Saturday 26 February 2011

muhabt ahle bait

محبت اہلبیت (ع)
فضائل محبت اہلبیت (ع)


1۔ اسا س الاسلام
922۔رسول اکرم ! اسلام کی اساس میری اور میرے اہلبیت(ع) کی محبت ہے۔( کنز العمال 12 ص 105 / 34206، درمنثور ، ص 350)۔
923۔ رسول اکرم ! ہر شے کی ایک بنیاد ہے اور اسلام کی بنیاد ہم اہلبیت (ع) کی محبت ہے۔( محاسن 1 ص 247 / 461 روایت مدرک بن عبدالرحمن)۔
924۔ امام علی (ع)! رسول اکرم نے مجھ سے خطاب کرکے فرمایا کہ اسلام سادہ ہے اور اس کا لباس تقویٰ ہے اور اس کے بال و پر ہدایت ہیں اور اس کی زینت حیاء ہے اور اس کا ستون ورع ہے اور اس کا معیار عمل صالح ہے اور اس کی بنیاد میری اور میرے اہلبیت (ع) کی محبت ہے۔( کنز العمال 13 ص 645 / 37631)۔
925۔ امام باقر (ع) ! رسول اکرم حجة الوداع کے مناسک ادا کرچکے تو سواری پر بلند ہوکر ارشاد فرمایا کہ جنت میں غیر مسلم کا داخلہ ناممکن ہے!
ابوذر (ر) نے عرض کی حضور پھر اسلام کی بھی وضاحت فرمادیں ؟ فرمایا کہ اسلام ایک جسم عریان ہے جس کا لباس تقویٰ، زینت حیاء معیار ورع، جمال دین، ثمرہ عمل صالح اور ہر شے کی ایک اساس ہے، اور اسلام کی اساس ہم اہلبیت (ع) کی محبت ہے۔( امالی طوسی (ر) 84 ص 126 روایت جابر بن یزید، کافی 2 ص 46 / 2 ، امالی صدوق (ر) ص 221 /16 ، محاسن ! ص 445 / 1031 ، شرح الاخبار 3 ص 8 / 927 ، الفقیہ 4 ص 364 /5762 روایت حماد بن عمرو انس بن محمد، تحف العقول ص 52)۔
926۔ رسول اکرم ! آیت مودت کے نزول بعد جبریل (ع) نے کہا کہ اے محمد ! ہر دین کی ایک اصل اور اس کا ایک ستون اور ایک شاخ اور ایک عمارت ہوتی ہے اور اسلام کی اصل اور اس کا ستون لاالہ الا اللہ ہے اور اس کی فرع ا ور تعمیر آپ اہلبیت (ع) کی محبت ہے جس میں حق کی ہم آہنگی اور دعوت پائی جاتی ہے۔( تفسیر فرات کوفی 397 / 528 روایت علی بن الحسین بن سمط)۔
927۔ امام باقر (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کی محبت ہی دین کا نظام ہے۔( امالی طوسی (ر) 296 / 582 روایت جابر بن یزید الجعفی)۔

2۔ محبت اہلبیت (ع) محبت خدا ہے
928۔ امام علی (ع) ! میں نے رسول اکرم کی زبان مبارک سے سناہے کہ میں اولاد آد م کا سردار ہوں اور یا علی (ع) تم اور تمھاری اولاد کے ائمہ میری امت کے سردارہیں جس نے ہم سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے ہم سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی ، جو ہمارا چاہنے والا ہے وہ اللہ کا چاہنے والا ہے اور جو ہم سے عداوت کرنے والا ہے ، وہ اللہ سے عداوت رکھنے والاہے ، ہمارا مطیع اللہ کا اطاعت گذار ہے اور ہمارا نافرمان اللہ کا نافرمان ہے۔( امالی صدوق (ر) 384 / 16 ، بشارة المصطفیٰ ص 151 روایت اصبغ بن نباتہ)۔
929۔ امام صادق (ع) ! جو ہمارے حق کو پہچانے اور ہم اہلبیت (ع) سے محبت کرے وہ پروردگار سے محبت کرنے والا ہے۔( کافی 8 ص 129 / 98 روایت حفص بن غیاث ، تنبیہ الخواطر 2 ص 137)۔
930۔ امام ہادی (ع) ، زیارت جامعہ ، جس نے آپ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے آپ حضرات سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی ، آپ کا موالی اللہ کا چاہنے والا ہے اور آپ سے بغض رکھنے والا اللہ سے بغض رکھنے والا ہے۔( تہذیب 6 ص 97 / 177)۔

3۔ محبت اہلبیت (ع) محبت رسول اکرم ہے۔
931۔ رسول اکرم ! اللہ سے محبت کرو کہ تمھیں اپنی نعمتوں سے فیضیاب فرمایاہے، اس کے بعد اس کی محبت کی بناپر ہم سے محبت کرو اور ہماری محبت کی بناپر ہمارے اہلبیت (ع) سے محبت کرو ۔( سنن ترمذی 5 ص 622 / 3789 ، تاریخ بغداد 4 ص 160 ، مستدرک حاکم 3 ص 162 / 16 47 ، المعجم الکبیر 3 ص 46 / 2639 ، 10 ص 281 /10664 ، شعب الایمان 1 ص 366 / 408 ، 2 ص 130 / 1378 ، اسد الغابہ 2 ص 18 ، امالی صدوق (ر) ص 298 / 6 ، علل الشرائع 139 / 1 ، بشارة المصطفیٰ ص 61 ، 237 روایت ابن عباس ، امالی طوسی (ر) ص 278 / 531 روایت عیسی ٰ بن احمد بن عیسی ٰ ، صواعق محرقہ ص 230)۔
932۔ زید بن ارقم ! میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا جب فاطمہ (ع) ایک ادنی چادر اوڑھے ہوئے اپنے گھر سے حضور کے حجرہ کی طرف جارہی تھیں اور ان کے ساتھ دونوں فرزند حسن (ع) و حسین (ع) تھے اور پیچھے پیچھے علی (ع)بن ابی طالب (ع) چل رہے تھے کہ آپ نے ان سب کو دیکھ کر فرمایا کہ جس نے ان سب سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ، اور جس نے ان سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی ۔ ( تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ص 91 / 126 )۔
933۔ اما م باقر (ع) ! خدا سے محبت کرو اور اس کی وجہ سے رسول خدا سے محبت کرو اور ان کی وجہ سے ہم سے محبت کرو ۔( مناقب امیر المومنین (ع) الکوفی 2 ص 160 / 637 روایت عبیداللہ بن عمر بن علی (ع) ابی طالب (ع) )۔

4۔ محبت اہلبیت تحفہ الہی ہے
934۔ رسول اکرم ! پروردگار نے اسلام کو خلق کرنے کے بعد اس کا ایک میدان قرار دیا اور ایک نور۔ ایک قلعہ بنایا اور ایک مددگار، اس کا میدان قرآن مجیدہے اور نور حکمت، قلعہ نیکی ہے اور انصار ہم اور ہمارے اہلبیت (ع) اور شیعہ، لہذا ہمارے اہلبیت (ع) ، ان کے شیعہ اور ان کے اعوان و انصار سے محبت کرو کہ مجھے معراج کی رات جب آسمان پر لے جایا گیا تو جبریل (ع) نے آسمان والوں سے میرا تعارف کرایا اور پروردگار نے میری محبت، میرے اہلبیت(ع) اور شیعوں کی محبت ملائکہ کے دل میں رکھ دی جو قیامت تک امانت رہے گی ، اس کے بعد مجھے واپس لاکر زمین والوں میں متعارف کرایا کہ میری اور میرے اہلبیت (ع) اور ان کے شیعوں کی محبت میری امت کے مومنین کے دلوں میں امانت پروردگار ہے جس کی تا قیامت حفاظت کرتے رہیں گے۔ ( کافی 2 ص 46 / 3 ، بشارة المصطفیٰ ص 157 روایت عبدالعظیم بن عبداللہ الحسنئ عن الجواد (ع))۔
935۔ امام باقر (ع) میں جانتاہوں کہ تم لوگ جو ہم سے محبت کررہے ہو یہ تمھارا کارنامہ نہیں ہے، پروردگار نے ہماری محبت تمھارے دلوں میں پیدا کی ہے۔(محاسن) ص 246 / 457 روایت ابوبصیر۔
936۔امام صادق (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کی محبت کو پروردگار اپنے عرش کے خزانوں سے اس طرح نازل کرتاہے جس طرح سونے چاندی کے خزانے نازل ہوتے ہیں ، اور اس کا نزول بھی ایک مخصوص مقدار میں ہوتاہے اور مالک اسے صرف مخصوص افراد کو عنایت کرتاہے، محبت کا ایک مخصوص ابرکرم ہے جب پروردگار کسی بندہ سے محبت کرتاہے تو اس پر اس ابرکرم کو برسادیتاہے اور اس سے شکم مادر میں بچہ بھی فیضیاب ہوجاتاہے۔( تحف العقول ص 313 روایت جعفر محمد بن النعمان الاحوال)۔

5۔ محبت اہلبیت (ع) افضل عبادت ہے
937۔ رسول اکرم ! آل محمد سے ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے اور اس پر مرنے والا جنت میں داخل ہوجاتاہے۔( الفردوس 2ص 142 / 2721 ، ینابیع المودة 3 ص 191 روایت ابن مسعود)۔
938۔ رسول اکرم ! ابوذر کو وصیت فرماتے ہیں، دیکھو سب سے پہلی عبادت پروردگار معرفت الہی ہے، اس کے بعد مجھ پر ایمان اور اس امر کا اقرار کہ پروردگار نے مجھے تمام لوگوں کے لئے بشیر و نذیر ، داعی الی اللہ اور سراج منیر بناکر ارسال کیاہے، اس کے بعد میرے اہلبیت (ع) کی محبت جن سے خدا نے ہر رجس کو دور رکھاہے اور کمال طہارت کی منزل پر فائز کیاہے۔( امالی طوسی (ر) 526 / 1162 ، مکارم الاخلاق 2 ص 363 / 2661 ، تنبیہ الخواطر 2 ص 51 ) اعلام الدین ص 189)۔
939۔ امام علی (ع) ! تمام نیکیوں میں سب سے بہتر ہماری محبت ہے اور تمام برائیوں میں سب سے بدتر ہماری عداوت ہے۔( غر ر الحکم ص 3363)۔
940۔ امام صادق (ع) ! ہر عبادت سے بالاتر ایک عبادت ہے لیکن ہم اہلبیت (ع) کی محبت تمام عبادات سے افضل و برتر ہے۔( المحاسن 1 ص 247 / 462 روایت حفص الدہان)۔
941۔ فضیل ! میں نے امام رضا (ع) سے عرض کی کہ قرب خدا کے لئے سب سے بہتر فریضہ کون سا ہے؟ فرمایا بہترین وسیلہٴ تقرب خدا کی اطاعت، اس کے رسول کی اطاعت اور اس کے رسول اور اولی الامر کی محبت ہے۔( المحاسن 1 ص 227/ 463، کافی 1 ص 187 / 12 روایت محمد بن الفضیل)۔

6۔ محبت اہلبیت (ع) باقیات صالحات میں ہے
942۔ محمد بن اسماعیل بن عبدالرحمان الجعفی ! میں اور میرے چچا حصین بن عبدالرحمان امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے انھیں قریب بلاکر بٹھایا اور فرمایا کہ یہ کس کے فرزند ہیں ؟ انھوں نے عرض کی کہ میرے بھائی اسماعیل کے فرزند ہیں!۔
فرمایا خدا اسماعیل پر رحمت نازل کرے اور ان کے گناہوں کو معاف فرمائے تم نے انھیں کس عالم میں چھوڑا ہے، انھوں نے عرض کی کہ بہترین حال میں کہ خدا نے ہمیں آپ کی محبت عنایت فرمائی ہے۔
فرمایا حصین ! دیکھو ہم اہلبیت (ع) کی مودت کو معمولی مت سمجھنا یہ باقی رہ جانے والی نیکیوں میں ہے، انھوں نے کہا کہ حضور ہم اسے معمولی نہیں سمجھتے ہیں ۔ بلکہ اس پر شکر خدا کرتے ہیں کہ اس سے فیضیاب فرمایا ۔( اختصاص ص 86 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 215)۔

خصائص محبت اہلبیت (ع)

