں تبدیلی نہ لا سکے۔‘‘یعنی اگر وہ ایک معمولی فرد تھا‘ نہ اسکے پاس مال تھا نہ منصب و مقام‘ اور تمہارے ساتھ دوستی میں کسی امتیاز کا قائل نہ تھا۔ پھر اس کی قسمت نے یاوری کی‘ اسے منصب و مقام حاصل ہو گیا ‘وہ مال ودولت کا مالک ہو گیا‘ اس کے باوجود اس نے رشتہ ٔ دوستی استوار رکھا‘ اور ایسے رہا جیسے کچھ بدلا ہی نہ ہو‘ تو ایسا شخص تمہارا سچا دوست ہے‘ اسکی دوستی کی حفاظت کرو اور اس سے ہم نشینی کے مشتاق رہو۔ والرابعة: لَا یَمنَعُکَ شَئاً تَنَالُہُ مَقدَرَتُہ ’’چوتھی شرط  یہ کہ :جو چیز اسے حاصل ہو اور تمہیں اس کی ضرورت پڑ جاۓ تو اسے دینے سے منع نہ کرے۔‘‘ والخامسۃ: وَ ہِیَ اللتی تَجمَعُ ہٰذِہِ الخِصَال: اَن لَایُسَلِّمُکَ عِندَ النَّکبَاتِ۔ ’’پانچویں شرط جو گزشتہ تمام شرائط کو اپنے اندر شامل کۓ ہوۓ ہے ‘ وہ یہ ہے کہ:  مصیبت میں تمہیں تنہا نہ چھوڑے ۔‘‘ یعنی جب گردشِ زمانہ تمہیں جکڑ لے اور تم مصائب و مشکلات میں پھنس جائو تو تم سے آنکھیں نہ پھیر لے بلکہ تمہارے سخت حالات کو دیکھنے کے بعد خنداں پیشانی کے ساتھ ان کے مقابلے میں تمہاری مدد کرے‘ تمہیں تقویت پہنچاۓ اور مشکلات کے بھنور سے تمہیں صحیح و سالم باہر نکال لے۔  آج کے زمانے میں بھلا ایسے دوست کہاں ملتے ہیں؟ امام علی ںکے کلام میں بھی ملتا ہے کہ: لَایَکُونُ الصَّدِیقُ صَدِیقاً حَتَّی یَحفَظَ اَخَاہُ فِی ثَلاَثٍ‘ فِی نَکبَتِہِ وَ غَیبَتِہِ وَ وَفَاتِہِ ’’کوئی دوست اس وقت تک دوست نہیں ہو سکتا جب تک کہ تین مواقع پر اپنے بھائ کا خیال نہ رکھے۔ مشکلات میں‘ اس کی عدم موجودگی میں اور اس کی وفات کے بعد۔‘‘ زمانے کی مشکلات اور ان کے حملوں سے اسے محفوظ رکھے اور اگر لوگ پسِ پشت اس کی غیبت کریں تو نہ کرنے دے اور کوشش کرے کہ دوسرے اس کے دوست کو صرف اچھے الفاظ سے یاد کریںاور  موت کے وقت اور موت کے بعد اس کے اہل و عیال کا خیال رکھے۔نیز آپ  ہی نے فرمایا ہے : اَلصَّدِیقُ الصَّدُوقُ مَن نَصَحَکَ فِی عَیبِکَ ’’سچا اورمخلص دوست وہ ہے  جو تمہارے نقص و عیب کی اصلاح کے لۓ تمہیں نصیحت کرے ۔‘‘ پس جیسے ہی تمہارے اندر کوئی عیب دیکھے تمہیں اس سے آگاہ کرے اور اسے دور کرنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ مخلص دوست کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا دوست ہر طرح کے عیب سے پاک ہو۔  مشہور ومعروف حدیث ہے: اَلمُؤمِنُ مِرآةُ اَخِیہِ ( مومن اپنے بھائ کے لۓ آئنہ ہے )مراد یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو اپنے بھائ کے اندر دیکھو۔ یعنی بعض اوقات تمہارا بھائ تمہارے بارے میں کچھ ایسی چیزوں کو جانتا ہے جن سے خود تم بھی واقف نہیں ہوتے۔ بالکل اسی طرح جیسے تمہارے چہرے کی خوبصورتی جسے تم خود نہیں دیکھ سکتے آئنہ دکھا دیتا ہے۔وَ حَفَظَکَ فِی غَیبِکَ وَ آثَرَکَ عَلیٰ نَفسِہِ  (تمہارا حقیقی دوست و ہ ہے جو تمہاری عدم موجودگی میں تمہاری حفاظت کرے اور اپنے آپ پر تمہیں ترجیح دے) لہٰذا جب کبھی ایسا ہو کہ ایک چیز بیک وقت تمہاری بھی ضرورت ہو اور اس کی بھی ضرورت ‘ تو اپنے آپ پر تمہیں ترجیح دے۔
نیز آپ  ہی دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: اَلصَّدِیقُ مَن کَانَ نَاھِیّاً عَنِ الظُّلمِ وَ العُدوَانِ(تمہارا دوست وہ ہے جو تمہیں ظلم اور سرکشی سے روکے)۔یعنی اگر وہ دیکھتا ہے کہ اس کا دوست گھر میں اپنے اہلِ خانہ پر ظلم کر رہا ہے یا باہر لوگوں  پر ستم ڈھا رہا ہے‘ تو نہ صرف یہ کہ اس ظلم میں اس کی مدد نہیں کرتا بلکہ اسے ظلم و ستم سے روکتا ہے۔ نقل ہوا ہے کہ ایک شخص نے معروف عربی جملے:اُنصُراَخَاکَ ظَالِماً اَو مَظلُوماً(اپنے بھائ کی مدد کرو چاہے ظالم ہو یا مظلوم) کے متعلق پیغمبرِاکرم سے سوال کیا اور آنحضرت سے عرض کیا کہ مظلوم کی مدد کے معنی تو ہمیں معلوم ہیں لیکن ظالم کی مدد کے کیا معنی ہیں؟ آنحضرت نے جواب میں فرمایا : ظالم کی مدد کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اسے ظلم کرنے سے روکو‘  نفسِ امارہ پر غلبے کے سلسلے میں اسکی مدد کرو تاکہ اس طرح وہ دوسروں پر ظلم کا مرتکب نہ ہو۔ حضرت علی ںنے فرمایا: اَلصَّدِیقُ مَن کَانَ نَاہِیّاً عَنِ الظُّلمِ وَ العُدوَانِ مُعِیناً عَلَیٰ البِرِّ وَ الِاحسَانِ ’’تمہارا دوست وہ ہے جو ظلم اور سرکشی سے تمہیں روکے اور بھلائ و نیکی میں تمہاری مدد کرے۔ ‘‘ اسی طرح دوسرے مقام پر بھی حضرت  سے نقل ہوا ہے کہ:  اِنَّمَا سُمِّیَ الصَّدِیقُ صَدِیقاً ِلنَّہُ یَصدُقُکَ فِی نَفسِکَ وَ مَعَایِبِکَ فَمَن فَعَلَ ذَالِکَ فَاستَنَمَ اِلَیہِ فَاِنَّہُ الصَّدِیق ’’دوست کو ’’صدیق‘‘ اس لۓ کہتے ہیں کہ وہ تمہاری ذات اور تمہارے عیوب کے متعلق صداقت کا اظہار کرتا ہے ۔ لہذا جو شخص ایسا کرے تم اسکے ساتھ مطمئن رہو اس لۓ کہ وہ تمہارا مخلص دوست ہے۔‘‘ قارئن محترم!ان کلمات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام علیںاجتماعی زندگی کی باریکیاں سمجھنے میں عظیم مرتبے پر فائز تھے۔ یہی وہ راز ہے کہ جس کی بنا پر ہم مسلسل حضرت علی  کو سمجھنے اور آپ کو پہچاننے کی دعوت دیتے ہیں۔ البتہ ہم اس دعوت کے ذریعے یہ نہیں چاہتے کہ آپ یہ جاننے میں لگ جائں کہ حضرت  نے عرب کے بہادروں اور مشرک سرداروں جیسے مرحب ، عمرو بن عبدود وغیرہ کو کیسے زیر کیا بلکہ ہماری دعوت کا مقصد یہ ہے کہ دیکھا جاۓ کہ آپ  کس طرح تاریکیوں اور جہل سے پردہ اٹھاتے تھے اور کس طرح عام اذہان کے لۓ حقائق کی وضاحت فرماتے تھے۔ نہیں پتا ‘اگر آج امام علیں ہمارے درمیان موجود ہوں تو ہم ان کے ساتھ کیا کریں؟ کس طرح پیش آئں اور ہمارا رویہ آپ کے ساتھ کیا ہو۔۔۔؟  عمر بن خطاب نے حضرت علی ںکی عظمت ِفکر اور دور اندیشی کے متعلق کہا ہے:لَو وَلِیَھَا عَلِیٌّ لَحَمَلَھُم عَلٰی المَحَجَّةِ البَیضَائِ (اگر حکومت علیں کے ہاتھوں میں ہوتی تو وہ لوگوں کو حق اور روشن راستے کی طرف لاتے )۔ لیکن کون اس درست اور روشن راستے کو قبول کرتا؟ خود آنحضرت  نے فرمایا ہے:  مَا تَرَکَ لِیَ الحَقُّ مِن صَدِیقٍ ( حق نے میرے لۓ کوئی دوست باقی نہ چھوڑا )۔یعنی میں حق پر عمل کرنے میں اس قدر باریک بین‘ سنجیدہ اور سخت گیر تھا کہ میرے دوست بھی مجھ سے منھ موڑگۓ۔ نیز حضرت ں دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:  صَدِیقُکَ مَن نَہَاکَ عَن ارتِکَابِ المَآثِمِ وَ الذُّنُوبِ وَ عَدُوُّکَ مَن اَغرَاک’’تمہارا دوست وہ ہے جو تم کو لغزشوں اور گناہوں سے روکے اور تمہارا دشمن وہ ہے جو تمہارے گناہوں اور عیوب پر تمہیں فریب دے اور تمہیں گستاخ کر دے۔‘‘  معروف مثل ہے : مَن اَبکَاکَ بَکَیٰ عَلَیکَ وَ مَن اَضحَکَکَ ضَحِکَ عَلَیکَ(جو تم کو رلاۓ تم پر رویا اور جو تم کو ہنساۓ وہ تم پر ہنسا )۔یعنی اگر تم سے رونے کو کہا اور تم روۓ تو وہ خودبھی تمہارے ساتھ تم پر رویا اور اگر تم سے ہنسنے کو کہا ‘ تم کو ہنسایا اور خود بھی تمہارے ساتھ ہنسا ۔یعنی خوشی و غمی کے تمام مراحل میں تمہارا ہمدل و ہمدم رہا۔ لیکن افسوس بعض افراد صرف اس کے دوست ہوتے ہیں جو ان پر ہنستے ہیں اور جو ان کے لۓ روتے ہیں ان کو نہیں چاہتے اور دوست نہیں رکھتے۔  

دوستی سے پہلے آزمائش
لوگوں کی اکثریت کا ظاہر و باطن یکساں نہیں ہوتا ‘ان کا ظاہر کچھ ہوتا ہے‘ اور باطن کچھ۔ لہٰذا انسان پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کی زندگی کا گہرائ کے ساتھ مطالعہ کرے اور ان کو اچھی طرح پہچانے اور یہ شناخت خواہ ان لوگوں سے میل جول کے دوران ذاتی تجربے کے ذریعے حاصل کرے یا ان قابلِ اعتماد اشخاص کے ذریعے حاصل کرے جو ان کے یہاں رفت و آمد رکھتے ہیں اور ان کو اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ اور یہ امر صرف دوستی و رفاقت سے مخصوص نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کے تمام تعلقات ‘ شادی بیاہ اوردیگر روابط میں اسے پیش نظر رکھنا چاہۓ ۔ شادی کے مسئلے میں ضروری ہے کہ مرد غور کرے کہ اپنی ہونے والی بیوی سے کیا چاہتا ہے اور شادی سے قبل اسکی شخصیت کے مختلف عناصر کے متعلق تحقیق کرے اور یہی باتیں عورت کو بھی ہونے والے شوہر کے متعلق ملحوظ رکھنی چاہئں ۔ اسے بھی جاننا چاہۓ کہ اس کے ہونے والے شوہر میں کن صفات کا ہونا ضروری ہے؟ اور وہ خصوصیات اس مرد میں پائ جاتی ہیں یا نہیں؟ کیونکہ شادی سے پہلے کی یہ تحقیق و معلومات ان کی آئندہ ازدواجی زندگی کی سلامتی کی ضامن ہیں۔  میرے عزیز و! یہی وجہ ہے کہ شادی میں والدین کو لڑکے اور لڑکی پر اپنی راۓ مسلط نہیں کرنی چاہۓ اور ان سے تحقیق اور انتخاب کا حق نہیں چھین لینا چاہۓ۔ اسی طرح یہ بھی درست نہیں کہ والدین خاندانی مصلحتوں اور خاندانی روابط یا دوستیوں کو مستحکم کرنے کی خاطر اپنے لڑکوں یا لڑکیوں کی شادی ان کی رضامندی کے بغیر کر دیں۔ کیونکہ زندگی ماں ‘ باپ نے نہیں گزارنی ‘ بلکہ انہیں لڑکے اور لڑکی کی زندگی کی مصلحتوں کو مدِ نظر رکھنا چاہۓ۔اگر انسان سوچے تو شادی واقعی ایک اہم مسئلہ ہے۔ کیونکہ شادی کے ذریعے ایک شخص آپ کے دن رات کا ساتھی بن جاتا ہے۔ آپ کی زندگی کے تمام اسرار سے آگاہ ہو جاتا ہے اور زندگی کے طویل سفر کے تمام مراحل میں آپ کا ہم سفر قرار پاتا ہے۔ بتایۓ کیسے ممکن ہے کہ بغیر تحقیق کے ایسے شخص کا انتخاب کر لیا جاۓ؟لہٰذا ضروری ہے کہ انسان اپنے شریکِ حیات کے متعلق یا تو خود ذاتی طور پر تحقیق کرے یا صاحبِ نظر افراد اور مخلص اور خیر خواہ دوستوں سے مشورہ کرے۔ یہ تحقیق اور معلومات کا حصول نہ صرف شادی کے مسئلے میں بلکہ تمام روابط میں ضروری ہے‘ خواہ وہ معاشی روابط ہوں یعنی کسی کو کاروباری شریک بنانا چاہتے ہوں‘ یا سیاسی روابط ہوں اورآپ کسی پارٹی یا تنظیم کا رکن بننا چاہتے ہوں اور خواہ کوئی دوسرا انسانی رابطہ ہو۔ ہر چیز سے قبل افراد کے بارے میںتحقیق کرنا چاہۓ اور ان کے متعلق مطلوبہ معلومات حاصل کرنی چاہئں۔