1۔ علامت ولادتِ صحیح
943۔رسول اکرم ۔ لوگو ! اپنی اولاد کا امتحان محبت علی (ع) کے ذریعہ لو کہ علی (ع) کسی گمراہی کی دعوت نہیں دے سکتے ہیں اور کسی ہدایت سے دور نہیں کرسکتے ہیں جو اولاد ان سے محبت کرے وہ تمھاری ہے ورنہ پھر تمھاری نہیں ہے۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص225 / 730)۔
944۔ امام علی (ع) ! رسول اکرم نے ابوذر سے فرمایا کہ جو ہم اہلبیت (ع) سے محبت رکھتاہے اسے شکر خدا کرنا چاہیئے کہ اس نے پہلی ہی نعمت عنایت فرمادی ہے ابوذر نے عرض کی حضور یہ پہلی نعمت کیا ہے ؟فرمایا حلال زادہ ہونا کہ ہماری محبت حلال زادہ کے علاوہ کسی کے دل میں نہیں ہوسکتی ہے۔( امالی طوسی (ر) ص 455 / 1918 روایت حسین بن زید و عبداللہ بن ابراہیم الجعفری عن الصادق (ع))۔
945۔ رسول اکرم ! یا علی (ع) ! جو مجھ سے تم سے اورتمھاری اولاد کے ائمہ سے محبت کرے اسے حلال زادہ ہونے پر شکر خدا کرنا چاہیئے کہ ہمارا دوست صرف حلال زادہ ہی ہوسکتاہے اور ہمارا دشمن صرف حرام زادہ ہی ہوسکتاہے، ( امالی صدوق ص 384 / 14 ، معانی الاخبار 161 / 3 ، بشارہ المصطفیٰ ص 150 روایت زید بن علی (ع) )۔
946۔ رسول اکرم ! یا علی (ع) ! عرب میں تمھارا کوئی دشمن ناتحقیق کے علاوہ نہیں ہوسکتاہے ۔( مناقب خوارزمی 323 / 330 ، روایت ابن عباس، فرائد السمطین 1 ص 135 / 97 ، خصال 577 /1 ، علل الشرائع 143 / 7 ، مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 267۔
947۔ امام علی (ع)! کوئی کا فر یا حرامزادہ مجھ سے محبت نہیں کرسکتاہے۔( شرح نہج البلاغہ 4 ص 110 ، روایت ابن مریم انصاری ،شرح الاخبار 1 ص 152 / 92 ، مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 208۔
948۔ امام باقر (ع)! جو شخص اپنے دل میں ہماری محبت کی خنکی کا احساس کرے اسے ابتدائی نعمت پر شکر خدا کرنا چاہیئے کسی نے سوال کیا کہ یہ ابتدائی نعمت کیا ہے؟ فرمایا حلال زادہ ہونا ۔( امالی صدوق (ر) 384 / 13 ، علل الشرائع 141 / 2 ، معانی الاخبار 161 / 2 روایت ابومحمد الانصاری)۔
949۔ امام صادق (ع) ! جو شخص اپنے دل میں ہماری محبت کی خنکی کا احساس کرے اسے اپنی ماں کو دعائیں دینا چاہئیں کہ اس نے باپ کے ساتھ خیانت نہیں کی ہے۔( معانی الاخبار 161 / 4 ، بشارة المصطفیٰ ص 9 روایت مفضل بن عمر)۔
950۔ ابن بکیر ! امام صادق (ع) نے فرمایا کہ جو شخص ہم سے محبت کرے اور محل عیب میں نہ ہو اس پر اللہ خصوصیت کے ساتھ مہربان ہے میں نے عرض کی کہ محل عیب سے مراد کیا ہے؟ فرمایا ۔ حرام زادہ ہونا ۔( معانی الاخبار 166 /1)۔
951۔ امام صادق (ع) ! خدا کی قسم عرب و عجم میں ہم سے محبت کرنے والے وہی لوگ ہیں جو اہل شرف اور اصیل گھر والے ہیں اور ہم سے دشمنی کرنے والے وہی لوگ ہیں جن کے نسب میں نجاست، گندگی اور غلط نسبت پائی جاتی ہے۔( کافی 8 ص 316 / 497)۔
952۔عبادة بن الصامت ! ہم اپنی اولاد کا امتحان محبت علی (ع) کے ذریعہ کیا کرتے تھے کہ جب کسی کو دیکھ لیتے تھے کہ وہ علی (ع) سے محبت نہیں کرتاہے تو سمجھ لیتے تھے کہ یہ ہمارا نہیں ہے اور صحیح نکاح کا نتیجہ نہیں ہے۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ص 224 / 727 ، نہایة 1 ص 161 ، لسان العرب 4 ص 87)۔ تاج العروس 6 ص 118 ، مجمع البیان 9 ص 160 ، شرح الاخبار 1 ص 446 / 124 ، رجال کشی 1 ص 241 ، مناقب ابن شہر آشوب 3ص 207۔
953۔ محبوب بن ابی الزناد ! انصار کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں کے حرامزادہ ہونے کو بغض علی (ع) کے ذریعہ پہچان لیا کرتے تھے۔
مولف ! عیسی بن ابی دلف کا بیان ہے کہ ان کا بھائی ولف جس کے نام سے ان کے والد کو ابودلف کہا جاتا تھا، حضرت علی (ع) اور ان کے شیعوں کی برابر برائی کیا کرتا تھا اور انھیں جاہل قرار دیا کرتا تھا، ایک دن اس نے اپنے والد کی بزم میں ان کی عدم موجودگی میں یہ کہنا شروع کردیا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ علی (ع) کی تنقیص کرنے والا حرامزادہ ہوتاہے حالانکہ تم لوگ جانتے ہو کہ میرا باپ کس قدر غیرت دار ہے اور وہ گوارا نہیں کرسکتا کہ اس کی زوجہ کے بارے میں کوئی شخص زبان کھول سکے اور میں برابر علی (ع) سے عداوت کا اعلان کررہاہوں جو اس بات کی علامت ہے کہ یہ بات بے بنیاد ہے۔
اتفاق امر کہ اچانک ابودلف گھر سے نکل آئے، لوگوں نے ان کا احترام کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دلف کا بیان تو سن لیا، اب بتائیے کیا حدیث معروف غلط ہے جبکہ اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، تو ابودلف نے کہا کہ یہ ولد الزنا بھی ہے اور ولد الحیض بھی ہے اور اس کا واقعہ یہ ہے کہ میں بیمار تھا، میری بہن نے اپنی کنیز کو عیادت کے لیے بھیجا، مجھے وہ پسندتھی ، میں نے اپنے نفس کو بے قابو دیکھ کر اس سے تعلقات قائم کرلئے جبکہ وہ ایام حیض میں تھی اور اس طرح وہ حاملہ بھی ہوگئی اور بعد میں اس نے بچہ کو میرے حوالہ کردیا۔ جس کے بعد دلف اپنے باپ کا بھی دشمن ہوگیا کہ اس کا رجحان تشیع اور محبت علی (ع) کی طرف تھا اور باب کے مرنے کے بعد مسلسل اسے بُرا بھلا کہنے لگا۔( مروج الذہب 4 ص 62 ، کشف الیقین 276 / 573)۔

2۔ شرط توحید
954۔ جابر بن عبداللہ انصاری ! ایک اعرابی رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا کہ حضور کیا جنت کی کوئی قیمت ہے؟ فرمایا، بیشک اس نے کہا وہ کیا ہے ؟ فرمایا لا الہ الا اللہ جسے بندہ مومن خلوص دل کے ساتھ زبان پر جاری کرے۔
اس نے کہا کہ خلوص دل کا مطلب کیا ہے؟ فرمایا میرے احکام پر عمل اور میرے اہلبیت (ع) کی محبت ۔
اس نے عرض کیا اہلبیت (ع) کی محبت بھی کلمہ توحید کا کوئی حق ہے؟ فرمایا یہ سب سے عظیم ترین حق ہے۔( امالی طوسی (ر) ص 583 / 1207)۔
955۔ امام علی (ع) ! کلمہ لا الہ الا اللہ کے بہت سے شروط ہیں اور میں اور میری اولاد انھیں شروط میں سے ہیں ۔( غرر الحکم ص 3479)۔
956۔ اسحاق بن راہویہ ! جب امام علی رضا (ع) نیشاپور پہنچے تو لوگوں نے فرمائش کی کہ حضور ہمارے درمیان سے گذر جائیں اور کوئی حدیث بیان نہ فرمائیں یہ کیونکر ممکن ہے۔؟
آپ نے محمل سے سر باہر نکالا اور فرمایا کہ مجھ سے میرے والد بزرگوار موسیٰ بن جعفر (ع) نے فرمایا کہ انھوں نے اپنے والد بزرگوار حضرت جعفر بن محمد(ع) سے اور انھوں نے اپنے والد حضرت محمد بن علی (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد علی (ع) بن الحسین (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد امام حسین (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد حضرت علی (ع) بن ابی طالب (ع) سے اور انھوں نے رسول اکرم سے اور انھوں نے جبریل کی زبان سے یہ ارشاد الہی سنا ہے کہ لا الہ الا اللہ میرا قلعہ ہے اور جو میرے قلعہ میں داخل ہوجائے گا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہوجائیگا۔
یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے اور پھر ایک مرتبہ پکارکر فرمایا لیکن اس کی شرائط ہیں اور انھیں میں سے ایک میں بھی ہوں ۔( التوحید 25/23 ، امالی صدوق (ر) ص 195 /8 عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 135 / 4 ، معانی الاخبار ص 371 /1 ، ثواب الاعمال ص 21 / 1 ، بشارة المصطفیٰ ص 269 ، روضة الواعظین ص 51)۔