احادیث‘ آزمائش کی تاکید کرتی ہیں
آیۓ سب مل کر اس باب میں ائمہ علیہم السلام کے کلام کی جانب چلتے ہیں اور بغور اسے سنتے ہیں۔ کتاب غرر الحکم میں حضرت علی ںفرماتے ہیں: قَدِّمِ الِاختِبَارَفِی اتِّخَاذِ الاِخوَانِ فَاِنَّ الاِختِبَارَ مِعیَارٌ تَفرُقُ بِہِ بَینَ الاَخیَارِ وَ الاَشرَارِ’’دوست بنانے سے پہلے اس کی آزمائش کرو کیونکہ آزمائش اچھے اور برے کے درمیان تمیز کا پیمانہ ہے۔‘‘ یعنی آزمائش وہ پیمانہ ہے جو آپ کے سامنے واضح کر دیتی ہے کہ کون نیک ہے اور کون بد۔ لہٰذا جب تک کسی انسان کی آزمائش نہ کر لو اور اس کے اخلاق‘ افکاراور طور طریقوں کو پرکھ نہ لو اسے دوست نہ بنائو۔ ایک دوسری حدیث میں امام علیں فرماتے ہیں:قَدِّمِ الِاختِبَارَ وَ اَجِدِ الِاستِظہَارَ فِی اِختِیَارِ الاِخوَانِ وَ اِلاَّ اَلجَاَکَ الاِضطِرَارَ اِلٰی مُقَارَنَةِ الاَشرَارِ ’’پہلے آزمائش کرو پھر دوست بنائو اور دوست بنانے میں احتیاط سے کام لو (و گر نہ گردشِ زمانہ اور) مجبوری تمہیں اشرار کی ہم نشینی پر مجبور کر دے گی۔‘‘ کتاب ’’کنز العمال‘‘ میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک حدیث ہے: اِذَا رَاَیتَ مِن اَخِیکَ ثَلاَثَ خِصَالٍ فَارجُہُ الحَیائُ وَ الاَمَانَةُ وَ الصِّدقُ وَ اِذَا لَم تَرَہَا فَلاَتَرجُہ۔ ’’جب بھی اپنے بھائ میں یہ تین خصوصیات دیکھو تو اس کی دوستی اور محبت کے امید وار رہو۔   ١۔ حیاء ۔  ٢۔امانت داری ۔  ٣۔ صداقت ۔اور اگر یہ چیزیں اس میں نظر نہ آئں تو وہ دوستی کے قابل نہیں ہے۔‘‘ یعنی ہوشیار رہوکہ جس کو دوست بنا رہے ہو وہ کہیں بے شرم و بے حیا نہ ہوبلکہ اسے با حیا ‘ معزز اور لوگوں کے ساتھ تعلقات میں حیا کا پابند ہونا چاہۓ۔ کیونکہ ایسا شخص لوگوں کے ساتھ احترام سے پیش آتا ہو۔ حضرت امام صادق ںسے منقول ہے:  اِختَبِرُوا اِخوَانَکُم بِخَصلَتَینِ فَاِن کَانَت فِیہِم وَ اِلاَّ فَاعزُب ثُمَّ اعزُب’’دو خصوصیات سے اپنے بھائوں کی آزمائش کرو ۔اگر یہ خصوصیات ان میں پائ جائں تو انہیں اپنا دوست اور بھائ بنائو و گر نہ چھوڑ دو۔ (وہ خصوصیات ہیں: )۔
 ١  اَلمُحَافَظَةُ عَلَی الصَّلاَةِ فِی مَوَاقِیتِہَا(نماز کو اس کے مقررہ وقت پر ادا کرنے کا پابند ہو)۔ ایسے فرد کی دوستی خدا کی بندگی اور اطاعت میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور اسی طرح اطاعت الٰہی میں مسلسل انہماک ‘ اور پابندی ٔ وقت کا احترام لوگوں کے ساتھ اجتماعی میل ملاپ میں انسان کی طبیعت پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔
٢ وَ البِرُّبِالاِخوَانِ فِی العُسرِ وَ الیُسرِ(تنگی اور فراخی ‘ دونوںحالتوں میں اپنے بھائ کے ساتھ حسن سلوک)۔یعنی مددا ور معاونت کے ذریعے حتیٰ المقدور اپنے بھائ کی ضروریات پوری کرے۔  امام صادق ںکی ایک دوسری حدیث میں ہے: اِذَا کَانَ الزَّمَانُ زَمَانُ جَورٍ وَ اَہلُہُ اَہلَ غَدرٍ فَالطَّماَنِینَةُ اِلٰی کُلِّ اَحَدٍ عَجزٌ  ’’جب ایسا زمانہ ہو‘جس میں ظلم و جور کا دور دورہ ہو اور جب اہلِ زمانہ دھوکہ باز اور فریبی ہوں تو ایسے دور میں ہر ایک پر بھروسہ کر لینا عجز و ناتوانی (کاموجب) ہے۔‘‘ یعنی جب کبھی ایسا دور ہو کہ افرادِ معاشرہ ایک دوسرے پر ظلم و ستم کریں‘ ایک دوسرے کی حق تلفی کریں‘ ایک دوسرے کے ساتھ کۓ گۓ عہد و پیمان نہ نبھائں‘ ایک دوسرے کے ساتھ دھوکہ و فریب کے مرتکب ہوں ‘ تو ایسے دور میں کسی پر اطمینان و اعتماد نہ کرنا‘ خود کو دست بستہ کسی کے حوالے نہ کر دینا‘ بلکہ ہر ایک کو آزمانا تاکہ اس کی حقیقت تم پر واضح ہو جاۓ کہ ظالم و ستم گر ہے یا وفادار اور عادل؟ ایک حدیث میں حضرت علی ںفرماتے ہیں:  لاَ  تَثِق بِالصِّدِیقِ قبَلَ الخِبرَةِ ’’کسی دوست پر اس وقت تک بھروسہ نہ کرو جب تک اسے پرکھ نہ لو۔‘‘ اگر مخصوص حالات اور روز مرہ زندگی میں سماجی تعلقات کے دوران آپ کی کسی سے شناسائ ہو جاۓ‘ پھر وہ آپ کا دوست بن جاۓ‘ تو فوراً ہی اس پر اعتماد نہ کر لیجۓ‘ اپنی زندگی کے رازوں اور پوشیدہ باتوں سے اسے آگاہ نہ کردیجۓ اور اسے اپنی زندگی میں شامل نہ کیجۓ‘ جب تک کہ اسے آزمانہ لیجۓ اور اچھی طرح پرکھ نہ لیجۓ کہ وہ ایک قابلِ اعتماد دوست کے معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں؟ حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں: تَجَنَّب عَدُوَّکَ وَ احذَر صَدِیقَکَ مِنَ الاَقوَامِ اِلاَّ الاَمِینَ مَن خَشِیَ اللّٰہَ ’’اپنے دشمن سے دوررہو اور قوم وقبیلے سے تعلق رکھنے والے دوست سے محتاط رہو‘ سواۓ اس امین شخص کے جو خوفِ خدا رکھتا ہو۔‘‘ قدرتی بات ہے کہ جو شخص کھلا اور آشکارا دشمن ہے اس سے انسان کو دور رہنا چاہۓ‘ کیونکہ دشمن کی توذہنیت ہی نقصان پہنچانا ہے۔ لہٰذا اس سے فاصلہ رکھنا چاہۓ تا کہ اس کی طرف سے پہنچنے والے نقصان سے محفوظ رہے لیکن وہ دوست جس کی امانت داری کو پرکھ نہیں سکے ہو‘ اس سے محتاط رہو۔ یہاں اس نکتے پر توجہ دلانا ضروری ہے کہ احتیاط پر عمل کرنے کے معنی یہ نہیں کہ دوستی ترک کر دی جاۓ ۔لہٰذا امام  ںنے دو مختلف الفاظ تَجَنَّب اور اِحذَر یعنی دوری اختیار کرو اور احتیاط برتو کا استعمال کیا ہے ۔اور احتیاط کے معنی یہ ہیں کہ محتاط رہو اور خود کو مکمل طور پر اس کے حوالے نہ کردو ‘تا کہ اگر بعد میں معلوم ہو کہ وہ امانت دار اور رازوں کا محافظ نہیں ہے تو اس کے ساتھ دوستی اور تعلقات پر نظر ثانی کرسکو ۔ کیونکہ ممکن ہے وہ تمہارا دشمن ہو اور اس نے تم سے اپنی دشمنی کو چھپایا ہوا ہو۔ بقول شاعر:  اِحذَر عَدُوَّک َمَرَّةوَ اِحذَرصَدِیقَکَ اَلفَ مَرَّةً   فَلَرُبُّ مَا انقَلَبَ  الصَّدِیقُ      فَکَان َ     اَدرِی     بِالمَضَرَّةِ’’یعنی اپنے دشمن سے ایک بار احتیاط کرو اور اپنے دوست سے ہزار بار۔ ممکن ہے دوست بدل جاۓ اس صورت میں تمہیں نقصان پہنچانے کے طریقوں سے دوسروں سے زیادہ واقف ہو گا۔ ‘‘بے شک ‘ جو دوست آپ کے تمام اسرار سے واقف ہے ‘ اگر آپ کے اور اس کے درمیان کدورت پیدا ہو جاۓ یا کوئی اختلاف جنم لے لے تو وہ آپ کے تمام اسرار جن کے انکشاف سے آپ کونقصان پہنچے گا ‘ آپ کے دشمنوں کے سامنے کھول کر بیان کر دے گا۔جس طرح پہلے بھی ہم نے عرض کیا احتیاط برتنے کے معنی یہ ہیں کہ اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالے نہ کر دیں‘ اس بات کو ہم نے بارہا حضرت علی ںسے  نقل کیا ہے۔ ایک مقام پر فرماتے ہیں: لَاتَثِقَنَّ بِاَخِیکَ کُلِّ الثِّقَةِ فَاِنَّ صَرعۃَ الاِستِرسَالِ لاَتُستَقَالُ ’’اپنے بھائ پر مکمل اعتماد نہ کرو‘ اس لۓ کہ خوش فہمی کی وجہ سے پہنچنے والا نقصان ناقابلِ تلافی ہوتاہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ اندھے اعتماد کی ممانعت کی گئ ہے ۔آپ کے اور آپ کے دوست کے درمیان کچھ فاصلے کا ہونا ضروری ہے۔ تا کہ اگر پتا چلے کہ اس کی دوستی آپ کے ساتھ حقیقی اور مخلصانہ نہیں ہے ‘ یا اسکی دوستی دشمنی میں تبدیل ہوجاۓ تو آپ اس سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ اسی بارے میں امام علی ںنے فرمایا ہے: اُبذُل لِصَدِیقِکَ کُلَّ مَوَدَّةٍ وَ لَاتَبذُل لَہُ کُلَّ الطُّماَنِینَۃِ ’’اپنے دوست پر اپنی پوری محبت نچھاور کر دو‘ لیکن اس پر مکمل بھروسہ نہ کرو ۔‘‘ احتیاط کو اپنا شعار بنانے کی کوشش کرو تاکہ اگر اس کی دوستی ناقابلِ اعتماد نظر آۓ تو خود کو اس سے محفوظ رکھ سکو۔ آپ ہی دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:  لَاتَرغَبَنَّ فِی مَوَدَّةٍمَن لَم تَکشِفہُ ’’جس کو پہچانا نہیں ہے اور جس کی حقیقت سامنے نہیں آئ ہے اس کی محبت کی خواہش نہ کرو۔‘‘
آزمائش کے طریقے
ائمہ علیہم السلام کی بہت سی احادیث میں دوست کی آزمائش کے طریقے بیان ہوۓ ہیں۔ حضرت امام علی ںکی ایک حدیث ملاحظہ ہو:  عِندَ زَوَالِ القُدرَةِ یَتَبَیَّنُ الصَّدِیقُ مِنَ العَدُو ’’اقتدار کے خاتمے پر دوست اور دشمن کا پتاچلتا ہے ۔‘‘ اگر شان و شوکت‘ قدرت و قوت کے اعتبار سے تمام معاملات اچھی طرح چل رہے ہوں اورتمہیں علمی‘ سیاسی‘ سماجی اور مذہبی حیثیت حاصل ہو‘ تو اس صورت میں سبھی اپنے آپ کو تمہارا دوست بتائں گے۔لیکن اگر اقتدار کا خاتمہ ہو جاۓ اور منصب و مقام‘ مال و دولت تمہارے ہاتھ سے جاتے رہیں‘ تب تمہارے دوست اور دشمن کی شناخت ہو گی۔ جو دوست ہو گاوہ تمہارے ساتھ رہے گا خواہ دولت مندی کے بعد تم فقیر اور قلاش ہی کیوں نہ ہو جائو اور قدرت و قوت کے بعد تم عاجز و ناتواں ہی کیوں نہ ہو جائو۔  حضرت امام صادق ںفرماتے ہیں: یَمتَحِنُ الصَّدِیقُ بِثَلاَثِ خِصَالٍ فَاِن کَانَ مُوَاتِیّاً فِیہَا فَہُوَ الصَّدِیقُُ المُصَافِی وَ اِلاّٰ کَانَ صَدِیقُ رَخَاءٍ لاَصَدِیقَ شِدَّةٍ ’’ تین چیزوں سے دوست کی آزمائش کی جاتی ہے۔ اگر وہ آزمائش پر پورا اترے تب تو مخلص اور سچا دوست ہے وگرنہ اچھے وقتوں کا دوست ہو گابرے اور مشکل وقت کا رفیق نہیں۔‘‘ (وہ تین چیزیں یہ ہیں)
 ١   تَبتَغِی مِنہُ مَالاً (اس سے مال طلب کرو)۔اگر وہ مثبت جواب دے‘ تو تمہارا دوست ہے اور اگر مالی یا اسی نوعیت کی کوئی دوسری قربانی دینے میں ہچکچاہٹ کا اظہارکرے تو اس سے امیدبے کار ہے۔
٢   اَو تَامَنہُ عَلٰی مَالٍ (یااسے مال پر امین بنائو)۔ اپنا کچھ مال اسکے سپرد کرو اور دیکھو کہ اس کی حفاظت کرتا ہے یا تمہارے ساتھ خیانت کرتا ہے۔
۳ اوتشارِکُہُ فِی مَکرُوہٍ (یا اپنی مشکلات میں اسے شریک   کرو)۔مصائب و مشکلات میں اسے شریک کرو تاکہ پتا چلے کہ ابتلا ‘ بلا اور مصیبت کے وقت کیا طرز عمل اختیار کرتا ہے ۔ اسی طرح دوست کی پرکھ او پہچان کا ایک راستہ یہ ہے کہ‘ یہ دیکھو کہ وہ کن لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔ حضرت سلیمان سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:  لاٰتَحکَمُوا  عَلیٰ رَجُلٍ فی شَیئٍ حَتّٰی تَنظُرُوا مَن لِصَاحِبُ فَاِنَّمَا یُعرَفُ الرَّجُلُ بِاَشکَالۃٍِ وَاَقرٰانِہِ وَیُنسَبُ اِلٰی اَصحٰابِہِ وَ اَخوٰانِہِ ’’ کسی کے بارے میں بھی اس وقت تک کوئی فیصلہ نہ کرو جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ اس کا میل جول کن لوگوں کے ساتھ ہے۔ کیونکہ انسان اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے ذریعے ہی پہچانا جاتا ہے ۔ اور اسے اس کے ساتھیوں اور دوستوں کی طرف نسبت دی جاتی ہے۔‘‘ حضرت علی ںنے فرمایا: لاَیُعرَفُ النَّاسُ اِلاّٰ بِالاِختِبَارِ فَاختَبِر اَہلَکَ وَ وَلَدَکَ فِی غَیبَتِکَ ’’لوگ آزماۓ بغیر پہچانے نہیں جاتے ۔ لہٰذا اپنے اہلِ خانہ اور آل اولاد کو اپنی غیر موجودگی میں آزماؤ۔‘‘ یعنی دیکھو کہ یہ لوگ تمہاری غیر موجودگی میں تمہارے متعلق کیا باتیں کرتے ہیں‘ تمہارا ذکر اچھے لفظوں میں کرتے ہیں یا برے لفظوں میں؟ وَ صَدیِقَکَ فِی مُصِیبَتِکَ ’’اپنے دوست کو مصیبت کے وقت (آزمائو)۔‘‘ یعنی دوست کو اس وقت آزمائو جب تم پر‘ تمہارے اہل و عیال پر اور تمہارے مال و دولت پر کوئی مصیبت نازل ہو‘ اور دیکھو کہ اس مصیبت کے وقت جب کہ تمہارے قدم لرز رہے ہیں‘ تمہارا دوست کہاں کھڑا ہے؟  وَ ذَا القَرَابۃِ عِندَ فَاقَتِکَ ’’رشتے داروں کو اپنی ناداری میں(آزمائو)۔‘‘  اعزہ و اقربا کو فقر و تنگ دستی کے دنوں میں آزمائو۔ اگر تمہاری مدد اور معاونت کریں تو سچے دوست اور مخلص عزیز ہیں‘ وگرنہ نہیں۔ وَ ذَا التَّوَدُّدِ وَ المَلَقِ عِندَ عُطلَتِکَ ’’اور اپنی محبت کا دم بھرنے والوں اور خوشامد کرنے والوں کو اپنی بیکاری کی حالت میں (آزمائو)۔‘‘ جو شخص اپنی شیریں بیانی کے ذریعے تمہاری خوشامد کرتا ہو‘ اسے بے کاری اور پریشانی کے ایام میں آزماؤ۔ لِتَعلَمَ بِذاَلِکَ مَنزِلَتَکَ عِندَہُم ’’اس طرح تمہیں ان کے نزدیک اپنی قدر و منزلت کا علم ہو جاۓ گا۔‘‘
بہترین دوست
 رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بہترین دوست کے متعلق سوال ہوا ۔ ’’ اَیُّ الاَصحَابِ اَفضَلُ؟ قَالَ اِذَا ذَکَرتَ اَعَانَکَ وَ اِذَا نَسِیتَ ذَکَّرَکَ ’’ سب سے بہتر دوست کون ہے؟آنحضرت نے فرمایا: جب تم (خدا کو) یاد کرو تو تمہاری مدد کرنے والا اور جب تم (خدا کو) بھول جائو تو تمہیں ( اس کی) یاد دلانے والا۔‘‘یعنی سب سے بہترین دوست وہ ہے کہ جب تم خدا کی یاد میں مشغول ہو‘ جب تم دوستوں کے حقوق اور تمام اچھی باتوں کو یاد رکھے ہوۓ ہو‘ تو وہ ان تمام امور میں تمہارا مددگار ہو۔ اور اگر تم خدا کو فراموش کر دو ‘ بھائوں کے حقوق اور اچھائوں کو بھلا بیٹھو تو وہ تمہیں ان امور کی پابندی کی جانب متوجہ کرے۔ ایسا ہی شخص تمہارا بہترین دوست ہے جو بھول اور غفلت کے عالم میں بھی تمہاری معاونت کرے اور یاد اور توجہ کے عالم میں بھی تمہارا مددگار ہو۔ ایک دوسرے مقام پر رسول خدا نے فرمایاہے : اِذَا اَرَادَ اللّٰہُ بِعَبدٍ خَیراً جَعَلَ لَہُ وَزِیراً صَالِحاً اِن نَسِیَ ذَکَّرَہُ وَ اِن ذَکَرَ اَعَانَہُ ’’جب بھی پروردگارِ عالم کسی بندے کی بھلائ چاہتا ہے تو اس کے لۓ ایک اچھا وزیر مقرر فرما دیتا ہے کہ اگر وہ بھولا ہوا ہو تو (یہ وزیر) اسے یاد دلاتا ہے اور اگر اسے یاد ہو تو اس سے تعاون کرتا ہے۔‘‘ یعنی اگر خدا کی طرف سے عائدکردہ فرائض اور ذمے داریوں کو بھولا ہوا ہو‘ تو یہ دوست اسے یاد دلاتا ہے اور اگر اسے اپنے فرائض اور ذمے داریاں یاد ہوں تو یہ دوست ان کی انجامدہی میں اسکی مدد کرتا ہے۔
 دوست کا حق
اب ہم دوست کے حقوق کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ حضرت امام سجاد ںسے ’’رسالۂ حقوق‘‘ میں نقل ہوا ہے: اَمَّا حَقُّ الصَّاحِبِ فَاَن تَصحَبَہُ بِالتَّفَضُّلِ وَ الاِنصَافِ ’’البتہ دوست کا حق یہ ہے کہ اس سے فضل اور انصاف کے ساتھ پیش آئو۔‘‘ یعنی خدمت گزاری ‘ تعظیم و تکریم اور بخشش و عطا کے ذریعے اس کے ساتھ فضل و احسان کرو‘  یا کم از کم اس کے ساتھ انصاف کرو اور اسے اس کا حق دو ۔وَ تُکرِمُہُ کَمَا تُکرِمُک’’اس کی ویسی ہی عزت کرو‘ جیسی وہ تمہاری عزت کرتا ہے۔‘‘ وَلَاتَدَعہُ یَسبَقُ اِلٰی مَکرَمٍَۃ ’’کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شرافت اور بزرگی میں پہل کر جاۓ۔‘‘ یعنی ادب و احترام اور جو چیزیں مکارمِ اخلاق میں شمار ہوتی ہیں ان میں تم اس پر مقدم رہو ۔  فَاِن سَبَقَ کَافَأتَہُ ’’اور اگر وہ پہل کر جاۓ تو اسے اسکا بدلا دو۔‘‘وَ تَوَدُّہُ کَمَا یَوَدُّکَ وَ تَزجُرُہُ عَمَّا یَہُمُّ بِہِ مِن مَعصِیّۃٍَ ’’اس کے ساتھ اسی طرح محبت سے پیش آئو جس طرح وہ تمہارے ساتھ محبت سے پیش آتا ہے‘ اور اسے اس گناہ سے روکو جس کا وہ مرتکب ہو تا ہے۔‘‘ اگر دیکھوکہ وہ ذوق و شوق کے ساتھ گناہ کرتا ہے اور اس کی طرف راغب ہے تو دوستی کا حق یہ ہے کہ تم اسے ارتکاب ِ گناہ سے منع کرو۔ وَ کُُن عَلَیہِ رَحمَةً وَ لَاتَکُن عَلَیہِ عَذَاباً 

’’اس کے لۓ رحمت بنو‘ عذاب نہ بنو۔‘‘ بیماری‘ فقر و فاقے ‘ خوشی اور غمی  ہرحال میں اس کے لۓ رحمت ثابت ہو‘ ان مشکلات میں اسے فراموش نہ کرو۔ حضرت امام زین العابدین ںسے روایت ہے:

وَ حَقُّ الخَلِیطِ اَن لَاتَغُرَّہُُ وَ لَاتَغُشَّہُ وَ لَاتَخدَعُہُ وَ تَتَّقِی اللّٰہَ تَبَارَکَ َو َتعَالیٰ فِی اَمرِہِ ’’دوست کا حق یہ ہے کہ اسے دغا نہ دو‘ نہ اس کے ساتھ فریب کرو‘ نہ ہی اسے دھوکہ دو اور اس کے بارے میں پروردگارِ عالم سے ڈرو۔‘‘ مفضل کہتے ہیں کہ : دَخَلتُ عَلَی اَبِی عَبدِ اللّٰہِ فَقَالَ لِی : مَن صَحِبَکَ؟ فَقُلتُ: رَجُلٌ مِن اِخوَانِی‘ قَالَ: فَمَا فَعَلَ؟ فَقُلتُ: مُنذُ دَخَلتُ المَدِینَةَ لَم اَعرِف مَکاَنَہُ‘ فَقَالَ لِی :اَمَا عَلِمتَ اَنَّ مَن صَحِبَ مُؤمِناً اَربَعِینَ خَطوَةً َساَلہَ ُاللہُ عَنہُ یَومَ الِقیَامَۃِ ’’میں حضرت امام صادق ںکی خدمت میں حاضر ہوا ۔حضرت  نے مجھ سے فرمایا : تمہارا ساتھی کون تھا (یعنی سفر میں تمہارے ساتھ کون تھا؟) میں نے عرض کیا: میرا ایک بھائ (یعنی میں اسے نہیں جانتا تھا)  فرمایا : وہ کیا کام کرتا ہے؟ میں نے عرض کیا : مدینہ تک مجھے معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کیا کرتا ہے؟ امام(ع) نے فرمایا :کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جو کوئی بھی کسی مومن کے ساتھ چالیس قدم سفر کرے گا تو پروردگارِ عالم روزِ قیامت اس سے اس کے متعلق سوال کرے گا۔‘‘