3۔ علامت ایمان
957۔ رسول اکرم ! مجھ سے میرے پروردگار نے عہد کیا ہے کہ میرے اہلبیت (ع) کی محبت کے بغیر کسی بندہ کے ایمان کو قبول نہیں کرے گا۔ ( احقاق الحق 9 ص 454 نقل از مناقب مرتضویہ و خلاصة الاخبار)۔
958۔ رسول اکرم ! کوئی انسان صاحب ایمان نہیں ہوسکتاہے جب تک میں اس کے نفس سے زیادہ محبوب نہ ہوں اور میرے اہل اس کے اہل سے زیادہ محبوب نہ ہوں اور میری عترت اس کی عترت سے زادہ محبوب نہ ہو اور میری ذات اس کی ذات سے زیادہ محبوب نہ ہو۔( المعجم الاوسط 6 ص 59 / 5790 ، المعجم الکبیر 7 ص 75 ، 6416 ، الفردوس 5 ص 154 ، 7769، امالی صدوق (ر) ص 274 / 9 ، علل الشرائع ص 140 / 3 ، بشارة المصطفیٰ ص 53 ، روایت عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ روضة الواعظین ص 298)۔
959۔ رسول اکرم ! ایمان ہم اہلبیت (ع) کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتاہے ( کفایة الاثر ص 110 روایت واثلہ بن الاسقع)۔
960۔ امام علی (ع) ! کسی بندہ مومن کا دل ایمان کے ساتھ آزمایا ہوا نہیں ہے مگر یہ کہ وہ اپنے دل میں ہماری محبت کو پاکر ہمیں دوست رکھتاہے اور کسی بندہ سے خدا ناراض نہیں ہوتاہے مگر یہ کہ ہمارے بغض کو اپنے دل میں جگہ دے کر ہم سے دشمنی کرتاہے ، لہذا ہمارا دوست ہمیشہ منتظر رحمت رہتاہے اور گویا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھلے رہتے ہیں اور ہمارا دشمن ہمیشہ جہنم کے کنارہ رہتاہے، خوش بختئ ہے اہل رحمت کے لئے اس رحمت کی بنیاد پر اور ہلاکت و بدبختئہے اہل جہنم کیلئے اس بدترین ٹھکانہ کی بنا پر( امالی طوسی (ر) 43 / 34 ، امالی مفید ص 270 / 2 ، بشارة المصطفیٰ ص 25 ، کشف الغمہ 1 ص 140 روایات حارث اعور)۔
961۔ رسول اکرم ! جس نے علی (ع) سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے خدا سے بغض رکھا اور اے علی (ع) تمھارا دوست مومن کے علاوہ کوئی نہ ہوگا اور تمھارا دشمن کافر او ر منافق کے علاوہ کوئی نہ ہوگا۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 188 / 671 از یعلیٰ بن مرة الثقفی)۔
962۔ امام علی (ع) ! مجھ سے رسول اکرم کا یہ عہد ہے کہ مجھ سے مومن کے علاوہ کوئی محبت نہ کرے گا اور منافق کے علاوہ کوئی دشمنی نہ کرے گا ۔( سنن نسائی 8 ص 117 ، مسند احمد بن حنبل 1 ص 204 / 731 ، فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 564 / 948 ، کنز الفوائد 2 ص 83 ، الغارات 2 ص 520 ، تاریخ بغداد 2 ص 255 / 14 ص 426 روایات زرّ بن جیش 80 ص 417 روایت علی بن ربیعہ الوالبی)۔
963۔ ام سلمہ ! میں نے رسول اکرم کو علی (ع)سے یہ فرماتے سناہے کہ مومن تم سے دشمنی نہیں کرسکتاہے اور منافق تمھارا دوست نہیں ہوسکتاہے۔( مسند احمد بن حنبل 10 ص 176 / 26569 ، سنن ترمذی 5 ص 635 / 3717 ، البدایة والنہایة 7 ص 55 ۔3 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع)2 ص 208 /99 ، محاسن 1 ص 248 / 456 ، اعلام الدین ص 278 ، عوالی اللئلالی 4 ص 85 / 95 ، احتجاج 10 ص 149 ، شرح نہج البلاغہ معتزلی 4 ص 83)۔
964۔ ابوذر ! میں نے رسول اکرم کو حضرت علی (ع) سے فرماتے سناہے کہ اللہ نے مومنین سے تمھاری محبت کا عہد لے لیا ہے اور گویا منافقین سے تمھاری عداوت کا عہد ہوگیاہے ، اگر تم مومن کی ناک بھی کاٹ دو تو تم سے دشمنی نہیں کرے گا اور اگر منافق پر دینا رنچا در کردو تو بھی تم سے محبت نہیں کرے گا یا علی (ع) تم سے محبت نہیں کرے گا مگر مومن اور تم سے عداوت نہیں کرے گا مگر منافق ۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 204 / 695 ، الغارات 2 ص 520 /وایت حبة القرتی)۔
965۔ امام علی (ع) ! اگر میں مومن کی ناک بھی تلوار سے کاٹ دوں کہ مجھ سے عداوت کرے تو نہیں کرے گا اور اگر منافق پر ساری دنیاانڈیل دوں کہ مجھ سے محبت کرلے تونہیں کرے گا اس لئے کہ یہ فیصلہ رسول اکرم کی زبان سے ہوچکاہے کہ یاعلی (ع) ! مومن تم سے دشمنی نہیں کرسکتاہے اور منافق تم سے محبت نہیں کرسکتاہے(نہج البلاغہ حکمت ص 45 ، امالی طوسی (ر) ص 206 / 353 ، روایت سوید بن غفلہ ، روضة الواعظین ص 323 ، کافی 8 ص 268 / 396)۔
966۔ امام باقر (ع) ! ہماری محبت ایمان ہے اور ہماری عداوت کفر ہے۔( کافی 1 ص 188 /12 محاسن 1 ص 247 / 463 روایت محمد بن الفضل ، تفسیر فرات کوفی ص 228 / 566 زیاد بن المنذر )۔
967 ۔ امام باقر (ع) ! اے ابا ابورد اور اے جابر ! تم دونوں قطعیت تک جب بھی کسی مومن کے نفس کی تفتیش کروگے تو علی (ع) بن ابی طالب (ع) کی محبت ہی پاؤگے اور اسی طرح قیامت تک اگر منافق کے نفس کی جانچ کروگے تو امیر المومنین (ع) کی دشمنی ہی پاؤگے، اس لئے کہ پروردگار نے رسول اکرم کی زبان سے یہ فیصلہ سنادیا ہے، کہ یا علی (ع) ! تم سے مومن دشمنی نہیں کرے گا اور کافر یا منافق محبت نہیں کرے گا اور ظلم کا حامل ہمیشہ خائب و خاسر ہی ہوتاہے ، دیکھو ہم سے سمجھ بوجھ کر محبت کرو تا کہ راستہ پاجاؤ اور کامیاب ہوجاؤ ہم اسلامی انداز کی محبت کرو ۔( تفسیر فرات کوفی ص 260 / 355 روایت جابر بن یزید و ابی الورد)۔
968۔امام باقر (ع) ! جو شخص یہ چاہتاہے کہ یہ معلوم کرے کہ وہ اہل جنّت میں سے ہے اسے چاہیئے کہ ہماری محبت کو اپنے دل پر پیش کرے، اگر دل اسے قبول کرلے تو سمجھے کہ مومن ہے۔( کامل الزیارات ص 193 از ابوبکر الخصرمی)۔
969۔ علی بن محمد بن بشر ! میں محمد بن علی (ع) کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک سوار آیا اور اپنے ناقہ کو بٹھاکر آپ کے پاس آیا اور ایک خط دیا ، آپ نے خط پڑھنے کے بعد فرمایا کہ مہلب ہم سے کیا چاہتاہے ؟ خدا کی قسم کہ ہمارے پاس نہ کوئی دنیا ہے اور نہ سلطنت۔
اس نے کہا کہ میری جان آپ پر قربان ، اگر کوئی شخص دنیا و آخرت دونوں چاہتاہے تو وہ آپ اہلبیت(ع) ہی کے پاس ہے۔
آپ نے فرمایا کہ ماشاء اللہ ، یاد رکھو کہ جو ہم سے برائے خدا محبت کرے گا اللہ اسے اس محبت کا فائدہ دے گا اور جو کسی اور کے لئے محبت کرے گا تو خدا جو چاہتاہے فیصلہ کرسکتاہے، ہم اہلبیت (ع) کی محبت ایک ایسی شے ہے جسے پروردگار دلوں پر ثبت کردیتاہے اور جس کے دل پر خدا ثبت کردیتاہے اسے کوئی مٹا نہیں سکتاہے، کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی ہے ” یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے دل میں خدا نے ایمان لکھ دیا اور ان کی اپنی روح سے تائید کردی ہے“ … ہم اہلبیت (ع) کی محبت ایمان کی اصل ہے۔( شواہد التنزیل 2 ص 330 / 971 ، تاویل الآیات الظاہرة ص 650۔

4۔ قیامت کا سب سے پہلا سوال
970۔ رسول اکرم ! قیامت کے دن سب سے پہلے ہم اہلبیت (ع) کی محبت کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 62 / 258 روایت حسن بن عبداللہ بن محمد بن العباس الرازی التمیمی)۔
971۔ ابوبرزہ رسول اکرم سے روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن کسی بندہ کے قدم آگے نہیں بڑھیں گے جب تک چار باتوں کا سوال نہ کرلیا جائے، اپنی عمر کو کہاں صرف کیاہے، اپنے جسم کو کہاں استعمال کیاہے، اپنے مال کو کہاں خرچ کیاہے اور کہاں سے حاصل کیا ہے اور پھر ہم اہلبیت(ع) کی محبت ! ( المعجم الکبیر 11 ص 84 / 11177 ، المعجم الاوسط 9 ص 155 / 9406 ، مناقب ابن المغازلی ص 120 /157 روایات ابن عباس ، فرائد السمطین 2 ص 301 / 557 روایت داؤد بن سلیمان، امالی صدوق (ر) 42 / 9 ، خصال 253 / 125 ، روایت اسحاق بن موسیٰ عن الکاظم (ع) ، تحف العقول ص 56 ، امالی طوسی (ر) ص 593 / 1227 ، تنبیہ الخواطر 2 ص 75 روایت ابوبریدہ الاسلمی ، جامع الاخبار ص 499 / 1384 عن الرضا (ع) ، روضة الواعظین ص 546 ، شرح الاخبار 2 ص 508 / 898 روایت ابوسعید خدری )۔
972۔ ابوہریرہ ! رسول اکرم نے فرمایاہے کہ کسی بندہ کے قدم روز قیامت آگے نہ بڑھیں گے جب تک چار باتوں کا سوال نہ کرلیا جائے ، جسم کو کہاں تھکایا ہے؟ عمر کو کہاں صرف کیا ہے ؟ مال کو کہاں سے حاصل کیا ہے اور کہاں خرچ کیا ہے ؟ اور ہم اہلبیت (ع) کی محبت ۔
کسی نے عرض کیا کہ حضور آپ حضرات کی محبت کی علامت کیا ہے؟ آپ نے علی (ع) نے کاندھے پر رکھ کر فرمایا … یہ … (المعجم الاوسط 2 ص 348 / 1291 ، مناقب خوارزمی ص 77 / 59)۔
973۔ حنان بن سدیر ! مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ہے کہ میں امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تھا، آپ نے ایسا کھانا پیش فرمایا جو میں نے کبھی نہیں کھایا تھا اور اس کے بعد فرمایا کہ سدیر ! تم نے ہمارے کھانے کو کیسا پایا؟ میں نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ، ایسا کھانا تو میں نے کبھی نہیں کھایا ہے، اور نہ شائد کبھی کھاسکوں گا، اس کے بعد میری آنکھوں میں آنسو آگئے!
فرمایا سدیر ! کیوں رورہے ہو؟ میں نے عرض کی ، فرزند رسول قرآن مجید کی ایک آیت یاد آگئی !
فرمایا وہ کونسی آیت ہے؟ میں نے عرض کی کہ ” قیامت کے دن تم لوگوں سے نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا “ مجھے خوف ہے کہ یہ کھانا بھی اسی نعمت میں شمار ہوجس کا حساب دینا پڑے۔
امام ہنس پڑے اور فرمایا کہ سدیر ! تم سے نہ اچھے کھانے کے بارے میں سوال ہوگا اور نہ نرم لباس کے بارے میں اور نہ پاکیزہ خوشبو کے بارے میں ۔ یہ سب تو ہمارے ہی لئے خلق کئے گئے ہیں اور ہم مالک کے لئے خلق ہوئے ہیں تا کہ اس کی اطاعت کریں۔
میں نے عرض کی تو حضور ! یہ نعمت کیا ہے ؟ فرمایا علی (ع) اور ان کی اولاد کی محبت ! جس کے بارے میں خدا روز قیامت سوال کرے گا کہ تم نے اس نعمت کا کس طرح شکریہ ادا کیا ہے اور اس کی کس قدردانی کی ہے۔( تفسیر فرات الکوفی ص 605 / 763)۔

تربیت اولاد بر حب اہلبیت (ع)
974۔ رسول اکرم ! اپنی اولاد کی تربیت کرو میری محبت ، میری اہلبیت (ع) کی محبّت اور قرآن کی تعلیم پر ۔(احقاق الحق 18 / 498)۔ 975۔ رسول اکرم ! اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تربیت دو، اپنے پیغمبر کی محبّت پیغمبر کے اہلبیت (ع) کی محبت اور قرائت قرآن ، اس لئے کہ حاملان قرآن انبیاء و اولیاء کے ساتھ اس دن بھی سایہ رحمت میں ہوں گے جس دن سایہ رحمت الہی کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا ۔( کنز العمال 16 / 456 / 45409 نقل از فوائد عبدالکریم الشیرازی ، والدیلمی و ابن النجار، فرائد السمطین 2ص 304 / 559 از مخارق بن عبدالرحمان ، صواعق محرقہ ص 172 ، احقاق الحق 18 / 297 نقل از ابویعلیٰ )۔
976۔ ابوالزبیر المکی ! میں نے جابر کو دیکھا کہ انصار کے راستوں اور اجتماعات کا دورہ کررہے ہیں عصا کا سہارا لئے ہوئے … اور کہتے جارہے ہیں اپنی اولاد کو محبت علی (ع) کی تربیت دو اور اگر قبول نہ کریں تو ان کی ماں کے بارے میں تحقیق کرو ۔( علل الشرائع ص 142 ، الفقیہ 3 ص 493 / 4744 ، رجال کشی 1 ص 236 ، الثاقب فی المناقب / 123)۔
977۔ ابوالزبیر ، عطیہ کو فی جواب ! ہر ایک کا بیان ہے کہ ہم نے جابر کو عصا کا سہارا لے کر مدینہ کی گلیوں اور محفلوں کا دورہ کرتے ہوئے دیکھا ہے جب وہ اس روایت کا اعلان کررہے تھے اور کہہ رہے تھے اے گروہ انصار ! اپنی اولاد کو محبت علی (ع) کی تربیت دو اور جو انکار کردے اس کی ماں کے بارے میں غور کرو ۔( مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 67)۔
نوٹ ! روایت سے مراد حدیث ” علی خیر البشر فمن ابیٰ فقد کفر “ علی (ع) تمام انسانوں سے افضل ہیں اور جو اس کا انکار کردے وہ کافر ہے“
978۔ امام صادق (ع) (ع)! اے میرے شیعو ! اپنی اولاد کو عبدی کے اشعار سکھاؤ کہ وہ دین خدا پر ہیں ۔( رجال کشی 2 ص 704 / 748 از سماعة)۔
نوٹ ! ابومحمد سفیان بن مصعب العبدی الکندی کا شمار ان شعراء اہلبیت (ع) میں ہوتاہے جو ہر اعتبار سے ان سے قربت اور اخلاص رکھتے تھے اور انھوں نے بے شمار اشعار امیر المومنین (ع) اور ان کی ذریت کے بارے میں لکھے ہیں جن میں ان حضرات کی مدح بھی کی ہے اور ان کے مصائب کا تذکرہ بھی کیاہے اور اہلبیت (ع) کے علاوہ کسی کے بارے میں ایک شعر بھی نہیں لکھاہے۔
شیخ الطائفہ نے انھیں امام صادق (ع) کے اصحاب میں شمار کیا ہے لیکن یہ صحابیت صرف محبت ، آمد و رفت یا ہمزمان ہونے کی بناپر نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد حضرت کی بارگاہ میں تقرب ، ان سے اخلاص اور اہلبیت(ع) سے صحیح قلب سے محبت ہے یہاں تک کہ امام (ع) نے اپنے شیعوں کو ان کے اشعار کی تعلیم دینے کا حکم دیا ہے اور ان اشعار کو دین خدا پر مبنی قرار دیاہے جیسا کہ کشی نے اپنے رجال ص 254 میں نقل کیاہے۔
ان کی صداقت اور ان کے اخلاص و استقامت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ امام (ع) نے انھیں وہ مراثی لکھنے کا حکم دیا تھا جو خواتین اپنے اجتماعات غم میں پڑھا کریں ۔
افسوس کہ مورخین نے ان کی تاریخ ولادت و وفات کا تذکرہ نہیں کیا ہے، البتہ ان کا امام جعفر صادق (ع) سے روایت کرنا اور سید حمیری کے ساتھ اجتماع جن کی ولادت 105 ء ھ میں ہوئی ہے اور 178 ء ھ میں وفات ہوئی ہے اور اسی طرح ابوداؤد المسترق کے ساتھ جمع ہونا اس بات کی علامت ہے کہ عبدی کی زندگی کا سلسلہ سید حمیری کے سال وفات تک باقی تھا۔
فہرست نجاشی کی بناپر ابوداؤد کا انتقال 231 ء ھ میں ہوا ہے اور کشی کی بناپر 160 ء ھ میں ہوا ہے اور عبدی سے روایت کرنے کے لئے کم سے کم اتنی عمر تو بہر حال درکار ہے جس میں انسان روایت کرنے کے قابل ہوجائے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ عبدی کی زندگی کا سلسلہ سید حمیری کی وفات تک باقی تھا لہذا اعیان الشیعہ 1 ص 370 کا یہ بیان کہ عبدی کا انتقال تقریباً 120 ء ھ میں ابوداؤد المسترق کی ولادت سے تقریباً 40 سال پہلے ہوگیا ہے خلاف تحقیق اور خلاف قرائن ہے۔(الغدیر 2 ص 290 ۔ 328 حالات عبدی کوفی)۔
واضح رہے کہ عبدی کا قصیدہ بائیہ بہت طویل ہے جس کے مدحیہ اشعار کا خلاصہ یہ ہے۔
میرا سلام اس قبر تک پہنچا دو جو مقام غری ( نجف) میں ہے اور جس میں عرب و عجم کا سب سے زیادہ وفادار انسان آرام کررہاہے۔
اور اپنا شعار ان کی بارگاہ میں خشوع کو قرار دو اور آواز دو اے بہترین پیغمبر کے بہترین وصی ۔
تو نبی ہادی کا بھائی بھی ہے اور مددگار بھی ، تو حق کا اظہار کرنے والا بھی ہے اور تمام کتب سماویہ کا ممدوح بھی۔
تو بضعة الرسول فاطمہ زہرا کا شوہر بھی ہے اور منتخب روزگار اولاد رسول کا باپ بھی ہے۔
وہ اولاد رسول جن میں سب راہ خدا میں زحمت برداشت کرنے والے دین خدا کی مدد کرنے والے اور اللہ کے لئے کام کرنے والے افراد ہیں۔
یہ سب گمراہی کی تاریک راتوں کے راہنما ہیں اور ان کا نور ہدایت ستاروں سے زیادہ جگمگارہاہے۔
میں نے ان کی محبت کا اظہار کیا تو مجھے رافضی کا لقب دیدیا گیا اور مجھے اس راہ میں یہ لقب کس قدر پیاراہے۔
صاحب عرش کی صلوات و رحمت ہر آن فاطمہ (ع) بنت اسد کے اس لال پر ہے جو تما م رنج و غم کا دور کرنے والا ہے۔
اور ان کے دونوں فرزندوں پر جن میں سے ایک زہر دغا سے شہید ہونے والا اور دوسرا خاک کربلا پر شہید ہونے والا ہے۔
اور اس عابد (ع) و زاہد پر جو اس کے بعد ہے اور اس باقر (ع) العلم پر جو منتہاے مطلوب سے قریب تر ہے۔
اور جعفر (ع) پر اور ان کے فرزند موسیٰ (ع) پر اور ان کے بعد رضا (ع) نیک کردار پر اور جواد (ع) شب زندہ دار پر ۔
اور عسکر یین (ع) پر اور اس مہدی پر جو قائم ، صاحب (ع) الامر اور لباس ہدایت سے آراستہ و پیراستہ ہے۔
جو زمین کو ظلم سے بھرنے کے بعد انصاف سے بھر دے گا اوراہل فتنہ و فساد کا قلع قمع کردے گا۔
اور بہترین مجاہدین راہ خدا کی قیادت کرنے ولاا ہے اس جنگ میں جو سرکش باغیوں کے خلاف ہونے والی ہے۔
عبدی نے دوسرے قصیدہ میں اپنی محبت آل (ع) کا اظہار اس انداز سے کیا ہے۔
اے میرے سردارو ! اے اولاد علی (ع) اے آل طہ اور آل ص کون تمھارا مثل ہوسکتاہے جبکہ تم زمین میں اللہ کے جانشین ہو۔
تم وہ نجو م ہدایت ہو جن کے ذریعہ خدا ہر ہادی کو ہدایت دیتاہے۔
اگر تمھاری راہنمائی نہ ہوتی تو ہم گمراہ ہوجاتے اور ہدایت و گمراہی مخلوط ہوکر رہ جاتے۔
میں ہمیشہ تمھاری محبّت میں محبت کرتاہوں اور تمھارے دشمنوں سے دشمنی کرتاہوں۔
میں نے تمھاری محبت کے علاوہ کوئی زاد راہ نہیں فراہم کیا ہے اور یہی بہترین زاد راہ ہے۔
یہی وہ ذخیرہ ہے جس پر روز قیامت میرا اعتماد اور بھروسہ ہے۔
آپ حضرات کی محبت اور آپ کے دشمنوں سے برائت ہی میرا کل دین و ایمان ہے!۔

ترویج محبوبیت اہلبیت (ع)
979۔ امام صادق (ع) ! اللہ اس بندہ پر رحم کرے جو ہمیں لوگوں میں محبوب بنائے اور مبغوض نہ بنائے۔( کافی 8 ص 229 / 293 ، تنبیہ الخواطر 2ص 152 روایت ابوبصیر، مشکٰوة الانوار ص 180 روایت علی بن ابی حمزہ ، الاعتقادات و تصحیح الاعتقادات ص 109 ، دعائم الاسلام 1 ص 61 ، فقہ الرضا (ع) ص 306)۔
980۔ امام صادق (ع) ! اللہ اس بندہ پر رحمت کرے جو لوگوں کی محبت کو ہماری طرف کھینچ کرلے آئے اور ان سے وہ بات کرے جو انھیں پسندیدہ ہو اور وہ بات نہ کرے جو ناپسند ہو۔( امالی صدوق (ر) 88/ 8 روایت مدرک بن زہبیر ، الخصال 25 / 89 ، بشارة المصطفیٰ ص 15 ، شرح الاخبار 3 ص 590 / 1456 ، روایت مدرک بن الہزہاز)۔
981۔ علقمہ ! میں نے امام صادق (ع) سے گذارش کی کہ میں آپ کے قربان کوئی نصیحت فرمائیے ؟ فرمایا کہ میں تمھیں تقوائے الہی ،احتیاط ، عبادت، طول سجدہ ، ادائے امانت ، صدق حدیث ، ہمسایہ کے ساتھ بہترین سلوک کی وصیت کرتاہوں، دیکھو اپنے قبیلہ کے ساتھ تعلقات ٹھیک رکھنا، ان کے مریضوں کی عیادت کرنا، جنازوں کی مشایعت کرنا اور ہمارے واسطے باعث زینت بننا باعث ننگ و عار نہ بننا ہمیں لوگوں کے نزدیک محبوب بنانا اور مبغوض نہ بنانا، ہماری طرف ہر مودت کو کھینچ کر لے آؤ اور ہر برائی کو ہم سے دور رکھو ہمارے بارے میں جو خیر کہا جائے ہم اس کے اہل ہیں اور جس شرکی نسبت دی جائے اس سے یقیناً پاکیزہ ہیں، ہمارا کتاب خدا اور قرابت رسول اور پاکیزہ ولادت کی بناپر ایک حق ہے لہذا ہمارے بارے میں ایسی ہی بات کرو ! ( بشارة المصطفیٰ ص 222)۔

علامات محبت اہلبیت (ع)

1۔ کوشش عمل
982۔ امام علی (ع) ! میں رسول اکرم کے ساتھ ہوں گا اور میرے فرزند میرے ساتھ حوض کوثر پر ہوں گے لہذا جسے میرے ساتھ رہناہے اسے میری بات کو اختیار کرنا ہوگا اور میرے عمل کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔( خصال ص 624 /10 روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم ، تفسیر فرات ص 367 / 499 ، جامع الاخبار 495 / 1376 ، غرر الحکم حاشیہ ص 3763)۔
983۔ حماد لحام امام صادق (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد محترم نے فرمایا کہ اگر تم نے میرے خلاف عمل کیا تو میرے ساتھ آخرت میں نہیں رہ سکتے ہو پروردگار اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ ہمارے اعمال کے خلاف عمل کرنے والے ہماری منزل میں نازل ہوں، پروردگار کعبہ کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہوسکتاہے۔( کافی 8 ص 253 / 358 ، تنبیہ الخواطر 2 ص 176)۔
984۔ امام علی (ع)! جو ہم سے محبت کرے اسے ہمارا جیسا عمل بھی کرنا ہوگا اور اس راہ میں تقویٰ کو ردا کو اوڑھنا ہوگا ۔( غرر الحکم ص 8483)۔
985۔ امام علی (ع) ! جو ہم سے محبت کرے وہ ہمارا جیسا عمل بھی کرے اور اس راہ میں تقویٰ سے مددلے کہ دنیا و آخرت کا سب سے بڑا مددگار تقویٰ الہی ہی ہے۔(خصال 614 /10 روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم عن الصادق (ع) ، تحف العقول ص 104)۔
986۔ امام صادق (ع) ! میں والد بزرگوار کے ساتھ نکل کر مسجد رسول میں گیا ، قبر و منبر کے درمیان شیعوں کی ایک جماعت موجود تھی ، آپ نے انھیں سلام کیا ، ان لوگوں نے جواب دیا تو آپ نے فرمایاکہ میں تمھاری روح اور تمھاری خوشبو کو دوست رکھتاہوں لہذا اپنے تقویٰ اور ورع سے میری مدد کرو اور یہ یاد رکھو کہ ہماری محبت ورع اور سعی عمل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ہے اور اگر کوئی شخص کسی بندہ کے پیچھے چلے تو اسے اس کے مطابق عمل بھی کرنا چاہیئے ۔( کافی 8 ص 212 / 259 روایت عمرو بن المقدام، امالی صدوق ص 500 / 4 روایت ابوبصیر ، فضائل الشیعہ 51 / 8 از محمد بن عمران)۔
987۔ امام مہدی (ع) ! جناب شیخ مفید (ر) کے خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر شخص کو وہ عمل کرنا چاہیئے جو ہماری محبت سے قریب بنادے اور ہر اس عمل سے پرہیز کرنا چاہئے جو ہم سے کراہت اور بیزاری کا سبب بنے کہ ہمارا ظہور اچانک ہوگا اور اس وقت نہ کوئی توبہ کار آمدہوگی اور نہ ہمارے عتاب سے کوئی شرمندگی بچا سکے گی ( احتجاج 2 ص 599)۔

2۔ محبان اہلبیت (ع) سے محبت
988۔ حنش بن المعتمر ! میں امیر المومنین علی (ع) بن ابی طالب (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے سلام کرکے مزاج دریافت کیا تو فرمایا کہ میری شام اس عالم میں ہوئی ہے کہ میں اپنے دوستوں کا دوست اور دشمنوں کا دشمن ہوں اور ہمارا دوست اس رحمت خدا پر مطمئن ہے جس کا انتظار کررہا تھا اور ہمارا دشمن اپنی تعمیر جہنم کے کنارہ کررہاہے جس کا انجام جہنم میں گرجاناہے اور گویا کہ اہل رحمت کیلئے رحمت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور انھیں رحمت مبارک ہے اور اہل جہنم کیلئے جہنم کی ہلاکت حاضر ہے۔
حنش ! جو شخص یہ معلوم کرنا چاہتاہے کہ میرا دوست ہے یا دشمن ؟ اسے چاہئے کہ اپنے دل کا امتحان کرے، اگر ہمارے دوستوں کا دوست ہے تو ہمارا دشمن نہیں ہے اور ہمارے دوستوں کا دشمن ہے تو پھر ہمارا دوست نہیں ہے ، خدا نے ہمارے دوست کی دوستی کا عہد لیا ہے اور ہمارے دشمنوں کا نام کتاب میں ثبت کردیاہے، ہم نجیب اور پاکیزہ افراد ہیں اور ہمارا گھرانہ انبیاء کا گھرانہ ہے۔( امالی طوسی (ر) 113 / 172 ، امالی مفید (ع) ص 334 / 74 ، بشارة المصطفیٰ ص 45 ، کشف الغمہ 2 ص 8 ، الغارات 2 ص 585)۔
989۔ امام علی (ع) ! جس نے اللہ سے محبت کی اس نے نبی سے محبّت کی اور اس نے ہم سے محبت کی اور جس نے ہم سے محبّت کی وہ ہمارے شیعوں سے بہر حال محبّت کرے گا ۔( تفسیر فرات کوفی ص 128 / 146 روایت زید بن حمزہ بن محمد بن علی بن زیاد القصار)۔
990۔ امام صادق (ع) ! جس نے ہمارے دوست سے محبّت کی اس نے ہم سے محبتّ کی( بحار الانوار 100 / 124 / 34 روایت عبدالرحمان بن مسلم ( المزار الکبیر)۔