لہٰذا انسان جس کسی کے ساتھ بھی سفر کرتا ہے‘ اسے اس پر حقِ ہم نشینی حاصل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اسے معلوم کرنا چاہے کہ وہ کیا کرتا ہے؟ کہاں جا رہا ہے؟ اس کے حال احوال کیسے ہیں؟ اور اس وقت تک اس سے جدا نہ ہو جب تک ان تمام امور کے بارے میں واقفیت حاصل نہ کرلے۔ حضرت علی ں کا ایک واقعہ ملاحظہ ہو :  ایک روز حضرت علی ں ایک یہودی کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ آپ  ایک راستے سے جانا چاہتے تھے‘ جبکہ اس یہودی کی خواہش تھی کہ دوسرا راستہ اختیار کیا جاۓ۔ لیکن امام  نے اس کا ساتھ نہ چھوڑا (اور اس کی اختیار کردہ راہ پر آپ  بھی چلنے لگے) یہاں تک کہ وہ دوراہا آ گیا جہاں سے آپ  کو اس یہودی سے جدا ہونا تھا۔ یہاں پہنچ کر بھی آپ  اس ے علیحدہ نہ ہوۓ اور کچھ دور تک اس کے ساتھ چلتے رہے۔ یہودی نے کہا : اے ابوالحسن  ! آپ  کا راستہ تو اس طرف ہے‘ کیا آپ  کا خیال بدل گیا ہے اور آپ  نے اپنی منزل بدل دی ہے؟ امام  نے فرمایا :نہیں ‘ ایسا نہیں ہے بلکہ پیغمبرِ اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : جب کبھی تم کسی کے ساتھ سفر کرو تو تم پر اسکا حق یہ ہے کہ ‘ امن کے مقام تک اس کے ہمراہ چلو اور اسکے بعد اس سے جدا ہو۔ یہودی نے پوچھا : کیا یہ آپ  کے پیغمبر   کا فرمان ہے ۔امام نے جواب دیا: ہاں۔ یہودی نے کہا :اپنا ہاتھ بڑھایۓ ۔ ( آپ  نے ہاتھ بڑھایا) یہودی نے آپ  کے بڑھے ہوۓ ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور کہا : اَشہَدُ اَن لاَ اِلٰہَ اِلاّٰ اللّٰہُ وَ اَن َّمُحَمَّداً رَسُولُ اللّٰہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سواکوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کے رسول ہیں )اس طرح وہ یہودی مسلمان ہوگیا۔

ہم اس واقعے اور اما م علی  کے یہودی کے ساتھ اس سلوک سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مناظرے اور علمی وفلسفی بحثوں کی نسبت اسلامی اخلاق کے ذریعے کہیں زیادہ دوسروں کو اسلام کی طرف جذب کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس طرح کے عمل عقل‘ قلب‘ احساس اور شعور پر چھا جاتے ہیں۔ لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ اپنے عمل کے ذریعے اسلامی اخلاق کی جانب لوگوں کی رہنمائی کریں جیسے کہ امام صادق  نے فرمایا ہے: کُونُوا دُعَاةً لِلنَّاسِ بِغَیرِ اَلسِنَتِکُم لِیَرَوا مِنکُم الصِّدقَ وَ الخَیرَ وَ الوَرَعَ فَاِنَّ ذَالِکَ دَاعِیَۃٌ ’’لوگوں کو اپنی زبان کے بغیر(عمل سے) اسلام کی طرف دعوت دو۔  لوگ تم میں سچائ ‘ عملِ خیر اور پرہیزگاری دیکھیں ۔بلاشبہ یہی چیزیں دعوت دیتی ہیں۔‘‘ پس اگر ہم حق کی راہ اپنا کر لوگوں کے ساتھ سچائ پر مبنی طرز عمل اپنائں‘ پارسائ اور امانت کو اپنا شعار بنائں تو ہمارا یہ عمل لوگوں کو خودبخوداسلام کی جانب لانے کا موجب بنے گا‘ کیونکہ لوگ اس طرزِ عمل میں اسلام کو مجسم دیکھیں گے۔ مولا علی ںکی ایک حدیث ملاحظہ فرمائں: لاٰتَقطَعُ صَدِیقاً وَ اِن کَفَرَ ’’ دوستی کے رشتے کو نہ توڑو خواہ تمہارا دوست کافر ہو۔‘‘لہٰذادوستوں سے میل ملاپ اور تعلقات ضروری ہیں خواہ وہ آپ کے ایمانی دوست ہوں یاسماجی زندگی میں بن جانے والے دوست۔ ہم پر لازم ہے کہ اپنے دوستوں سے دوستی کا رشتہ قطع نہ کریں چاہۓ وہ مومن ہوں چاہے کافر۔ اس حدیث سے امام  کی یہ مراد محسوس ہوتی ہے کہ ہمیں کفار کے ساتھ بھی اسلامی اخلاق کے ساتھ پیش آنا چاہۓ‘ ممکن ہے ہمارے اس سلوک سے وہ اسلام کی طرف مائل ہو جائں۔ آخر میں ہم امام علی ںکا ایک قول نقل کر رہے ہیں جو نصیحت و موعظہ بھی ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ انسان کے واقعی دوست کون سے افراد ہیں۔ فرماتے ہیں : اِنَّ لِلمَرئِ المُسلِمِ ثَلاَثَۃُ اَخِلاَّء ’’ہر مسلمان انسان کے لۓ تین طرح کے دوست ہیں۔‘‘ فَخَلیِلٌ یَقُولُ لَہُ اَنَا مَعَکَ حَیّاً وَ مَیتِّاً وَ ہُُوَ عِلمُہُ ’’ ایک دوست ایسا ہے جو اس سے کہتا ہے کہ میں زندگی او ر موت دونوں ہی میں تمہارے ساتھ ہوں ۔یہ اس کا علم ہے۔‘‘ انسان کا علم موت کے وقت بھی اس کے ساتھ اسی طرح رہے گا جیسے زندگی میں اس کے ساتھ تھا البتہ جب عمل کے ہمراہ ہو۔ وَ خَلِیلٌ یَقوُلُ لَہ ُاَنَا مَعَکَ حَتَّی تَمُوتَ وَ ہُوَمَا لُہُ ’’دوسرا دوست کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں لیکن صرف تا دمِ مرگ۔ یہ اس کا مال ہے۔‘‘ انسان کا مال اس کے ہمراہ اس وقت تک ہے جب تک وہ مرا نہیں ہے۔ مرنے کے بعد اسے ایک کفن دیکر چھوڑ دیتا ہے۔ وَ خَلِیلٌ یَقُولُ لَہُ اَنَا مَعَکَ اِلَی بَابِ قَبرِکَ ثُمَّ اُخَلِّیکَ وَ ھُوَ وَلَدُہُ ’’اور تیسرا دوست اس سے کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں البتہ تا لبِ گور‘ اس کے بعد تم کو چھوڑ دوں گا۔ یہ انسان کا فرزند ہے۔‘‘  انسان کو ان تینوں میں سے کسے دوستی کے لۓ منتخب کرنا چاہۓ؟ جواب واضح ہے ‘ایسے علم کو جو عمل کا باعث ہو۔ بعض احادیث میں آیا ہے کہ جب انسان حالتِ احتضار میں ہوتا ہے اور عالمِ آخرت کی طرف سفر کے لۓ تیار ہوتا ہے تو مال‘  اولاد‘ اور اس کا عمل اس کے سامنے مجسم ہوتے ہیں۔مرنے والا ‘اولاد سے کہتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی تمہارے لۓ وقف کردی اور اس وقت مشکل میں ہوں تم میرے لۓ کیا کرسکتے ہو؟ اس وقت اولاد کہتی ہے : ہم قبر تک تمہارے ساتھ آئیں گے۔ پھر وہ  مال کی طرف رخ کرتا ہے اور کہتا ہے : میں نے تجھے جمع کرنے کے لۓ بیابان اور وسیع و عریض صحرا طے کۓ۔ اس وقت میں مشکل میں ہوں‘ تو میرے لۓ کیا کرسکتا ہے؟ وہ جواب میں کہتا ہے : تم اپنا کفن مجھ سے لے سکتے ہو۔ اس منزل پر وہ اپنے عمل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور کہتا ہے : تو میرے لۓ بہت بھاری تھا۔ اس وقت عمل کہتا ہے : میں تمہاری قبر میں تمہارے ساتھ ہوں ‘ حشر تک تمہارے ہمراہ ہوں اور جب تم بہشت یا جہنم کی طرف جا رہے ہوگے تب بھی تمہارے ساتھ ہونگا۔ جی ہاں !  قرآن کریم نے عمل کے متعلق فرمایا ہے:  وَ قُل ِاعمَلُوا فَسَیَری اللّٰہُ عَمَلَکُم َو رَسُولُہُ وَ المُؤمِنُونَ ’’اور پیغمبر ان سے کہہ دیجۓ کہ تم لوگ عمل کرتے رہو کہ تمہارے عمل کو خدا‘ اس کا پیغمبر اور مومنین سب دیکھ رہے ہیں۔‘‘ (سورئہ توبہ ۹  آیت ۱۰۵)  نیز دوسرے مقام پر فرمایا: فَمَن  یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ خَیراً یَرَہُ وَ مَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ شَراً یَرَہُ  ’’جو ذرّہ برابر بھی نیکی کرے گا اسے دیکھے گا اور جو ذرّہ برابر بھی برائ کرے گا اسے دیکھے گا۔‘‘ (سورئہ زلزلۃ ۹۹  آیت ۷۔۸)
میرے عزیزو!  آئو ‘ خدا سے دوستی کریں اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی پیروی کریں جو پروردگار کے دوست بنے اور اسی طرح پروردگارِ عالم نے بھی ان سے دوستی کی وَاتَّخَذَہُ خَلِیلاً  پروردگارِ عالم نے انہیں اپنے دوست کے بطور چن لیا اور ہر ایک کو پہچنوایا۔ حضرت ابراہیمں صرف خدا کے لۓ ہوگۓ اور اس کے سامنے پوری طرح تسلیم ہوگۓ۔ آیۓ اپنے خدا کے ہم نشین ہوتے ہیں ‘ اسی طرح جیسے ایک دوست دوسرے دوست کے یا ایک عاشق اپنے معشوق کے ہم نشین ہوتا ہے۔ اپنی روح کو اس کے سپرد کر کے حقیقی ایمان پیدا کریں‘ اس سے عشق کریں ‘ نیک عمل انجام دیں اور تقویٰ کو اپنا شعار قرار دیں اور اس سے دنیا و آخرت کی بھلائ طلب کریں۔ اَلیَومُ عَمَلٌ وَ لَاحِسَابَ وَ غَداً حِسَابٌ وَ لاَ عَمَلَ ’’ آج عمل کا دن ہے‘ حساب کا نہیں اور کل حساب کا دن ہو گا عمل کا نہیں۔‘‘
و الحمد للہ رب العالمین  و ما توفیقی الا با اللہ
۱۲/ اگست ۲۰۰۱ ء مطابق با ۴ ربیع الثانی  ۱۴۲۲ھ
دوستی سے متعلق سوال و جواب
 خدا سے دوستی
سوال : سید فضل اﷲ آپ کا دوست کون ہے؟
جواب : خدا میں خدا سے دوستی کو اپنی خوش بختی سمجھتا ہوں اور لوگوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ خدا سے دوستی کریں ‘ وہ دوستی جو انسان کو عقل ‘ قلب ‘ زندگی الغرض سب کچھ عطا کرتی ہے اور ان کی افزائش کا باعث ہے ‘وہ خدا کی دوستی ہے کیونکہ وہی بخشنے والا اور مہربان ہے۔
شیطان دشمن ہے
سوال :  حضرتِ عالی آپ کا دشمن کون ہے؟
جواب : شیطان! اپنے تمام جلوئوں کے ساتھ، وہی شیطان جو بدی اور برائ کو انسان اور اس کی زندگی کے اندر شامل کرتا ہے۔
دوستی سے متعلق ایک ا عتراض
سوال :  مغربی مکتبِ فکر لوگوں کے ساتھ جس طرزِ عمل کی تلقین کرتا ہے اس میں دوستی کے بارے میں جو تعلیم دی گئ ہے اس میں ایک عیب دکھائ دیتا ہے۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ لوگ جس طرح چاہتے ہیں اسی طرح ان کے ساتھ پیش آیا جاۓ۔ اس کے متعلق حضرت ِعالی کی راۓ کیا ہے؟ کیا یہ صحیح ہے کہ ہمارا رویہ لوگوں کی خواہش کے مطابق ہونا چاہۓ ۔ یا پھر ہمارے مکتب و مسلک کے معیار پر ہونا چاہۓ۔؟
جواب: ہمیں لوگوں کے ساتھ نیک اخلاق و رفتار کے ساتھ پیش آنا چاہۓ۔      