3۔ دشمنان اہلبیت (ع) سے دشمنی
991۔ صالح بن میثم التمار ! میں نے حضرت میثم کی کتاب میں دیکھا ہے کہ ہم لوگوں نے ایک شام امیر المومنین (ع) کی خدمت میں حاضری دی تو آپ نے فرمایا کہ جس مومن کے دل کا بھی خدا نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا وہ ہماری مودت کو اپنے دل میں ضرور پائے گا اور جس پر خدا کی ناراضگی ثبت ہوگئی ہے وہ ہماری دشمنی ضرور رکھے گا ، ہم اس بات پر خوش ہیں کہ مومن ہم سے دوستی رکھتاہے اور دشمن کی دشمنی کو ہم پہچانتے ہیں۔
ہمارا دوست رحمت خدا کی بناپر خوشحال ہے اور ہر روز اس کا منتظر رہتاہے اور ہمارا دشمن اپنی تعمیر جہنم کے کنارے پر کررہاہے جس کا انجام ایک دن اس میں گر جاناہے، گویا اہل رحمت کے لئے رحمت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور وہ اس میں خوشحال ہے اور اہل جہنم کا انجام ہلاکت ہے۔
جس بندہ کے دل میں خدا نے خیر قرار دیدیاہے وہ ہماری محبت میں کوتاہی نہیں کرسکتاہے اور جو ہمارے دشمن سے محبت کرتاہے وہ ہمارا دوست نہیں ہوسکتاہے، دو طرح کی چیزیں ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتی ہیں اور ” خدا نے کسی سینہ میں دو دل نہیں قرار دیے ہیں۔ سورہ احزاب ایت 124 کہ ایک سے اس قوم سے محبت کرے اور دوسرے سے اس قوم سے ، جو ہمارا محب ہے وہ اتنا ہی خالص ہے جس قدر بغیر ملاوٹ والا سونا ہوتاہے۔
ہم نجیب و پاکیزہ افراد ہیں اور ہمارا گھرانہ انبیاء کا گھرانہ ہے، ہم اوصیاء کے وصی اور اللہ و رسول کے گروہ والے ہیں، ہمارا باغی گروہ حزب الشیطان ہے، جو ہماری محبت کا حال آزمانا چاہے وہ اپنے دل کا امتحان کرلے، اگر ہمارے دشمنوں کی محبت بھی پائی جاتی ہے تو اسے معلوم رہے کہ خدا، جبریل اور میکائیل سب اس کے دشمن ہیں اور خدا تمام کافروں کا دشمن ہے ( امالی طوسی (ر) 148 / 243 ، بشارة المصطفیٰ ص 87 کشف الغمہ 2 / 11 ، تاویل الآیات الظاہرة ص 439 روایت ابی الجارود و عن الصادق (ع)) ۔
992۔ ابوالجارود نے امام باقر (ع) سے آیت شریفہ ’ ’ ما جعل اللہ لرجلٍ من قلبین فی جوفہ “ کے بارے میں امیر المومنین (ع) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ہماری اور ہمارے دشمن کی محبت ایک سینہ میں جمع نہیں ہوسکتی ہیں کہ خدا نے کسی کے سینہ میں دو دل نہیں رکھے ہیں کہ ایک سے اس سے محبت کرے اور دوسرے سے اس سے دشمنی کرے، ہمارا محبت کرنے والا اتنا ہی مخلص ہوتاہے جیسے خالص سونا جس میں کسی طرح کی ملاوٹ نہ ہو، جو شخص ہماری محبت کا اندازہ کرنا چاہتاہے اسے چاہئے کہ اپنے دل کا امتحان کرلے، اگر ہماری محبت میں دشمن کو شریک پاتاہے تو نہ وہ ہم سے ہے اور نہ ہم اس سے ہیں اور اللہ بھی اس کا دشمن ہے اور جبریل و میکائیل بھی اور اللہ تمام کافروں کا دشمن ہے ۔( تفسیر قمی 2ص171)۔
993۔ امام صادق (ع) نے ایک شخص کے جواب میں فرمایا جس کا سوال یہ تھا کہ ایک شخص آپ کا دوست تو ہے لیکن آپ کے دشمن سے برائت میں کمزوری محسوس کرتاہے، اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ … فرمایا، افسوس ، جو ہماری محبت کا دعویٰ کرے اور ہمارے دشمن سے برائت نہ کرے وہ جھوٹا ہے۔( مستطرفات السرائر 149 / 2)۔

4۔ بلاؤں کے لئے آمادگی
994۔ ابوسعید خدری نے رسول اکرم سے ایک حاجت کے بارے میں فریاد کی تو آپ نے فرمایا کہ ابوسعید صبر کرو کہ فقر و فاقہ میرے چاہنے والوں تک پہاڑوں کی بلندیوں سے وادیوں کی طرف آنے والے سیلاب سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آتاہے۔( مسند ابن حنبل 4 ص 85 / 11379 ، شعب الایمان 7 ص 318 / 10442 ، 2 ص 174 / 1473 ، الفردوس 3 ص 155 / 4421)۔
995۔ ابوذر رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میں آپ کے گھرانہ کا چاہنے والا ہوں تو فرمایا کہ ہوشیار رہو اور فقر کی سواری تیار رکھو کہ فقر ہمارے چاہنے والوں کی طرف سیلاب کی تیز رفتاری سے زیادہ روانی کے ساتھ آتاہے۔( مستدرک حاکم 4 ص 367 / 944 ، سنن ترمذی 4 ص 576 / 2350 شعب الایمان 2 ص 173/1471)۔
996۔ ابن عباس ! رسول اکرم کو سخت پریشانی کا سامنا ہوگیا اور علی (ع) کو اس کی خبر مل گئی تو وہ کام کی تلاش میں نکل پڑے تا کہ کچھ سامان حاصل کرکے رسول اکرم کی خدمت میں پیش کردیں، اتفاق سے ایک یہودی کے باغ میں سینچائی کا کام مل گیا اور سترہ کھجور کے عوض سترہ ڈول پانی نکالا اور وہ کھجور لے کر رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے فرمایا کہ یا ابا الحسن یہ کہاں سے ؟ عرض کی کہ مجھے آپ کی پریشانی کا علم ہوا تو میں کام کی تلاش میں نکل پڑا اور یہ کھجور لے حاضر ہوا ہوں۔
فرمایا کہ یہ تم نے خدا و رسول کی محبت میں کیا ہے ؟ عرض کی بیشک ! فرمایا کہ جب کوئی بندہ خدا و رسول سے محبت کرتاہے تو فقر و فاقہ اس کی طرف سیلاب کی روانی سے تیز رفتاری کے ساتھ بڑھتاہے خدا و رسول سے محبت کرنے والے کو صبر کی سواری کو تیار رکھنا چاہئے۔ ( السنن الکبریٰ 6 ص 197 / 1149 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 449 / 966)۔
997۔ عنمة الجہنئ ! ایک دن رسول اکرم گھر سے برآمد ہوئے تو انصار کے ایک شخص نے ملاقات کرکے عرض کی کہ میرے ماں باپ قربان، آپ کے چہرہ پر کبیدگی کے آثار اچھے نہیں لگتے ہیں ، آخر اس کا سبب کیا ہے ؟ آپ نے تاویر اس شخص پر نظر کرنے کے بعد فرمایا کہ بھوک !
وہ شخص یہ سن کر روپڑا اور گھر میں کھانا تلاش کرنے لگا اور جب کچھ نہ ملا تو بنئ قریظہ میں جاکر ایک کھجور ایک ڈول پانی کھینچنے کا کام کرنے لگا اور جب کچھ کھجور جمع ہوگئے تو لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ حضور نوش فرمائیں۔
آپ نے فرمایا کہ یہ کھجور کہاں سے آئے؟
اس نے ساری داستان بیان کی ۔
آپ نے فرمایا کہ شائد تم اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتے ہو؟ اس نے عرض کی کہ بیشک ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنایاہے کہ آپ میری نظر میں میری جان اور میرے اہل و عیال اور اموال سے زیادہ عزیز ہیں۔
فرمایا اگر ایسا ہے تو فقراور بلاء کے لئے تیار ہوجاؤ کہ ذات واجب کی قسم، فقر اور بلا کی رفتار میرے چاہنے والوں کی طرف بلندی کوہ سے سیلاب کی رفتار سے زیادہ تیز تر ہے۔( المعجم الکبیر 18 ص 84 / 155 ، اصابہ 4 ص 611 / 6097 ، اسد الغابہ 4 ص 294 / 4112)۔
998۔ امام علی (ع)! جو شخص بھی ہم سے محبت کرے وہ بلاء کی چادر تیار کرلے۔(غرر الحکم ص 9037)۔
999۔ امام علی (ع)! جو ہم سے محبت کرے اسے رنج و محن کی کھال اوڑ لینی چاہیئے۔ ( غرر الحکم ص 9038)۔
1000۔ امام علی (ع) ! جو ہم اہلبیت (ع) سے محبت کرے اسے سامان بلاء کو تیار کرلینا چاہیئے (الغارات 2 ص 588 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 775)۔
1001۔ امام علی (ع)! جو ہم اہلبیت(ع) سے محبت کرے اسے فقر کی چادر مہیار کرلینی چاہیئے۔( نہج البلاغہ حکمت ص 112)۔
1002۔ اصبغ بن نباتہ! میں امیر المومنین (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص وارد ہوا اور اس نے کہا کہ خدا گواہ ہے میں آپ سے محبت کرتاہوں، فرمایا تم صحیح کہتے ہو، ہماری طینت خزانہ قدرت میں محفوظ ہے اور اللہ نے اس کا عہد صلب آدم (ع) میں لیاہے لیکن اب چادر فقر اختیار کرلو کہ میں نے رسول اکرم سے سنا ہے کہ خدا کی قسم یا علی (ع) ! فقر کی رفتار تمھارے چاہنے والوں کی طرف سیلاب کی رفتار سے زیادہ تیزتر ہے۔( المومن 16 ص 5 ، اعلام الدین ص 432)۔
1003۔ اصبغ بن نباتہ ! میں امیر المومنین (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص نے آکر عرض کی کہ میں آپ سے خفیہ، علانیہ ہر حال میں محبت کرتاہوں! امیر المومنین (ع) نے یہ سن کر ایک لکڑی سے زمین کو کھودنا شروع کردیا، اس کے بعد سر اٹھاکر فرمایا کہ تو جھوٹاہے، میں نے نہ تیری شکل اپنے چاہنے والوں کی شکلوں میں دیکھی ہے اور نہ تیرا نام ان کے ناموں میں دیکھاہے۔
مجھے اس کلام سے بے حد تعجب ہوا اور میں خاموش بیٹھا رہا یہاں تک کہ ایک دوسرے شخص نے آکر یہی بات دہرائی ! آپ نے پھر زمین کو کریدا اور فرمایا کہ تو سچ کہتاہے ، ہماری طینت طینتِ مرحومہ ہے، اس کا عہد پرودرگار نے روز میثاق لے لیا ہے اور اس سے کوئی شخص الگ نہیں ہوسکتاہے اور نہ اس میں کوئی شخص باہر سے داخل ہوسکتاہے، لیکن اب فقر کی چادر تیار کرلے کہ میں رسول اکرم کو یہ فرماتے سناہے کہ یا علی (ع) ! فاقہ کی رفتار تمھارے چاہنے والوں کی طرف سیلاب کی رفتار سے تیزتر ہے۔( امالی طوسی (ر) ص 409) / 921 ، بصائر الدرجات ص 390 / 391 ، اختصاص ص 311 / 312۔
1004۔ محمد بن مسلم ! میں بیماری کی حالت میں مدینہ وارد ہوا تو کسی نے امام باقر (ع) کو میرے حالات کی اطلاع کردی ، آپ نے ایک غلام کے ہمراہ رومال سے ڈھانک کر ایک شربت ارسال فرمایا اور غلام نے کہا کہ حضرت نے فرمایا ہے کہ اپنے سامنے پلادینا، میں نے اسے دیکھا کہ اننتہائی خوش ذائقہ اور خوشبودار ہے اور فوراً پی لیا۔
غلام نے کہا کہ اب اجازت دیجئے کہ حضرت نے فرمایا ہے کہ جب پی لیں تو تم واپس آجانا، میں غور کرنے لگا کہ ابھی تو میں اٹھنے کے قابل نہیں تھا اور اب یکبارگی اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور حضرت کے دروازہ پر حاضر ہوکر اذن طلب کیا، آپ نے اندر سے آواز دی کہ ٹھیک ہوگئے؟ اچھا اب اندر آجاؤ ! میں روتا ہوا داخل ہوا، سلام کرکے دست مبارک کو بوسہ دیا ، فرمایا رونے کا سبب کیا ہے؟
عرض کی ، میں آپ پر قربان، منزل اس قدر دور ہے کہ برابر حاضر نہیں ہوسکتا اور حالات ایسے ہیں کہ مدینہ میں قیام نہیں کرسکتا، یہ رونا اپنی غربت اور بدقسمتی کاہے۔
فرمایا کہ جہاں تک بلاء کا سوال ہے، پروردگار نے میرے چاہنے والوں کو ایسا ہی بنایا اور بلاء کو ان کی طرف تیز رفتار بنادیاہے اور جہاں تک غربت کا سوال ہے تو حضرت ابوعبداللہ سے سبق لینا چاہیئے جو شط فرات پر ہم سب سے دور ہیں۔
رہ گیا تمھاری منزل کا ہم سے دور ہونا تو مومن ہمیشہ اس دار دنیا میں غریب رہتاہے یہاں تک کہ جوار رحمت الہیہ میں پہنچ جائے۔
اور تم نے ہم سے قریب رہنے اور ہمیں دیکھنے کی خواہش کا جو اظہار کیا ہے تو اللہ تمھاری نیت سے باخبر ہے اور تمھیں اس جذبہ پر اجر عنایت کرنے والا ہے۔( رجال کشی 1 ص 391 / 281 ، کامل الزیارات ص 275 ، اختصاص ص52 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 181)-