یعنی ہم دوسروں کے خیر خواہ ہوں ‘ان کے ساتھ نیکی و احسان کریں اور ان کے ساتھ مخلصانہ میل ملاپ رکھیں۔ اور یہ نظریہ کہ ’’تم لوگوں کے ساتھ اس طرح پیش آئو جیسے وہ چاہتے ہیں ناچار وہ بھی تمہارے ساتھ ویسے ہی پیش آئں گے جیسے تم چاہتے ہو‘‘ بے معنی ہے۔ کیونکہ اس نظریے کی رو سے جو کوئی بھی جس مکتب و مسلک کا مالک ہے اور جو اس کا اجتماعی و سیاسی مشرب ہے ہمیں اس کے مذاق و مزاج کے مطابق پیش آنا چاہۓ نہ کہ متعین حدود کے تحت۔ اس بنیاد پر انسان کی تربیت کسی معین معیار و اخلاق کے مطابق نہیں ہونی چاہۓ نیز کوئی بھی فرد کسی ایک ثابت معیار کے تحت لوگوں کے ساتھ پیش نہیں آسکتا۔ بہر حال ہر شخص کا رویہ دوسروں کے ساتھ ان ضوابط اور حدود کے اندر ہونا چاہۓ  جن کی لوگ اخلاقی امور میں رعایت کرتے ہیں‘  غیر اخلاقی بنیادوں پرنہیں۔ یعنی طرزِ عمل کی بنیاد عدالت کو ہونا چاہۓ۔ اور عدالت کہتی ہے کہ جس طرح تم چاہتے ہو کہ تمہارے روحی اور ظاہری حالات پیشِ نظر رکھتے ہوۓ لوگ تمہارے ساتھ پیش آئں ‘ تمہیں بھی چاہۓ کہ لوگوں کے بارے میں انہی باتوں کو پیشِ نظر رکھو اور ان کے ساتھ انہی شرائط کے ساتھ پیش آؤ۔ 

خوشروئی اور خندہ پیشانی
سوال : ہم مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات کے وقت خوشروئ اور خندہ پیشانی سے پیش آناچاہۓ لیکن افسوس ہمارے درمیان حتیٰ عزیز اور گرامی قدر علما کے درمیان بھی یہ وصف کم نظر آتا ہے۔ ایسی صورت میں کیاکوئی ایسا راستہ ہے کہ مومنین اور مسلمان اس حالت سے چھٹکارا پا لیں؟
جواب :  پروردگار عالم فرماتا ہے:  لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن کَانَ یَرجُوا اللّٰہَ وَ الیَومَ الآخَر(یقینا رسول خدا تمہارے لۓ بہترین اسوہ اور نمونہ ہیں البتہ اس شخص کے لۓ جو خدا اور روزِ قیامت سے امید رکھتا ہے۔ سورئہ احزاب ٣٣  آیت ١٢)
یہی نمونۂ عمل ہستی ‘ یعنی پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:  اَلقِ اَخَاکَ بِوَجہٍ مُنبَسِط (اپنے بھائ سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کرو) لیکن بعض افراد پیغمبر کے اس حکم کے برخلاف خود کو اندوہ گین اور غمزدہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ تیوریوں پر بل دیۓ نا خوش اور بدمزاج نظر آتے ہیں‘ جب کہ انہوں نے فراموش کر دیا ہے کہ پیغمبرِ اسلام ہمیشہ اور ہر حال میں مسکراتے رہتے تھے اور امام سجاد بھی اسی طرح تھے ۔ایک عرب شاعر نے امام سجاد کی تعریف میں یہ شعر کہا۔
یَغضی حَیَائً وَ یُغضی مِن مَہَابَتِہِ فَلاَیُکَلِّمُ  النَّاسَ اِلاَّ  حِینَ  یَبتَسِم ’’حیا کی وجہ سے نگاہیں جھکاۓ رکھتے ہیں‘ اور لوگ بھی ان کی عظمت و شوکت کی وجہ سے ان کی طرف نگاہ اٹھانے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ اس کے باوجود جب گفتگو کے لۓ لب کھولتے ہیں تو آپ کے لبوں پر دلکش مسکراہٹ نظر آتی ہے۔‘‘لہٰذا مومن کی ایک علامت یہ ہے کہ خوشی اور و بشاشت اس کے چہرے سے عیاں ہو لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان کے چہرے کی طرف دیکھیں تو غم و اندوہ کی ایک دنیا انسان کی طرف منتقل ہو جاۓ۔ لوگ اگر خوشی و سرور کی حالت میں بھی ہوں تب بھی وہ غمزدہ  نظر آتے ہیں۔
 
ان دوستوں کو نصیحت جو ایک دوسرےسے روٹھ گۓ ہیں
سوال :  دو دوست جو مختلف مراجعین کی تقلید کرتے ہیں‘ اس مسئلے میں اختلاف کی وجہ سے آپس میں روٹھ گۓ ہیں‘ جب کہ اس سے پہلے وہ جگری دوست تھے۔ جیسے کہ آپ واقف ہیں تقلید کی وجہ سے سماج کے اندر کدورت‘ اختلاف اور لفظی جنگ کثرت سے نظر آتی ہے۔ حضرت عالی سے درخواست ہے اس کے متعلق کوئی نصیحت فرمائے۔؟
جواب : یہ بہت ہی واضح غلط طرزِ عمل ہے جو ایسے لوگوں کی نادانی اور دین کے پابند نہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ دونوں دوست مومن ہیں اور دونوں کے درمیان ایمانی اخوت قائم ہے ‘ ان دونوں دوستوں کو حق حاصل ہے کہ جس مرجع پر انہیں اعتماد و اطمینان ہو اسکی تقلید کرےں ‘ بالکل اسی طرح جیسے ڈاکٹر کا انتخاب کرتے ہیں ۔ ایک‘ ایک ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور دوسرا ‘ دوسرے ڈاکٹر کے پاس ‘ اس موقع پر ان کے درمیان کیوں اختلاف رونما نہیں ہوتا؟ تقلید اس شخص کی کی جاتی ہے جس نے فقہ میں اجتہاد کیا ہو اور اس پر عبور رکھتا ہو۔ اب اگر دو مراجع تقلید کسی مسئلے میں اختلافِ نظر رکھتے ہوں تو اس اختلاف کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی دین سے خارج نہیں ہوتا۔ بالفرض اگر یہ دونوں دوست ایک دوسرے کے مرجع کے متعلق منفی خیالات رکھتے ہوں تب بھی پروردگارِ عالم روزِ قیامت ان دونوں میں سے کسی سے بھی دوسرے کے مرجع کی تقلید کرنے یانہ کرنے کے بارے میں باز پرس نہیں کرے گا۔ میں ان دونوں دوستوں سے عرض کرتا ہوںکہ آپ دونوں کا ایک دوسرے سے اس امر میں روٹھنا خطا‘ گناہ اور دین کا پابند نہ ہونے کی دلیل ہے ۔ آپ متعصب ہیں متدین نہیں۔اسی طرح (نہ صرف یہ دونوں دوست) بلکہ وہ تمام افراد جو صرف مختلف مراجعین کے مقلد ہونے کی بنا پر اختلاف کرتے ہیں اور دل میںکینہ رکھتے ہیں۔وہ تشیع اور اسلام کے مخلص نہیں بلکہ اپنی خواہشات کے بندے ہیں اور خود کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں ۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ پابندِ دین اور متعصب انسان کے درمیان فرق ہے‘اور احادیث میں آیا ہے کہ متعصب کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
سیاسی  اختلاف
سوال : اکثر اوقات سیاست کی وجہ سے مومنین کے درمیان اختلافات پیداہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں کس طرح دوستی اور سیاسی رجحان کے درمیان توازن و اعتدال پیدا کریں؟
جواب :  پروردگار عالم فرماتا ہے: اِنَّمَا المُؤمِنُونَ اِخوَۃٌ( مومنین آپس میں بالکل بھائی ہیں ۔
(سورئہ حجرات ۴۹ آیت ۱۰)
یہاں تک کہ اگر سیاسی رجحانات میں بھی ان کے درمیان اختلاف پایا جاۓ‘ تب بھی ایک دوسرے کے بھائ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی اجتماعی نظریات یا سیاسی رجحان کی بنا پر اپنے کسی مومن بھائ سے جھگڑا کرے تو ایسا شخص دائرہ ایمان سے خارج ہے کیونکہ اس طرح وہ گویا یہ کہہ رہا ہوتاہے کہ پروردگار عالم نے یہ فرمایا ہے جبکہ میں یہ کہتا ہوں ۔حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا ہے:  اِذ قَالَ المُؤمِنُ لِلمُؤمِنِ اَنتَ عَدُوِّی کَفَرَ اَحَدُہُمَا (جو بھی مومن دوسرے مومن سے کہے تو میرا دشمن ہے تو ان میں سے کوئی ایک کافر ہوجاتا ہے۔)عرب شاعر ’’شوقی ‘‘کہتا ہے: اِختِلاَفُ الرَّایِ لَایُفسِدُ لِلوُدِّ قَضِیَّۃً ’’اختلاف ِنظر اور اختلاف ِراۓ کو دوستی کے لۓ مشکل نہیں بننا چاہۓ۔‘‘ البتہ یہ چیز جزی اور فروعی مسائل کے بارے میں ہے بنیادی اور اصولی مسائل کے بارے میں نہیں۔
میرا ایک دوست عریاں فلمیں دیکھتا ہے
سوال :  میرا ایک دوست طویل مدت سے جنسی فلمیں دیکھتا ہے اور میں عمر میں اس سے چھوٹا ہوں اور اس سے کہہ نہیں سکتا‘ لہٰذا پریشان ہوں ۔ میرا فریضہ کیا ہے؟براۓ  مہربانی میری راہنمائ فرمایۓ۔
جواب : کسی طرح اسے اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش کیجۓ اور اگر ضروری سمجھتے ہوں تو کسی بڑے سے کہۓ ، مگر اس وقت جب کہ آپ کو علم ہو کہ وہ اس کو نصیحت کرسکتا ہے اور اس عمل سے روک سکتا ہے۔
رنگ دوستی
سوال : میں اپنی تربیت اس طرح کرنا چاہتا ہوں کہ دوسروں سے اتنی ہی محبت کروں‘ جتنا وہ اسلام سے مخلص اور اسکے عاشق ہیں۔ دوسروں کے ساتھ میری محبت پر جذبات و احساسات اور قرابت داری حاوی نہ ہو۔اس بابت حضرت ِعالی کا نظریہ کیا ہے؟
جواب:  مومن اور با ہدف انسان کی محبت و نفرت، دوستی و دشمنی خدا اور رضاۓ خدا کے لۓ ہے۔ ہمیں یہ جاننا چاہۓ کہ پروردگار ِعالم ہم سے چاہتا ہے کہ ہم ماں‘ باپ‘ بھائ‘ بہن ‘گھر والوں بلکہ تمام مسلمانوں سے محبت کریں۔ البتہ یہ محبت خدا سے عشق، اس پر ایمان اور ہدف کی اساس پر ہونی چاہۓ۔ 
اپنی حیثیت کا دفاع
سوال : اگر لوگ کسی انسان کی جانب باطل اور غلط امورمنسوب کریں اور وہ انسان خود کو ان سے بری ظاہر کرنا چاہے لیکن حقیقت کے بیان کی صورت میں بعض مومنین کی توہین ہوتی ہو تو کیا اس صورت میں حقیقت کہنا اور اپنے آپ کو بری ظاہرکرنا واجب ہے؟
جواب :  جب بھی کسی کی طرف ناحق نسبت دی جاۓ تو اس پر لاز م ہے کہ اپنا دفاع کرے اور اس تہمت کو رفع کرے ۔یہ ایک فطری اور انسانی حق ہے ۔ یہی نہیں بلکہ ہر شخص کا دینی حق ہے کہ اپنی عزت و آبرو کا دفاع کرے اور مومنین کی حرمت کی حفاظت میں ہوشیار ی سے کام لے۔ انہیں بے آبرو کرنے کے لۓ ان کے منفی نکات کا تذکرہ نہ کرے بلکہ ان کی خیر خواہی اور مثبت تنقید میں کوشاں رہے۔
گمراہ دوست
سوال :  میرا ایک دوست گمراہ ہو گیا ہے اور گمراہی کے راستے پر گامزن ہے۔ مجھے نہیں معلوم اس کے ساتھ کیسے پیش آئوں جب کہ مجھے معلوم ہے کہ وہ مجھے چاہتا ہے اور میرے لۓ خاص احترام کا قائل ہے ۔( براۓ مہربانی رہنمائ فرمایۓ)
جواب : وہ آپ کا جو احترام کرتا ہے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کیجۓ‘ نیز اس کی گمراہی کی جڑ تلاش کیجۓ اور بالکل اسی طرح اس کا علاج کیجۓ جیسے ڈاکٹر مریض کا علاج کرتا ہے  اور اگر خود نہیں کرسکتے تو اس سلسلے میں دوسروں سے مدد لینے کی کوشش کیجۓ۔