آثار محبت اہلبیت (ع)

۱ ۔ گناہوں کا محو ہوجانا
۱۰۰۵۔ رسول اکرم ! ہم اہلبیت(ع) کی محبت گناہوں کو محو کردیتی ہے اور نیکیوں کو دگنا کردیتی ہے۔( امالی طوسی (ر) ص ۱۶۴ / ۲۷۴ روایت علی بن مہدی ، ارشاد القلوب ص ۲۵۳)۔
۱۰۰۶۔ امام حسن (ع) ! خدا کی قسم ہماری محبت ہر ایک کو فائدہ پہنچا دیتی ہے چاہے وہ ارض دیلم کا قیدی غلام کیوں نہ ہواور ہماری محبت اولاد آدم (ع) کے گناہوں کو اس طرح گرادیتی ہے جس طرح ہوا درخت سے پتے گرادیتی ہے۔( اختصاص ص۸۲ ، رجال کشی (ر) ۱ ص ۳۲۹ / ۱۷۸ روایت ابوحمزہ ثمالی )۔
۱۰۰۷۔ امام زین العابدین (ع)! جو ہم سے برائے خدا محبت کرے گا اسے محبت ضرور فائدہ پہنچائے گی چاہے دیلم کے پہاڑوں پر کیوں نہ ہو اور جو کسی اور غرض سے محبّت کرے گا تو اس کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ہم اہلبیت (ع) کی محبت گناہوں کو یوں گرادیتی ہے جس طرح ہوا درخت کے پتوں کو گرادیتی ہے۔ (بشارة المصطفیٰ ص ۳ ابوزرین ، شرح الاخبار ۲ ص ۵۱۳ / ۹۰۶ روایت علی بن حمزہ عن الحسین (ع) )۔
۱۰۰۸۔ امام باقر (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کی محبت سے گناہ معاف کئے جاتے ہیں ۔( امالی طوسی (ر) ص ۴۵۲ / ۱۰۱۰ ، بشارة المصطفیٰ ص ۶۷ روایت خالد بن طہاز ابوالعلاء الخفاف)۔
۱۰۰۹۔ امام صادق (ع) (ع)! ہم اہلبیت (ع) کی محبت بندوں کے گناہوں کو اسی طرح گرادیتی ہے جس طرح تیز ہوا درخت کے پتوں کو گرا دیتی ہے۔( ثواب الاعمال ص ۲۲۳/۱ ، قرب الاسناد ص ۳۹ / ۱۲۶ ، بشارة المصطفیٰ ص ۲۷۰ روایات بکر بن محمد ازدی)۔
۱۰۱۰۔ امام صادق (ع) ! جو شخص خدا کے لئے ہم سے اور ہمارے دوستوں سے محبت کرے اور اس کی کوئی دنیاوی غرض نہ ہو یا اسی طرح ہمارے دشمنوں سے صرف برائے خدا دشمنی کرے اور اس کی کوئی ذاتی عداوت نہ ہو اور اس کے بعد روز قیامت بقدر ریگ صحرا و زبد در یا گناہ لے کر آئے تو بھی خدا اس کے گناہوں کو معاف کردے گا۔( امالی طوسی (ر) ۱۵۶ / ۲۵۹ ، بشارة المصطفیٰ ص ۹۰ ، روایت حسین بن مصعب ، ارشاد القلوب ص ۲۵۳ اعلام الدین ص ۴۴۸ ، ثواب الاعمال ص ۲۰۴ /۱ روایت صالح بن سہل ہمدانی)۔

2۔ طہارت قلب
1011۔ امام باقر (ع) ! جو شخص بھی ہم سے محبت کرتاہے، اللہ اس کے دل کو پاک کردیتاہے اور جس کے دل کو پاک کردیتاہے وہ ہمارے لئے سراپا تسلیم ہوجاتاہے اور جب ایسا ہوجاتا ہے تو پروردگار اسے سختی حساب اور ہول قیامت سے محفوظ بنادیتاہے۔( کافی 1 ص 194 / 1 ابوخالد کابلی )۔
1012۔ امام صادق (ع) ! کوئی شخص بھی ہم سے محبت نہیں کرے گا مگر یہ کہ روز قیامت ہمارے ساتھ ہماری منزل میں اور ہمارے زیر سایہ ہوگا، خدا کی قسم جو شخص بھی ہم سے محبت کرے گا پروردگار اس کے دل کو پاکیزہ بنادے گا اور جب ایسا کردے گا تو وہ سراپا تسلیم ہوجائے گا اور جب ایسا ہوجائے گا تو اسے سختی حساب اور ہول قیامت سے محفوظ بنادے گا اور اس امر کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوگا جب سانس حلق تک پہنچ جائے گی ۔( دعائم الالسلام 1 ص 73 ، شرح الاخبار 3 ص 471 / 1367 روایت عبدالعلی بن الحسین )۔

3۔ اطمینان قلب
1013۔ امام علی (ع) ! جب آیت کریمہ ” الا بذر اللہ تطمئن القلوب“ نازل ہوئی تو رسول اکرم نے فرمایا کہ یہ وہ شخص ہے جو خدا و رسول اور میرے اہلبیت (ع) سے سچی محبت کرتاہے اور جھوٹ نہیں بولتاہے اور مومنین سے بھی حاضر و غائب ہر حال میں محبت کرتاہے کہ مومنین ذکر خدا ہی سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ۔( کنز العمال 2 ص 442 / 4448، در منثور 2 ص 642 ، جعفریات ص 224)۔
1014۔ امام صادق (ع) ! آیت کریمہ کے نزول کے بعد رسول اکرم نے حضرت علی (ع) سے فرایا کہ تمھیں معلوم ہے کہ یہ کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟
عرض کی کہ خدا اور اس کا رسول بہتر جانتاہے ! فرمایا جو شخص میرے اقوال کی تصدیق کرے ، مجھ پر ایمان لے آئے اور تم سے اور تمھاری اولادسے محبت کرے اور سارے امور کو تم لوگوں کے حوالہ کردے۔( تفسیر فرات کوفی ص 207 / 374 روایت محمد بن القاسم بن عبید)۔
1015۔ انس بن مالک ! رسول اکرم نے مجھ سے آیتہ ” الا بذکر اللہ “ کے بارے میں دریافت کیا کہ فرزند ام سلیم تمھیں معلوم ہے کہ اس سے مراد کون لوگ ہیں ؟
میں نے عرض کی حضور آپ فرمائیں ؟ فرمایا ہم اہلبیت (ع) اور ہمارے شیعہ۔( بحارا النوار 35 ص 405 / 29 / 23 ص 184 / 48 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 239 ، البرہان 2 ص 291 / 2 روایت ابن عباس )۔
نوٹ ! بظاہر ابن عباس کا نام سہواً درج ہوگیا ہے اس لئے کہ ابن عباس ام سلیم سے مراد انس بن مالک ہے جیسا کہ تہذیب الکمال 3 ص 353 / 568 میں واضح کیا گیاہے۔؟

4۔ حکمت
1016۔ امام صادق (ع) ! جو ہم اہلبیت (ع) سے محبت کرے گا اور ہماری محبت کو اپنے دل میں ثابت کرے گا اس کی زبان سے حکمت کے چشمے جاری ہوں گے اور اس کے دل میں ایمان ہمیشہ تازہ رہے گا ۔( محاسن 1 ص 134 / 167 روایت فضیل بن عمر)۔

5۔کمال دین
1017۔ رسول اکرم ! میرے اہلبیت (ع) اور میری ذریت کی محبت کمال دین کا سبب بنتئ ہے۔( امالی صدوق (ر) ص 161 / 1 روایت حسن بن عبداللہ )۔
1018۔ رسول اکرم ! میرے قبیلہ ، میرے اہلبیت(ع) اور میری ذریت کی فضیلت ویسی ہی ہے جیسے دنیا کی ہر شے پر پانی کی فضیلت ہے کہ ہر شے کی زندگی کا دارو مدار پانی پر ہے۔( اسی طرح میرے اہلبیت (ع) ، عشیرہ اور ذریت کی محبت سے کمال دین حاصل ہوتاہے۔ (اختصاص ص 37)۔

6۔مسرت و اطمینان وقت موت
1019۔ عبداللہ بن الولید ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں مروان کے دور حکومت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں اہل کوفہ میں سے ہوں!
فرمایا کہ کوفہ سے زیادہ ہم سے محبت کرنے والا کوئی شہر نہیں ہے خصوصاً یہ ایک جماعت جسے خدا نے ہمارا عرفان عنایت فرمایاہے جبکہ تمام لوگ جاہل تھے۔ تم لوگوں نے ہم سے محبت کی جب لوگ نفرت کررہے تھے، ہمارا اتباع کیا جب لوگ مخالفت کررہے تھے، ہماری تصدیق کی جب لوگ تکذیب کررہے تھے، خدا تمھیں ہماری جیسی حیات و موت عنایت کرے۔
یاد رکھو کہ میرے والد بزرگوار فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سے ہر شخص اپنی خنکی چشم اور سکون قلب کو اس وقت دیکھے گا جب سانس آخری مرحلہ تک پہنچ جائے گی ، پروردگار نے ارشاد فرمایاہے کہ ہم نے ہر رسول کے لئے ازواج اور ذریت قرار دی ہے۔رعد ص 38 اور ہم ذریت رسول اللہ میں ۔( کافی 8 ص 81 / 38 امالی طوسی (ر) ص 144 / 234 ، بشارة المصطفیٰ ص 82)۔
واضح رہے کہ بشارة المصطفیٰ میں مروان کے بجائے بنئ مروان کا ذکر ہے اور یہی صحیح ہے کہ امام صادق (ع) کی ولادت عبدالملک بن مروان کے دور میں ہوئی ہے۔!

7۔ شفاعت اہلبیت (ع)
1020۔ رسول اکرم ۔ میری شفاعت میری امت میں صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو میرے اہلبیت(ع) سے محبت کرنے والے ہیں اور میرے شیعہ ہیں ۔( تاریخ بغداد 2 ص 146)۔
1021۔ رسول اکرم ، ہم اہلبیت (ع) کی محبت اختیار کرو کہ جو ہماری محبت لے کر میدان قیامت میں وارد ہوگا ، وہ ہماری شفاعت سے داخل جنت ہوجائے گا ، (المعجم الاوسط 2 ص 360 / 2230 روایت ابن ابی لیلیٰ ، امالی مفید (ر) 13 / 1 ، امالی طوسی (ر) 187 / 314 ، المحاسن 1 ص 134 / 169 ، بشارة المصطفیٰ ص 100 ، ارشاد القلوب ص 254)۔
1022۔ امام علی (ع)! روز قیامت اپنے اعمال کی بناپر شفاعت کے لئے ہماری تلاش میں پریشان نہ ہونا، ہمیں بھی حق شفاعت حاصل ہے اور ہمارے شیعوں کو بھی ہم سے حوض کوثر پر ملاقات کرنے میں سبقت کرو کہ ہم اپنے دشمنوں کو وہاں سے ہنکا دیں گے اور اپنے دوستوں کو سیراب کریں گے۔ (الخصاص 614 / 624 / 10 روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم عن الصادق (ع))۔
8۔ نورِ روز قیامت
1023۔ رسول اکرم ! تم میں سب سے زیادہ نورانیت کا حامل وہ شخص ہوگا جو سب سے زیادہ اہلبیت (ع) سے محبت کرنے والا ہوگا ۔ (شواہد التنزیل 2 ص 310 / 948 از سالم )۔
1024 ۔ رسول اکرم ! آگاہ ہوجاؤ کہ خدا کی قسم کوئی بندہ میرے اہلبیت(ع) سے محبت نہیں کرتاہے مگر یہ کہ پروردگار اسے ایک نور عطا کردیتاہے جو حوض کوثر تک ساتھ رہتاہے اور اسی طرح دشمن اہلبیت (ع) کے اور اپنے درمیان حجاب حائل کردیتاہے۔( شواہد التنزیل 2 ص 310 / 947 روایت ابوسعید خدری)۔