ایسے افراد کی ہم نشینی جو دل کو مردہ کر دیتے ہیں
 سوال : کتاب اصولِ کافی کی جلد ٢، ص ٦٠٦ پر آیا ہے کہ :ثَلاَثَۃ مُجَالَسَتَہُم تُمِیتُ القَلبَ اَلجُلُوسُ مَعَ الا نذَالِ وَالحَدِیثُ مَعَ النِّسَائِ وَالجُلُوسُ مَعَ الاغنِیَاءِ( تین گروہوں کے ساتھ نشست و برخاست قلب کو مردہ کر دیتی ہے۔ پست فطرت‘ گندے اور اوباش افراد سے میل جول‘ عورتوں سے گفتگو اور دولت مندوں کی ہم نشینی) تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اوباشوں اور دولت مندوں سے میل ملاپ اور عورتوں سے گفتگو سراسر برائ اور دل کے مردہ ہونے کا باعث ہیں؟
جواب : یہ اس بنا پر ہے کہ اکثر اوقات ان تینوں گروہوں کے ساتھ نشست و برخاست میںایسی گفتگو ہوتی ہے جو (ہوس) غرائز اور شہوات میں تحریک کا باعث ہے۔اس کی مزید وضاحت ذیل میں ملاحظہ فرمائں : دولت مندوں کے ساتھ نشست و برخاست میں عام طور پر مال و دولت کے موضوع پر گفتگو رہتی ہے۔ اس طرح یہ ہم نشینی انسان میں دنیا کی رغبت پیدا کرتی ہے اور انسان دوسروں کے پاس جن چیزوں کو دیکھتا ہے ان کی ضرورت محسوس کرنے لگتا ہے اور آرزو کرتا ہے کہ وہ بھی ان کی برابری کرے۔ جب کہ بعض اوقات اس آرزو کا پورا ہونا ممکن نہیںہے یا ممکن ہے وہ قضا وقدرِ الٰہی اور اسکی طرف سے رزق و روزی کی تقسیم کا منکر ہو جاۓ۔ اور عورتوں سے گفتگو ممکن ہے اس وجہ سے قبیح اور مذموم ہو کہ جنسی تحریک کا باعث ہوتی ہے‘ گندے اور اوباش افراد کی ہم نشینی میں ان کے کرتوتوں کا ذکر ہوتا ہے۔ لہذا ان تینوں گروہوں کے ساتھ نشست و برخاست اور ان کی بزم میں شرکت دل کو مردہ کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو ایسے افراد کے ساتھ نشست و برخاست رکھنی چاہۓ جو اس کے قلب و فکر اور روح کو پروردگارِ عالم سے جوڑ یں اور اسے زندگی میں اس کی ذمے داریوں سے آگاہ کریں۔ مزید یہ کہ وہ نشستیں جو دل کو مردہ اور روح کو آلودہ کر دیتی ہیں ان کے مقابل ایسی نشستیں بھی ہیں جو دل کو زندہ‘ بندگی کی جانب راغب اور مثبت جد و جہد اور و کوشش کے جذبے کو بیدار کرتی ہیں ‘یہ وہ نشستیں ہیں جن میں خدا کا ذکر ہوتا ہے۔
ایک دوست کی درخواست
 سوال : میرا ایک دوست جوامریکا میں رہتا ہے‘ اس نے مجھ سے حرام گانوں کے کیسٹ بھیجنے کی درخواست کی ہے۔ وہ میرا ایک عزیز دوست ہے۔ کیا میں اس کی درخواست پوری کردوں؟
جواب : اتفاقاً کیونکہ وہ آپ کا عزیز دوست ہے اس لۓ آپ اس کے لۓ ایسے کیسٹ نہ بھیجۓ۔ انسان کو چاہۓ کہ جو اپنے لۓ پسند کرے وہی اپنے بھائ کے لۓ بھی پسند کرے اور جس چیز کو اپنے لۓ پسند نہیں کرتا اسے اپنے بھائ کے لۓ بھی پسند نہ کرے۔ لہٰذا اگر آپ چاہتے ہیں کہ پروردگارِ عالم آپ سے راضی ہو اور آپ پر غضبناک و ناراض نہ ہو تو اپنے دوست کے لۓ بھی وہی پسند کیجۓ جو اپنے لۓ پسند کرتے ہیں۔ اس کے لۓ خدا کا عذاب پسند نہ کیجۓ۔ مزید یہ کہ ایسا دوست ‘عزیز دوست نہیں ہے کیونکہ مخلص اور عزیز دوست وہ ہے جو آپ کو حرام عمل اور غضبِ خدا میں گرفتار نہ کرے۔
دوست کی ایذا
سوال : کیا انسان کو حق حاصل ہے کہ اپنے دوست کے ساتھ گفتگو میں ایسے کلمات استعمال کرے جو اس کے رنجیدہ ہونے کا سبب ہو ں‘ اور اس کے دل میں کینہ پیدا کر دیں۔ مثلاً مزاح کے درمیان طنز کرنا؟
جواب : اگر یہ عمل دوست کے لۓ اذیت کا باعث ہوتو جائز نہیں ہے کیونکہ مومن کو ایذا پہنچانا جائز نہیں ۔
ہنسی مذاق والے دوست
سوال : ایک ایسا جوان ہے جو اپنی جوانی کے رات و دن ایسے دوستوں کے ساتھ گزارتا ہے جو سواۓ ہنسی ‘ مذاق کے کچھ اور نہیں کرتے۔ اس نے اپنے وقت کے لۓ کوئی پروگرام تیار نہیں کیا ہے ایک لحظہ بھی فکر نہیں کرتا۔ حضرت ِعالی کی نظر میںایسے جوان کا انجام کیا ہے؟
جواب : ایسا فرد زندگی کے حقیقی مفہوم اور انسانیت کے معنی جانے بغیراپنی زندگی گزار دیتا ہے اسے چاہۓ کہ زندگی کو سنجیدگی سے لے ‘سرسری نگاہ سے نہ دیکھے اور اپنی عمر ذمے داری کے ساتھ بسر کرے ‘ لا ابالی پن میں نہ گزارے ۔حضرت رسول اکرم نے فرمایا ہے:
 لاَتَزُولُ قَدَمُ عَبدٍ یَومَ القِیَامَۃ حَتَّی یُسئَلُ عَن اَربَعٍ عَن عُمرِہِ فِیمَا اَفنَاہُ؟ وَ شَبابِہِ فِیمَا اَبلاَہُ؟ وَ عَن مَالِہِ مِن اینَ کَسَبَہُ وَ فِیمَ اَنفَقَہُ؟ وَ عَن حُبِّنَا اَہلَ البَیتِ ’’قیامت کے دن کسی بھی بندے کو اس وقت تک قدم آگے نہیں بڑھانے دیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے متعلق سوال نہ کر لیں:
١۔ اپنی عمر کو کہاں صرف کیا؟
٢۔ اپنی جوانی کو کیسے بسر کیا؟
٣۔ دولت کہاں سے حاصل کی اور اسے کہاں خرچ کیا؟
٤۔اور اہلِ بیت کی محبت ،کہ اس نے اہلِ بیت  سے کتنی محبت کی؟ ‘‘ لہٰذا انسان سے اس کی زندگی کے ہر ہرلمحے کے متعلق سوال ہوگا کہ کیا اس نے اسے نیکی اور بھلائ کے کاموں میں صرف کیا یا شر اور برائ کے کاموںمیں۔ ہماری عمر ہمارا حقیقی سرمایہ ہے جس کے متعلق پروردگارِ عالم چاہتا ہے کہ ہم اسے اس کے ساتھ تجارت میں استعمال کریں۔پس اگر کوئی اپنا یہ سرمایہ گنوا کر خالی ہاتھ پروردگار عالم کی بارگاہ میں جاۓ بلکہ ممکن ہے اپنے گناہوں کے سنگین بوجھ کے ساتھ رب العزت سے ملاقات کرے‘ تو وہ ایک زیانکارانسان ہے‘ جس نے اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو برباد کیا ہے۔
بدنام افراد سے دوستی
سوال : میں بعض بدنام افراد سے ان کی اصلاح کی غرض سے دوستی کرتا ہوں لیکن اپنے اس عمل کی وجہ سے مجھے لوگوں کی طرف سے مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے متعلق حضرت عالی کیا فرماتے ہیں؟
جواب : اگر بالفرض اس طرح کے افراد کی اصلاح ممکن ہے اور ان کی ہدایت واقعاً اہم ہے تو کوئی مضائقہ اور عیب نہیں ہے۔ کیونکہ جلد ہی ان تعلقات کے مثبت اثرات ظاہر ہوں گے اور لوگ مسئلے کی حقیقت سمجھ جائں گے اور اگر مسئلہ حقیقتاً معمولی ہو اور انسان پر ایسے لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست اور ان کی ہدایت کا فریضہ عائد نہ ہوتا ہو تو انسان پر لازم ہے کہ اس عمل کو چھوڑ دے بالخصوص اس وقت جب کہ یہ عمل اس کی ہتک حرمت تک پہنچ جاۓ۔
جنسِ مخالف سے دوستی
سوال : کیا میں اپنی ہم کلاس لڑکی سے دوستی کرسکتا ہوں اور دوست لڑکوں کی طرح  جیسے وہ تفریح کے لۓ جاتے ہیں‘ آپس میں گفتگو کرتے ہیں‘ ہم بھی ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کر سکتے اور سیر کے لۓ جاسکتے ہیں اور سواۓ ان امور کے کہ جن کو شرع نے حرام کیا ہے حسب خواہش سب کچھ انجام دے سکتے ہیں؟
جواب : عورتوں اور مردوں کے درمیان میل جول حرام نہیں ہے۔ لیکن عورت اور مرد ایک دوسرے کے متعلق جو احساس رکھتے ہیں اس کو سامنے رکھتے ہوۓ اس بات کی ضمانت نہیں کہ اس قسم کی دوستی حدودِ شرع تک محدود رہے گی۔ بلکہ اس قسم کے تعلقات کے کبھی کبھی منفی ‘ برے اور خلاف شرع نتائج نکلتے ہیں‘ بالخصوص اگر یہ دوستی انتہائ قربت اور بے تکلفی تک جا پہنچے ۔ یہ وہی چیز ہے جسے ہم اس مشہور حدیث سے اخذ کرتے ہیں‘ جس میں عورت اور مرد کو تنہائ میں ملنے سے منع کرتے ہوۓ کہا گیا ہے کہ اس ملاقات میں شیطان ان کا تیسرا ساتھی ہوتا ہے۔ لہٰذا مرد و زن کا تنہائ میں ملنا جلنا قابلِ بحث نہیں مگر صرف اس لۓ (اس سے روکا گیا) ہے کہ یہ ارتکاب ِحرام کے داخلی اور خارجی حالات فراہم کر دیتا ہے۔ قدرتی بات ہے کہ میل ملاقات کے ساتھ پروان چڑھنے والی گہری اور بے تکلفانہ دوستی بعض اوقات انہی نتائج کو سامنے لاتی ہے جو تنہائ کے اس میل جول سے نکلتے ہیں جس کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ لیکن اگر مرد و زن دونوں مطمئن ہوں اور یقین رکھتے ہوں کہ حرام میں مبتلا نہیں ہوں گے ‘یا ان میں تحریک پیدا نہ ہوگی اور ان کے درمیان رابطہ بھی شرعی ضوابط کے تحت ہو تو اس صورت میں میل ملاپ میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ارتکاب ِ حرام کا باعث نہ ہوگا۔ مزید یہ کہ صاف ستھرے تعلقات کے قیام اور ایسے تعلقات کے جاری رکھنے کے لۓ شرعی راستے موجود ہیں حتیٰ (شدید محبت و چاہت کی صورت میں بھی) تا کہ بالفرض اگر کوئی مسئلہ پیش آیا تو شرعی ضوابط پر منطبق ہو مثلاً عقد و غیرہ (البتہ جس جگہ عقد پڑھنا جائز ہو) اس صورت میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
تارک الصلوٰۃ کے ساتھ شراکت
 سوال : کیا تارک الصلوٰۃ کے ساتھ شراکت جائز ہے؟
جواب : ہاں‘  (بنیادی طور پر تو)جائز ہے ۔ مگر یہ کہ اس کے ساتھ مشارکت نہی عن المنکر کی حدود کی مخالف ہو۔بالفاظ دیگر اگر نہی عن المنکر کی شرائط موجود نہ ہوں۔ مثلاً اگر شریک ایسا فرد ہے کہ اس پر نہی عن المنکر کا کچھ اثر نہیں ہوتا‘ یا نہی کرنے کی صورت میں بڑا نقصان اٹھانا پڑے۔ لیکن اس کے باوجود اس کے ساتھ شراکت یا اس کے ساتھ معاملہ یا اس کے پاس ملازمت کرنے وغیرہ میں کوئی مصلحت ہو تو اس صورت میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مومنین سے محبت کا کم ہو جانا