9۔ امن روز قیامت
1025۔ رسول اکرم ! جو ہم اہلبیت (ع) سے محبت کرے گا پروردگار اسے روز قیامت مامون و محفوظ اٹھائے گا۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 58 / 220 از ابومحمد الحسن بن عبداللہ بن محمد بن العباس الرازی التمیمی عن الرضا (ع) )۔
1026۔ رسول اکرم ! آگاہ رہو کہ جو آل محمد سے محبت کرتاہے وہ حساب، میزان اور صراط سے محفوظ ہوجاتاہے، فضائل الشیعہ 27 / 1 ، بشارة المصطفیٰ ص 37 ، مأئة منقبة ص 149 ، اعلام الدین ص 264 ، ارشاد القلوب ص 235 ، مناقب خوارزمی 73 / 51 ، مقتل خوارزمی 1ص 40 ، فرائد السمطین 2 ص 258 / 526 روایات ابن عمر)۔
1027۔ رسول اکرم ! میری اور میرے اہلبیت (ع) کی محبت سات مقامات پر کام آنے والی ہے جن کا ہوں انتہائی عظیم ہے، وقت مرگ ، قبر ، وقت نشر ، وقت نامہٴ اعمال ، وقت حساب، میزان ، صراط ۔( خصال 360 / 49 ، امالی صدوق (ر) 18 / 3 ، بشارة المصطفیٰ ص 17 روایت جابر عن الباقر (ع) ، روضة الواعظین ص 297 ، جامع الاخبار 513 / 1441، کفایة الاثر ص 108 روایت واثلہ بن الاسقع)۔
1028۔ امام صادق (ع)! ہم اہلبیت (ع) کی محبت سے مقامات پر فائدہ ہونے والا ہے، خدا کے سامنے، موت کے وقت ، قبر میں ، روز حشر، حوض کوثر پر ، میزان پر ، صراط پر ۔( المحاسن 1 ص 250 / 471 روایت محمد بن الفضل الہاشمی)۔

10۔ ثباتِ قدم بر صراط
1029۔ رسول اکرم ! تم میں سب سے زیادہ صراط پر ثبات قدم والا وہ ہوگا جو سب سے زیادہ مجھے سے اور میرے اہلبیت(ع) سے محبت کرنے والا ہوگا۔( جامع الاحادیث قمی ص 231)۔
1030۔ رسول اکرم ! تم میں سب سے زیادہ صراط پر ثابت قدم سب سے زیادہ میرے اہلبیت (ع) سے محبت کرنے والا ہوگا۔( فضائل الشیعہ 48 /3 روایت اسماعیل بن مسلم الشعیری، الجعفریات ص 182 ، نوادر راوندی ص 95 ، کامل ابن عدی 6 / 2304 روایت موسیٰ بن اسماعیل ، کنز العمال 2ص 97 / 63 341 ، صواعق محرقہ ص 187 ، احقاق الحق 18 / 459)۔
1031۔ رسول اکرم ! ہم اہلبیت (ع) سے جس نے بھی محبت کی اس کا ایک قدم پھسلنے لگے گا تو دوسرا ثابت ہوجائے گا یہاں تک کہ خدا اسے روز قیامت نجات دیدے۔( در الاحادیث النبویہ ص 51)۔
1032۔ امام صادق (ع) ! ہمارا کوئی دوست ایسا نہیں ہے جس کے دونوں قدم پھسل جائیں بلکہ جب ایک قدم پھسلنے لگتاہے تو دوسرا ثابت ہوکر اسے سنبھال لیتاہے۔( دعائم الاسلام ص 163)۔

11 ۔ نجات از جہنم
1033۔ رسول اکرم ! روز قیامت پروردگار فاطمہ (ع) کو آواز دے گا کہ جو چاہو مانگ لو میں عطا کردوں گا ! تو فاطمہ (ع) کہیں گی کہ خدایا تجھ ہی سے ساری امیدیں وابستہ ہیں اور تو امیدوں سے بھی بالاتر ہے، میرا سوال صرف یہ ہے کہ میرے اور میری عترت کے محبون پر جہنم کا عذاب نہ کرنا ؟ تو آواز آئے گی ، فاطمہ (ع) ! میری عزّت و جلال اور بلندی کی قسم، میں نے آسمان و زمین کو پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے سے یہ عہد کررکھاہے کہ تیرے اور تیری اولاد کے دوستوں پر جہنم کا عذاب نہیں کروں گا۔( تاویل الآیات الظاہرہ روایت ابوذر)۔
1034۔ بلال بن حمامہ ! ایک دن رسول اکرم ہمارے درمیان مسکراتے ہوئے تشریف لائے تو عبدالرحمان بن عوف نے عرض کی کہ حضور آپ کے مسکرانے کا سبب کیا ہے؟
فرمایا میرے پاس پروردگار کی بشارت آئی ہے کہ مالک نے جب علی (ع) و فاطمہ (ع) کا عقد کرنا چاہا تو ایک فرشتہ کو حکم دیا کہ درخت طوبیٰ کو ہلائے-اس نے ہلایا تو بہت سے اوراق گر پڑے اور ملائکہ نے انھیں چن لیا، اب روز قیامت ملائکہ تمام مخلوقات کو دیکھیں گے اور جسے محبت اہلبیت (ع) پائیں گے اسے یہ پروانہ دیدیں گے جس پر جہنم سے برائت لکھی ہوگی میرے بھائی ، ابن عم اور میری بیٹئ کی طرف سے جو میری امت کے مرد و زن کو عذاب جہنم سے آزادی دلانے والے ہوں گے۔( تاریخ بغداد 4 ص 410 ، اسدالغابہ 1 ص 415 / 492 ، ینابیع المودہ 2 ص 460 / 278 ، مناقب خوارزمی 231 /361 ، مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 346 ، مائئہ منقبہ ص 145 ، الخرائج والجرائح 2 ص 356 / 11)۔
1035۔امام صادق (ع)! خدا کی قسم کوئی بندہ اللہ و رسول کا چاہنے والا اور ائمہ سے محبت کرنے والا ایسا نہیں ہوسکتاہے جسے آتش جہنم مس کرسکے۔( رجال نجاشی 1 ص 138 روایت الیاس بن عمرو البحلئ، شرح الاخبار 3 ص 463 / 1355 روایت حضرمی)۔

12۔ اہلبیت (ع) کے ساتھ حشر و نشر
1036۔ امام علی (ع)! رسول اکرم نے حسن (ع) و حسین (ع) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ جو مجھ سے ، ان دونوں سے اور ان کے والدین سے اور ان کے والدین سے محبت کرے گا وہ روز قیامت میرے ساتھ درجہ میں ہوگا۔( سنن ترمذی 5 ص641 / 37733 ، مسند احمد بن حنبل 1 ص 168 / 576 ، فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 694 /1185 ، تاریخ بغداد 13 / 287 ، مناقب خوارزمی ص 138 / 156 ، تاریخ دمشق حالات امام حسن (ر) ص 52 / 95 ، 96 ، امالی صدوق (ر) ص 190 / 11 ، بشارة المصطفیٰٰ ص 32 روایت علی بن جعفر عن الکاظم (ع) ، احقاق الحق 9 ص 174)۔
1037۔ امام علی (ع) ! رسول اکرم نے فرمایا کہ ہم فاطمہ (ع) ، حسن (ع) ، حسین (ع) اور ہمارے دوست ایک مقام پر جمع ہوں گے اور کھانے پینے میں مصروف رہیں گے یہاں تک کہ تمام بندوں کا حساب ہوجائے ، ایک شخص نے یہ سنا تو کہنے لگا کہ پھر حساب و کتاب کا کیا ہوگا؟ تومیں نے کہا صاحب یاسین کے بارے میں کیا خیال ہے جو اسی ساعت داخل جنت کردیے گئے ۔( المعجم الکبیر 3 ص 41 / 2623 از عمر بن علی ، تہذیب تاریخ دمشق 4 ص 213)۔
1038۔ رسول اکرم میرے پاس حوض کوثر پر میرے اہلبیت (ع) اور ان کے چاہنے والے برابر سے وارد ہوں گے۔( مقاتل الطالبیین ص76 ، شرح نہج البلاغہ معتزلی 16 ص 45 روایت سفیان، ذخائر العقبئص 18، کتاب الغارات 2 ص 586 ، مناقب امیر المومنین (ع) کوفی 2 ص 192 / 614)۔
1039۔ رسول اکرم ! جو مجھ سے اور میرے اہلبیت(ع) سے محبت کرے گا وہ میرے ساتھ دو برابر کی انگلیوں کی طرح رہے گا۔( کفایة الاثر ص 35 روایت ابوذر)۔
1040۔ رسول اکرم ! جو ہم اہلبیت (ع) سے محبت کرے گا وہ قیامت میں ہمارے ساتھ محشور ہوگا اور ہمارے ساتھ داخل جنّت ہوگا۔ (کفایة الاثر ص 296 از محمد بن ابی بکر از زید بن علی )۔
1041۔ رسول اکرم ! جوہم سے محبت کرے گا وہ قیامت میں ہمارے ساتھ ہوگا اور اگر کوئی انسان کسی پتھر سے بھی محبت کرے گا تو اسی کے ساتھ محشور ہوگا، (امالی صدوق (ر) ص 174 / 9 روایت نوف ، روضة الواعظین ص 457 ، مشکٰوة الانوار ص 84)۔
1042۔ ابوذر ! میں نے عرض کی یا رسول اللہ میں ایسے افراد سے محبت کرتاہوں جن کے اعمال تک نہیں پہنچ سکتاہوں تو اب کیا کروں ؟ فرمایا ، ابوذر ! ہر انسان اپنے محبوب کے ساتھ محشور ہوگا اور اعمال کے مطابق جزا پائے گا۔
میں نے عرض کی کہ میں اللہ ، رسول اور اس کے اہلبیت (ع) سے محبت کرتاہوں ؟ فرمایا تمھارا انجام تمھارے محبوبوں کے ساتھ ہوگا ۔ (امالی طوسی (ر) 632 / 1303 ، کشف الغمہ 2 ص 41)۔
1043۔ امام حسین (ع) ! جو ہم سے دنیا کے لئے محبت کرے اسے معلوم ہونا چاہئے کہ وہ دنیادار ہیں جن کے دوست نیک اور فاجر سب ہوتے ہیں اور جو ہم سے اللہ کے لئے محبت کرے اسے معلوم رہنا چاہیئے کہ قیامت کے دن ہمارے برابر میں ہوگا جس طرح کی ہاتھ کی دو انگلیاں۔( المعجم الکبیر 3 ص 135 /2880 روایت بشر بن غالب)۔
1044۔ امام حسین (ع) ! جو ہم سے اللہ کے لئے محبت کرے گا وہ ہمارے ساتھ دو برابر کی انگلیوں کی طرح رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوگا اور جو ہم سے دنیا کیلئے محبت کرے گا تو دنیا نیک و بد سب کے لئے ہے۔( امالی طوسی 253 / 455)۔ بشارة المصطفیٰ ص 123 روایت بشر بن غالب)۔
1045۔ امام حسین (ع) ! جو ہم سے محبت کرے اور صرف خدا کے لئے کرے وہ ہمارے ساتھ برابر سے روز قیامت محشور ہوگا اور جوہم سے صرف دنیا کے لئے محبت کرے گا اس کا حساب ایسے ہی ہوگا جیسے میزان عدالت میں ہر نیک و بد کا حساب ہوگا۔( محاسن 1 ص 134 /168)۔
1046۔ امام زین العابدین (ع)! مختصر سی بات یہ ہے کہ جو ہم سے بغیر دنیاوی لالچ کے محبت کرے گا اور ہمارے دشمن سے بغیر ذاتی کدورت کے دشمنی رکھے گا وہ روز قیامت حضرت محمد ، حضرت ابراہیم (ع) اور حضرت علی (ع) کے ساتھ محشور ہوگا۔ ( محاسن 1 ص 267 / 517 روایت ابوخالد کابلی)۔
1047۔ برید بن معاویہ البجلی ! میں امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ اچانک ایک شخص خراسان سے پیدل چل کر وارد ہوا اس طرح اس کے دونوں پیر زخمی ہوچکے تھے، کہنے لگا کہ میں اس عالم میں صرف آپ اہلبیت (ع) کی محبت میں حاضر ہوا ہوں۔
فرمایا خدا کی قسم ہم سے کوئی پتھر بھی محبت کرے گا تو روز قیامت ہمارے ہی ساتھ محشور ہوگا کہ دین محبت کے علاوہ اور کیاہے۔ (تفسیر عیاشی 1 ص 167 / 27)۔
1048۔ امام صادق (ع)! جو ہم سے اس طرح محبت کرے کہ اس کی بنیاد نہ کوئی قرابتداری ہو اور نہ ہمارا کوئی احسان، صرف خدا و رسول کے لئے محبت کرے تو روز قیامت ہمارے ساتھ ہاتھ کی دو انگلیوں کی طرح محشور ہوگا۔ (اعلام الدین ص 260 روایت عبیدہ بن زرارہ)۔
1049۔ یوسف بن ثابت بن ابی سعید ، امام صادق (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ جب لوگوں نے آپ کے پاس حاضر ہوکر عرض کی کہ ہم آپ سے قرابت رسول اور حکم خدا کی بناپر محبت کرتے ہیں اور ہمارا مقصد ہرگز کسی دنیا کا حصول نہیں ہے، صرف رضاء الہی اور آخرت مطلوب ہے اور ہم اپنے دین کی اصلاح چاہتے ہیں ۔
تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے یقیناً سچ کہا ہے، اب جو ہم سے محبت کرے گا وہ روز قیامت دو انگلیوں کی طرح ہمارے ساتھ ہوگا۔ (کافی 8 ص 106 / 80 ، تفسیر عیاشی 2 ص 69/ 61)۔
1050۔ حکم بن عتیبہ، میں امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو گھر حاضرین سے چھلک رہا تھا کہ ایک مرد بزرگ عصا پر تکیہ کئے ہوئے حاضر ہوئے اور دروازہ پر کھڑے ہوکر آواز دی ، سلام ہو آپ پر اے فرزند رسول اور رحمت و برکات الہیہ آپ پر ، اس کے بعد خاموش ہوگئے تو امام نے فرمایا علیک السلام و رحمة اللہ و برکاتہ ، اس کے بعد مرد بزرگ نے تمام حاضرین کو سلام کیا اور چپ ہوگئے تو حاضرین نے جواب سلا م دیا۔
اس کے بعد امام کی طرف رخ کر کے عرض کی فرزند رسول ! میں آپ پر قربان ! مجھے قریب جگہ دیجیئے کہ میں آپ سے محبت کرتاہوں اور آپ کے دوستوں سے محبت کرتاہوں اور خدا گواہ ہے کہ اس میں کوئی طمع دنیا شامل نہیں ہے اور اسی طرح آپ کے دشمنوں سے اور آپ کے دوستوں کے دشمنوں سے نفرت کرتاہوں اور اس میں کوئی ذاتی عداوت شامل نہیں ہے ، میں آپ کے حلال و حرام کا پابند اور آپ کے حکم کا منتظر رہتاہوں کیا میرے لئے کوئی نیکی کی امید ہے۔
فرمایا ۔ میرے قریب آؤ، اور قریب آؤ، یہ کہہ کر اپنے پہلو میں جگہ دی اور فرمایا کہ ایسا ہی سوال میرے پدر بزرگوار سے ایک بزرگ نے کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ اگر تم اسی عالم میں دنیا سے چلے گئے تو رسول اکرم ، حضرت علی (ع) ، حضرت حسن (ع) و حسین (ع) اور علی بن الحسین (ع) کے پاس وارد ہوگے۔ تمھارا دل ٹھنڈا ہوگا، روح مطمئن ہوگی اور آنکھیں خنک ہوں گی ، تمھارا استقبال راحت و سکون کے ساتھ نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ ہوگا، اور اگر زندہ رہ گئے تو وہ کچھ دیکھوگے جس میں خنکی چشم ہو اور ہمارے ساتھ بلندترین منزل پر ہوگے۔
اس بزرگ نے کہا حضور دوبارہ فرمائیں … آپ نے تکرار فرمائی … اس نے کہا اللہ اکبر ، اے ابوجعفر ، میں مرکز رسول اکرم حضرت علی (ع) امام حسن (ع) و حسین (ع) اور علی بن الحسین (ع) کی خدمت میں وارد ہوں گا اور خنکی چشم ، راحت روح کے ساتھ حاضر ہوں گا اور اس سارے اجر کا حقدار ہوں گا جو آپ نے بیان فرمایاہے اور یہ کہہ کر رونا شروع کیا یہاں تک کہ بیہوش ہوکر گر پڑ ا اور تمام گھر والوں نے رونا شروع کردیا اور سب کی ہچکیاں بندھ گئیں ۔
حضرت (ع) نے اپنے دست مبارک سے آنکھوں کو پوچھنا شروع کیا تو مرد بزرگ نے سر اٹھاکر امام (ع) سے عرض کیا ، فرزند رسول ، ذرا اپنا دست مبارک بڑھائیے، آپ نے ہاتھ بڑھائے، اس نے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور اپنے رخسار اور اپنی آنکھوں سے لگایا اور پھر اپنے شکم و سینہ پر رکھا اور سلام کرکے رخصت ہوگیا۔
امام علیہ السلام اس کو تا دیر دیکھتے رہے، اس کے بعد لوگوں سے فرمایا کہ جو شخص کسی جنتی شخص کو دیکھنا چاہے، اسے اس شخص کو دیکھنا چاہیئے“۔
حکم بن عتیبہ کا بیان ہے کہ میں نے اس اجتماع جیسا کوئی ماتم نہیں دیکھاہے۔( کافی 8/76 / 30)۔