سوال : میں ایک پابندِ دین مومن جوان ہوں لیکن جب میرے اور مومن بھائوں کے درمیان کوئی اختلاف پیش آتا ہے تو ان کی محبت میرے دل میں کم ہو جاتی ہے اور ان سے تعلقات صرف سلام کرنے کی حد تک باقی رہ جاتے ہیں۔ میرے لۓ ان سے دوبارہ نزدیک ہونا اور تپاک سے پیش آنا بہت مشکل ہے ۔ بالخصوص اس وقت جب مدِمقابل خطا کار ہو اور اس نے میرے حق میں برائ کی ہو۔ آپ سے استدعا ہے کہ میری راہنمائ فرمایۓ۔
جواب :عزیزم ! آپ کو معلوم ہونا چاہۓ کہ جس طرح دوسرے آپ کی نسبت خطا کے مرتکب ہوتے ہیں اسی طرح آپ بھی دوسروں کی نسبت خطا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لہٰذا دوسروں کے ساتھ اس طرح پیش آئے جس طرح یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپ کے ساتھ پیش آئں ۔ کیا آپ پسند کریں گے کہ آپ جب خطا کے مرتکب ہوں تو وہ بھی آپ کے ساتھ وہی رویہ اختیار کریں جو آپ ان کے ساتھ اختیار کرتے ہیں؟ واضح ہے کہ نہیں‘بلکہ آپ چاہیں گے کہ وہ معاف کردیں اور آپ کی خطا کو درگزر کریں۔ لہٰذا جب دوسرے آپ کی نسبت غلطی کے مرتکب ہوں تو آپ بھی اسی طرح عفو و در گزر سے کام لیں۔
دوسروں کی غلطی برداشت نہیں کر پاتا
سوال :  میں ایک جوان ہوں اور یورپ میں رہتا ہوں‘ میری مشکل یہ ہے کہ جب دوسرے ایک سے زیادہ مرتبہ میری نسبت خطا کا ارتکاب کرتے ہیں تو میں انہیں برداشت نہیں کر پاتا اور ان سے قطع تعلق کر لیتا ہوں۔ خود اس وقت میں نے اپنی بڑی بہن اور بڑے بھائ سے قطع تعلق کیا ہوا ہے۔ میرے لۓ آپ کیا راہنمائ فرماتے ہیں؟
جواب : اگر قانون یہ ہو کہ کسی نے غلطی کی تو دوسرا اسے برداشت نہ کرے اور اس سے قطع تعلق کر لے اوراس کے ساتھ کوئی بھلائ نہ کرے تو پھر پروردگارِ عالم کے سامنے ہم خطاکاروں کا کیا حال ہوگا؟ کیا ہم پسند کریں گے کہ پروردگارِ عالم ہم سے رابطہ منقطع کرلے اور ہم کو اپنی رحمت سے محروم کر دے؟ مزید یہ کہ جب دوسرے آپ کے ساتھ غلطی کرتے ہیں تو آپ ان سے رابطہ منقطع کر لیتے ہیں‘ تو کیا آپ بھی پسند کریں گے کہ جب آپ دوسروںکے ساتھ غلطی کریں تو وہ آپ سے رابطہ ختم کرلیں؟ عَامِلِ النَّاسَ بِمَا تُحِبُّ اَن یُّعَامِلُوکَ بِہِ ’’ لوگوں کے ساتھ ایسے پیش آئو جیسے تم پسند کرتے ہو کہ وہ تمہارے ساتھ پیش آئیں۔‘‘
بلوغ سے پہلے انحراف
 سوال :  میرا ایک دوست ہے‘ اس کی عمر ٣١ /سال سے زیادہ نہیں ہے لیکن ایسے کاموں کا مرتکب ہوتا ہے جس کی پروردگار عالم نے اجازت نہیں دی ہے۔ میں ہمیشہ اسے نصیحت کرتا ہوں۔ میں نے سنا ہے کہ پروردگارِ عالم نابالغ شخص کے اعمال کا محاسبہ نہیں کرتا‘ میں نے جب یہ بات اسے بتائ تو اس نے گناہوں میں اور اضافہ کر دیا ’’اور میری  نصیحتوں پر‘‘ مجھ سے کہتا ہے ہاں‘ زندگی کا ایک دور ہے‘ جس کا مجھے خدا کی بارگاہ میں حساب دینا ہو گا لیکن ابھی میرا وہ دور ِ حیات شروع نہیں ہوا ہے‘ ابھی میں تمہاری باتیں بالکل نہیں سنوں گا کیونکہ پروردگار عالم میری زندگی کے اس حصے کا مجھ سے مواخذہ نہیں کرے گا۔ اس کے متعلق حضرت عالی کا نظریہ کیا ہے؟
جواب : اگر یہ شخص نابالغ ہے۔ یعنی اسے احتلام نہیں ہوا اور مخصوص مقامات پر بال نمودار نہیں ہوۓ تو حدیث ہے کہ : رُفِعَ القَلَمُ عَنِ الصَّبِی حَتیّٰ یَحتَلِم۔( بچہ اس وقت تک مرفوع القلم (بری الذمہ)ہے جب تک اسے احتلام نہ ہونے لگے) البتہ اسے اس طرح کی باتیں نہیں بتانی چاہئں اس لۓ کہ وہ بلوغ سے پہلے جو کچھ انجام دے گا اس کے عذاب کے بارے میں تو اسے کوئی مشکل نہیں ہو گی اور وہ اس سے محفوظ رہے گا لیکن جن حرام کاموں کو انجام دیگا ان کی تاثیر اس کی شخصیت اور روح پر رہ جاۓ گی اور بلوغ کے بعد تک باقی رہے گی۔بلکہ ممکن ہے اس کی جڑیں مضبوط ہو جائں اور اس کی عادت بن جابں۔ دوسری طرف یہ کہ بہت سے گناہ انسان کی روح و جسم اور اس کی شخصیت کے لۓ مضر ہیں اور انسان کی شخصیت اور روح پراپنے وضعی اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔
قیافہ شناسی
سوال : میں لوگوں کے چہرے دیکھ کر ان کے اچھے یا برے ہونے کا تعین کر لیتا ہوں۔ برے لوگوں کے چہرے پر نگاہ پڑتے ہی میرا دل ان کی طرف سے بجھ جاتا ہے اور ان کے بارے میں برا خیال پیدا ہوتا ہے۔ اس کے متعلق حضرت عالی کیا نصیحت فرماتے ہیں؟
جواب: پروردگار عالم کا یہ کلام پڑھۓ جس میں وہ فرماتا ہے: یَا ایُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا اجتَنِبُوا کَثِیراً مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعضَ الظَّنِّ اِثمٌ ’’اے ایمان لانے والو اکثر گمانوں سے پرہیز کرو اس لۓ کہ بعض گمان گناہ ہیں۔‘‘ (سورئہ حجرات ۴۹  آیت ۱۲) آپ کو چاہۓ کہ خود اپنے آپ سے سوال کریں کہ آپ کے پاس برے افراد کے تعین کا معیار کیا ہے؟ آپ اپنے آپ سے سوال کیجۓ کہ وہ عمل جس کی وجہ سے آپ کے دل میں اس کی طرف سے بدگمانی پیدا ہوئی ہے کیا آپ نے اسے اس کا مرتکب ہوتے ہوۓ دیکھا ہے؟ کیا آپ پیشِ نظر شخص کو پوری طرح اور واقعاً پہچانتے ہیں؟ ہاں صرف کسی کا چہرہ دیکھ کر اسکے بارے میں دل کے اندر برا احساس اور نفرت پیدا ہو جانا اس کے اچھے یا برے ہونے کے لۓ دلیل نہیں بن سکتی۔ 


اس سے پرہیز جس کے متعلق دل میں نفرت ہو
سوال : حدیث میں آیا ہے کہ :  اِتَّقُوا مَن تُبغِضُہُ قُلُوبُکُم  (جس کی نسبت تمہارے دل میں احساسِ نفرت ہو اس سے پرہیز کرو )کیا یہ حدیث ان احادیث کے ساتھ ٹکرائو نہیں رکھتی جن میں مومن کی نسبت محبت و دوستی کی ترغیب دی گئ ہے؟
جواب : مجھے نہیں معلوم کہ اس طرح کی احادیث کس حد تک صحیح ہیں۔ جب انسان کسی مومن کے بارے میں فیصلہ کرنا چاہے تو اس کے ظاہر کو معیار بنانا چاہۓ (اس کے اعمال کو دیکھے اور فیصلہ کرے نہ کہ اس کے باطن کو کیونکہ اس کی نیت اور اس کے باطن سے سواۓ خدا کے کوئی دوسرا آگاہ نہیں ہے)۔ لیکن اگر اس حدیث کی سند صحیح ہوتو اس کے معنی یہ نہیں ہوں گے کہ جس سے بھی آپ کا دل متنفر ہو اس سے دوری اختیار کرلیں اور اسے رد کر یں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس سے ہوشیار رہیں اور پرہیز کریںیا احتیاط کریں۔یعنی جب اس سے روبرو ہو ںاور آپ کادل اسے قبول نہ کرے تو اس کو مومن کی ہوشیاری سمجھیں۔ پس ’’اس سے پرہیز کرو‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ اس کے بارے میںاچھی طرح تحقیق کرو اور اسے پہچانو اور اس کے لۓ تمہارے اندر جو منفی موقف پیدا ہوا ہے اسکے بارے میں تحقیق کرو کہ یہ بدگمانی تمہاری نفسانی کیفیت ہے یا وہ شخص واقعاً غلط کردار کا مالک ہے جو اس کے ظاہر کے ساتھ نہیں ملتا، یا؟ پس احتیاط کرنے اور اسے خود سے دور کرنے کے درمیان فرق ہے۔ مثلاً یہ قول:  اِتَّقِ شَرَّ مَن اَحسَنتَ اِلَیہِ (جس کے ساتھ بھلائ کرو اس کے شر سے بچو۔) ممکن ہے بعض اس جملے کے معنی یہ کریں کہ انسان کو کسی کے ساتھ نیکی نہیںکرنا چاہۓ ‘اس لۓ کہ جس کے ساتھ بھی نیکی کریں گے اس کے شر کی بازگشت ہماری طرف ہوگی۔ جب کہ اس قول کے معنی یہ ہیں کہ اپنے آپ کو بطورِ کامل کسی کے سپرد اس بنا پر نہیں کر دینا چاہۓ کہ اس کے ساتھ آپ نے نیکی کی ہے اور یہ نہیں کہنا چاہۓ کہ میں نے فلاں کے ساتھ نیکی کی ہے لہٰذا یقین نہیں کرسکتا کہ وہ میرے ساتھ برائ کرے گا۔ کیونکہ ممکن ہے بعض لوگ احسان اور نیکی  کے عوض (شکریہ ادا کرنے کی بجاۓ) دل میں کینہ رکھیں اور اپنے کینے کی تسکین اور آسودگی کی خاطر نیکی کا جواب برائ سے دیں۔’’وَ طَالِماً اِستَعبَدَ الاِحسَانُ اِنسَاناً‘‘ ’’کیونکہ احسان اور نیکی انسانوں کو بندگی اور طاعت کے لۓ آمادہ کر دیتی ہے۔‘‘ مراد یہ ہے کہ :فَاتَّقِ شَرَّہُ، (اس کے شر سے محتاط رہو)کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات بھی آپ کے پیشِ نظر رہے کہ ممکن ہے جس کے ساتھ آپ نے نیکی کی ہے وہ آپ کے ساتھ برائ کرے ۔لہٰذا اس کے ساتھ احتیاط کے ساتھ پیش آئں اور خود کو پوری طرح اس کے سپرد نہ کر دیں۔
دوستوں کے درمیان اعتماد کا بحران
سوال: میں ایک جوان ہوں اور اپنے دوستوں کے درمیان اعتماد کے بحران سے دوچار ہوں۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر میرے سامنے واضح ہے کہ میرے بعض دوست برائوں میں مبتلا ہیں اور بعض عمل میں میرے ساتھ اتفاق نہیں رکھتے۔ لہٰذا ایسے دوستوں کے مقابل میرا  فریضہ کیا ہے؟
جواب:  سابقہ برے تجربات کے معنی یہ نہیں ہیں کہ تا ہنوز جن تجربات کا ابھی آپ نے سامنا نہیں کیا ہے‘ ان کے نتائج کو پچھلے تجربات کے مماثل قرار دیں۔ کیونکہ ممکن ہے آپ کااب تک جن دوستوں سے سابقہ رہا ہے ان میں وہ خصوصیات نہیں پائ جاتی ہوں جو ان میں وفاداری اور جوانمردی پیدا کریں لیکن شاید ان میں سے بہت سے دوست اچھے ہوں جن سے آپ آشنا نہ ہوں۔ آپ یکے بعد دیگرے تجربات جاری رکھیں لیکن گزشتہ تجربے سے سبق حاصل کرتے ہوۓ‘ اور اس سبق سے نۓ تجربے میں استفادہ کرتے ہوۓ۔ یہ تو تھا ایک نکتہ۔ اوردوسرا نکتہ یہ ہے کہ ممکن ہے مشکل خود آپ کی طرف سے ہو آپ کے دوستوں کی طرف سے نہ ہو ‘ آپ خود کوکیوں معصوم اور بے گناہ خیال کرتے ہیں اور دوستوں کو خطاکار؟ممکن ہے آپ کے دوست بھی آپ کی طرف وہی نسبت دیں جو آپ ان کی طرف دے رہے ہیں اور ممکن ہے وہ کہیں کہ فلاں نے ہمارے ساتھ وفا نہیں کی بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو ان کے متعلق غلط فہمی ہوئی ہو ‘ یا ممکن ہے آپ ان سے ایسی چیزوں کی توقع رکھتے ہوں جن کی خود اپنے آپ سے توقع نہیں رکھتے۔ لہٰذا آپ کو اپنے ان تجربات کی بنیاد پر دوسروں کے متعلق فیصلہ نہیں کرنا چاہۓ بلکہ انہیں سمجھنے کی کوشش کیجۓ۔ رہا یہ سوال کہ وہ کیوں آپ سے موافقت نہیں رکھتے تو شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ آپ نے ان کے سامنے جو کچھ پیش کیا ہو وہ اس میں آپ کے ہمفکر و ہم خیال نہ ہوں۔ 
دوست کے ساتھ متفق ہونا
سوال : کیا ضروری ہے کہ ایک دوست دوسرے دوست کے ساتھ تمام معاملات میں اتفاق کرے؟
جواب : یہ کس نے کہا؟ کیا ہمارے کچھ دوست ایسے نہیں ہیں جنہیں ہم پسند کرتے ہیں اور وہ بھی ہمیں پسند کرتے ہیں لیکن بعض حالات میں وہ ہم سے اختلاف رکھتے ہیں۔بقول شاعر۔ ’’اِختِلاَفُ الرَّایِ لَایُفسِہُ لِلوُدِّ قَضِیَّۃ: ‘ ’’ اختلافِ راۓ کو دوستی کے اندر مخل نہیں ہونا چاہۓ۔‘‘
دوست کے ساتھ ویساہی سلوک کریں
سوال : اس حدیث کا مطلب کیا ہے؟َ لاَخَیرَ لَکَ فِی صُحبَۃٍ مَن لاَیَرَی لَکَ مِثلَ الَّذِی یَرَی لِنَفسِہِ (ایسے شخص کی ہم نشینی سے تمہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا جو جس چیز کو اپنے لۓ پسند کرتا ہے اسے دوسروں کے لۓ پسند نہیں کرتا۔ بحارالانوار  ج ۳۲ ص ۱۹۸)
جواب :  در حقیقت دوستی کو اسی اصول پر استوار ہونا چاہۓ کہ جس چیز کو اپنے لۓ پسند کرتے ہیں وہی اپنے دوست کے لۓ بھی پسند کریں:  عَامِلِ النَّاسَ بِمَا تُحِبُّ اَن یُّعَامِلُوکَ بِہ (لوگوں کے ساتھ ویسے ہی پیش آیۓ جیسے آپ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ پیش آئں)۔ اگر آپ کا دوست خود اپنے لۓ کوئی چیز پسند کرے اور آپ کے لۓ پسند نہ کرے یا آپ کے مقابل خود کو حقدار سمجھے لیکن اپنے اوپر آپ کا کوئی حق عائد نہ سمجھے تو یہ دوستی یک طرفہ دوستی ہے۔ جب کہ دوستی کو دوطرفہ ہونا چاہۓ۔ یعنی اگر آپ اس کے لۓ نیکی اور بھلائ چاہتے ہیں تو اسے بھی اسی طرح آپ کاخیر خواہ ہونا چاہۓ۔اگر آپ اس کے لۓ خیر خواہ ہوں اور وہ آپ کے حق میں بھلائ نہ چاہے تو یہ دوستی نہیں بلکہ استثمار ہے،ہاں اگر آپ فدا کاری اور ایثار کرنا چاہتے ہیں تو اس کا تعلق خود آپ سے ہے لیکن اس کو دوستی نہیں کہا جاتا۔
بے نمازی کو سلام
سوال : رسول خدا سے ایک حدیث ہے جس میں آپ  فرماتے ہیں:  لاَتُسَلِّمُوا عَلَی تَارِکِ الصَّلوٰۃِ  (بے نمازی کو سلام نہ کرو)۔ اس حدیث پر عمل کیسے ممکن ہے ؟یا پھر اس پر عمل کے لۓ کچھ خاص شرائط ضروری ہیں کہ اگر یہ شرائط فراہم ہوں  تو اس حدیث پر عمل کر سکتے ہیں؟
جواب : اس حدیث سے مراد بے نمازی سے اس کے اس گناہ کی وجہ سے دوری اور قطع تعلق کا اعلان ہے۔ کیونکہ سلام کرنا صلح و محبت کی علامت ہے اور جس کو سلام کر رہے ہیں اس کے حق میں دعا ہے ۔ نہی عن المنکر کے عنوان سے ہم پر لازم ہے کہ مسلمان بے نمازی کے اس عمل کو برا سمجھیں اور اس سے رابطہ منقطع کرلیں، لیکن اگر بعض دوسری مصلحتیں ہوں  یا اسے سلام کرنا اس کے ہماری طرف کھنچ آنے کا باعث ہو گا جس سے ہم محبت اور اسکا دل تسخیر کرنے کے لۓ استفادہ کر سکیں اور اسے اس کی ہدایت کے لۓ استعمال کریں تو ایسے مواقع پر مسئلہ بر عکس ہوگا۔
مسلم جوانوں کے نام پیغام
سوال : اجتماعی اور عقیدتی میدانوں‘ بلکہ زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں حضرت ِعالی کا جوانوں کے نام کیا پیغام ہے؟
جواب : سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ مسلم نوجوانوں کو اسلام کا سچا معتقد اور مومن ہونا چاہۓ اور دل میں دین کا درد رکھنا چاہۓ۔
 انہیں معلوم ہونا چاہۓ کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے‘ عمیق اور ظرافتوں کا مالک دین ہے اور اس کے اندر تمام انسانوں کی اجتماعی‘ سیاسی‘ تربیتی‘ معاشی‘ ثقافتی‘ عسکری‘ معنوی‘ مادی‘ جسمانی اور روحانی ضروریات کا سامان موجود ہے۔ مسلمان کو ہوشیار رہنا چاہۓ اور عالمی صورت ِحال کو خوب سمجھنا چاہۓ فرض کرنا چاہۓ کہ اگر پیغمبر اسلام اس وقت ہوتے یا جس رسالت کے پیغمبراسلام  حامل تھے ‘ وہ بھی اسے محسوس کرتا ہے تو اس وقت موجودہ عالمی صورت ِحال کے پیش نظر اسے کیا کرنا چاہۓ ؟ ہم پر لازم ہے کہ سوچیں کہ لوگوں کو حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعے اسلام کی طرف کس طرح دعوت دی جاسکتی ہے؟ ہم پر لازم ہے کہ اسلام و مسلمین کو اہمیت دیں اور مسلمانوں کی فکر میں رہیں :  مَن لَم یَہتَمَّ بِاُمُورِ المُسلِمِینَ فَلَیسَ بِمُسلِمٍ (جو بھی مسلمانوں کے امور کو اہمیت نہ دے مسلمان نہیں ہے ۔) ہم پر لازم ہے کہ وسیع افق کے مالک ہوں اور دنیا کی نسبت جامع فکر رکھیں۔ اس وقت جب کہ دشمن کی کوشش یہ ہے کہ اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے ہمیں چاہۓ کہ چھوٹے اور ناقابلِ توجہ اختلافات کو ہوا نہ دیں۔ اس طرح ہم ہرگزیہ کہنا نہیںچاہتے کہ جو مسائل شیعوں اور اہل تسنن کے درمیان ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں‘ یا چھوٹے ہیں اور یہ بھی نہیں کہنا چاہتا کہ جو مسائل خود شیعوں کے اندر ہیں چھوٹے اور کم اہمیت ہیں بلکہ ہماری مراد یہ ہے کہ دشمن دروازے پر کھڑا ہے ‘ ہماری گھات میں ہے اور ہم پر مسلسل نظر رکھے ہوۓ ہے۔ لہٰذا صحیح نہیں ہے کہ ہم چھوٹے اور جزوی اختلاف کو اچھالیں ۔ ہمیں اسلام اور مسلمین کی مصلحت کو مدِ نظر رکھنا چاہۓ‘ ہم بہت زیادہ تجربات کے بعد اس منزل پر پہنچے ہیں کہ ہم بہت پسماندہ ہیںاور ایک چھوٹا سا مسئلہ بھی ہمارے لۓ بڑی مشکل کھڑی کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ ہم عالمی استکبار، مستکبرین اور عالمی لٹیروں کو بھول جاتے ہیں اور بہت سی چھوٹی مشکلیں خطرناک اور کمر شکن مشکلات میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور یوں نظر آتا ہے کہ گویا ہماری کوئی مشکل ہی نہیں سواۓ جزوی مشکلات کے حل کے یا سواۓ ان چھوٹے اور جزوی دردوں کے علاج کے کوئی اور درد ہی ہمیں لاحق نہیں ہے۔
 وَالسَّلاَمُ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الہُدَیٰ
۱۵/جمادی الثانی ۱۴۲۲ ھ
 
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
عرضِ ناشر
 اسلام دین فطرت ہے‘ اس دین حنیف میں انسان کی تمام فطری ضروریات کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔ معاشرتی اور سماجی زندگی کی جانب رجحان بھی انسان کی فطری خواہشات میں سے ہے۔ معاشرتی زندگی کے استحکام ‘ سلامتی اور شیرازہ بندی کا ایک اہم عامل اس میں زندگی بسر کرنے والے لوگوں کے آپسی تعلقات ‘ ایک دوسرے سے برتائو اور باہمی طرزِ عمل ہے۔ انہی سماجی اور معاشرتی روابط اور تعلقات میں سے ایک ’’دوستی‘‘ کا ناطہ بھی ہے ‘جو انسان کی پوری زندگی پر گہری چھاپ چھوڑتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں اس مسئلے کے بارے میں بھی واضح ہدایات اور رہنمایاں فراہم کی گئ ہیں۔ ابتداۓ شباب میں انسان ایک حد تک آزاد اور خود مختار زندگی کا آغاز کرتا ہے اور گھر ‘ محلے اور مدرسے سے باہر اپنے لۓ دوستوں کا انتخاب کرتا ہے ۔ لہذا اسے دوستی اور دوست کے انتخاب کے بارے میں رہنمائ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ زیرِ نظر کتاب میں آیت اﷲ سید محمد حسین فضل اﷲ نے اسی موضوع کا احاطہ کیا ہے اور اس بارے میں قرآنِ کریم اور سنت معصومین  (جو ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں) میں موجودگرانقدر نکات ‘ ہدایات اور فرامین کی روشنی میں گفتگو فرمائ ہے۔ آیت اﷲ سید محمد حسین فضل اﷲ کا شمار ہمارے دور کے ان ممتاز علما میں ہوتا ہے جنہوں نے عالم انسانیت کو اسلام سے روشناس کرانے ‘ مذہب ِاہلِ بیت کی ترویج و اشاعت ‘ قرآنی تعلیمات کی اساس پر مسلم نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور اسلامی معاشروں کی ہدایت و رہنمائی کو اپنی زندگی کا مشن بنایا ہوا ہے۔ آپ کی فکر اور جدو جہد کا مرکزی نکتہ جدید ذہن کے سامنے اسلام کو زندہ ‘ متحرک اور زندگی کے تمام تقاضوں کا جواب دینے والے دین کے طور پر پیش کرنا ہے تاکہ نسلِ نو مسائلِ حیات کے حل کے لۓ اس دین کے سوا کسی اور مکتب اور نظریہ حیات کا رخ نہ کرے ۔ زیر نظر کتاب میں بھی جناب کا یہی جذبہ موجزن نظر آتا ہے۔امید ہے جوانانِ عزیز کتاب کے مطالعے سے مستفیذ ہوں گے ‘ ہمیں ان کی آراء اور تبصروں کا انتظار رہے گا ۔ والسلام 

No comments:

Post a Comment