13۔ جنّت
1051۔ حذیفہ ! میں نے رسول اکرم کودیکھا کہ امام حسین (ع) کا ہاتھ پکڑ کر فرمارہے ہیں کہ ایھا الناس۔ اس کا جد یوسف بن یعقوب کے جد سے افضل ہے اور یاد رکھو کہ حسین (ع) کی منزل جنّت ہے، اس کے باپ کی منزل جنّت ہے، اس کی ماں کی جگہ جنّت ہے۔اس کا بھائی جنتی ہے اور اس کے تمام دوست اور ان کے چاہنے والے سب جنتی ہیں۔( مقتل الحسین خوارزمی 1 ص 67)۔ 1052۔ امام صادق (ع) رسول اکرم ایک سفر میں جارہے تھے، ایک مقام پر رک کر آپ نے پانچ سجدے کئے اور روانہ ہوگئے تو بعض اصحاب نے عرض کی کہ حضور ! آج تو بالکل نئی بات دیکھی ہے؟
فرمایا کہ جبریل امین نے آکر یہ بشارت دی ہے کہ علی (ع) جنتی ہیں تو میں نے سجدہ شکر کیا، پھر کہا کہ فاطمہ (ع) جنتی ہیں تو میں نے پھر سجدہ ٴ شکر کیا تو کہا کہ حسن و (ع) و حسین (ع) بھی جنتی ہیں تو میں نے سجدہٴ شکر کیا ، پھر کہا کہ ان سب کا دوست بھی جنتی ہے تو میں نے پھر سجدہٴ شکر کیا تو کہا کہ ان کے دوستوں کا دوست بھی جنتی ہے تو میں نے پھر سجدہٴ شکر کیا۔( امالی مفید (ر) 21 / 2 روایت ابوعبدالرحمٰن)۔
1053۔ جابر بن عبداللہ انصاری ! ہم مدینہ میں مسجد رسول میں حضور کی خدمت حاضر تھے کہ بعض اصحاب نے جنت کا ذکر شروع کردیا، آپ نے فرمایا کہ خدا کے یہاں نور کا ایک پرچم اور زمرد کا ایک ستون ہے جسے خلقت آسمان سے دو ہزار سال قبل خلق کیا ہے اور اس پر لکھا ہوا ہے’ ’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ، ال محمد خیر البریة ، اور یا علی (ع) تم اس قوم کے بزرگ ہو ۔
یہ سن کر حضرت علی (ع) نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس مرتبہ کی ہدایت دی اور آپ کے ذریعہ شرافت و کرامت عنایت فرمائی ، آپ نے فرمایا یا علی (ع) ! کیا تمھیں نہیں معلوم ہے کہ جو ہم سے محبت کرے اور ہماری محبت کو اختیار کرے پروردگار اسے ہمارے ساتھ جنت میں ساکن کرے گا جیسا کہ کہ سورہٴ قمر کی آیت نمبر 55 میں بیان کیا گیا ہے۔( فضائل ابن شاذان ص 104 ، احقاق الحق 4 ص 284)۔
1054۔ رسول اکرم ! یا علی (ع)! جس نے تمھاری اولاد سے محبت کی اس نے تم سے محبت کی اور جس نے تم سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی اور جس نے خدا سے محبت کی وہ داخل جنت ہوگیا اور جس نے تمھاری اولاد سے دشمنی کی اس نے تم سے دشمنی کی اور جس نے تم سے دشمنی کی اس سے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے خدا سے دشمنی کی اور جس نے خدا سے دشمنی کی وہ اس بات کا سزاوار ہے کہ خدا اسے داخل جہنم کردے۔( درر الاحادیث ص 51)۔
1055۔رسول اکرم ! جس نے دل سے ہم سے محبت کی اور ہاتھ اور زبان سے ہماری امداد کی وہ ہمارے ساتھ جنت کی بلندترین منزل میں ہوگا اور جو ہم سے محبّت کرکے زبان سے ہماری امداد کرے گا اور ہاتھ روک لے گا وہ اس سے کمتر درجہ میں ہوگا اور جو صرف دل سے محبت کرے گا وہ اس سے کمتر درجہ میں ہوگا ۔( احقاق الحق 9 ص 484 عن الامام علی (ع) )۔
1050۔ رسول اکرم ! جنت میں تین درجہ ہیں اور جہنم میں تین طبقے ہیں، جنّت کا اعلیٰ درجہ ہمارے اس دوست کے لئے ہے جو زبان اور ہاتھ سے ہماری امداد بھی کرے اور اس کے بعد کا درجہ اس کے لئے ہے جو صرف زبان ، سے قدر کرے اور اس کے بعد کا درجہ اس کے لئے ہے جو صرف دل سے محبت کرے۔( محاسن 1 ص 251 / 472 روایت ابوحمزہ ثمالی )۔
1057۔ امام علی (ع) ! جو ہم سے دل سے محبت کرے اور زبان سے ہماری مدد کرے اور ہاتھ سے ہمارے دشمنوں سے جہاد کرے وہ جنّت میں ہمارے درجہ میں ہوگا اورجو صرف دل اور زبان سے محبّت کرے اور جہاد نہ کرے وہ اس سے کمتر درجہ میں ہوگا اور جو صرف دل سے محبت کرے اور ہاتھ اور زبان سے ہماری امداد نہ کرے وہ بھی جنت ہی میں رہے گا ۔( خصال ص 629 / 10 روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم ، جامع الاخبار ص 496 /1377 ، امالی مفید 33 /8 روایت عمر بن ابی المقدام، غرر الحکم 8146 ، 8147 ، 8173، تحف العقول ص 118)۔
1058۔ اما م زین العابدین (ع) بیمار تھے، ایک قوم عیادت کے لئے حاضر ہوئی ، عرض کیا فرزند رسول صبح کیسی ہوئی ؟ فرمایا عافیت کے عالم میں اور اس پر خدا کا شکر ہے، تم لوگوں کا کیا عالم ہے ، عرض کی کہ حضور آپ حضرات کی محبت و مودت میں صبح کی ہے۔
فرمایا جو ہم سے اللہ کے لئے محبت کرے گا اللہ اس کو اپنے سایہ رحمت میں رکھے گا جس دن اس کی رحمت کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، اور جو ہم سے محبت میں منتظر جزا رہے گا خدا اسے جنت میں ہماری طرف سے جزا دے گا اور جو دنیا کے لئے ہم سے محبت کرے گا خدااسے بھی بے وہم و گمان روزی عطا کردے گا۔( نور الابصار ص 154 ، الفصول المہمہ ص 203)۔
1059۔یونس ! میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا کہ آپ حضرات کی محبت اور آپ کے حق کی معرفت میری نگاہ میں تمام دنیا سے زیادہ محبوب ہے، تو میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ پر غضب کے آثار نمودار ہوگئے۔
فرمایایونس ! تم نے بڑا غلط حساب کیا ہے ۔ کہاں دنیا اور کہاں ہم ، اس دنیا کی حقیقت ایک غذا اور ایک لباس کے علاوہ کیاہے جبکہ ہماری محبت کا اثر حیات دائمی ہے ۔( تحف العقول ص 379)۔

4۔ خیر دنیا و آخرت
1060۔ رسول اکرم ۔ جو خدا پر توکل کرنا چاہتاہے اسے چاہئے کہ میرے اہلبیت (ع) سے محبت کرے اور جو عذاب قبر سے نجات چاہتاہے اس کا بھی فرض ہے کہ میرے اہلبیت (ع) سے محبت کرے اور جو حکمت چاہتاہے اواس کا بھی فرض ہے کہ اہلبیت(ع) سے محبت کرے اور جو جنت میں بلاحساب داخلہ چاہتاہے اسے بھی چاہئے کہ اہلبیت (ع) سے محبت کرے کہ خدا کی قسم جو بھی ان سے محبت کرے گا اسے دنیا و آخرت کا فائدہ حاصل ہوگا ۔( مقتل الحسین خوارزمی 1 ص 59 مائتہ منقبہ ص 106 ، فرائد السمطین 2 ص 294 / 551 ، ینابیع المودہ 2 ص 332 / 969 ، جامع الاخبار ص 62 / 77 روایات ابن عمر)۔

جوامع آثار محبت اہلبیت (ع)
1061۔ رسول اکرم ! پروردگار جس شخص کو ہم اہلبیت (ع) کے ائمہ کی محبت عنایت کردے گویا کہ اسے دنیا و آخرت کا سارا خیر حاصل ہوگا لہذا کوئی شخص اپنے جنتی ہونے میں شک نہ کرے کہ ہم اہلبیت (ع) کی محبت میں بیس خصوصیات پائی جاتی ہیں، دس دنیا میں اور دس آخرت میں ۔
دنیا کی دس خصوصیات میں زہد، حرصِ عمل، دین میں تقویٰ ، عبادت میں رغبت، موت سے پہلے توبہ ، نماز شب میں دلچسپی، لوگوں کے اموال کی طرف سے بے نیازی، اوامر و نواہی پروردگار کی حفاظت، دنیا سے نفرت اور سخاوت شامل ہیں کہ ان صفات کے بغیر محبت اہلبیت (ع) ایک لفظ بے معنی ہے۔
اور آخرت کے دس فضائل میں یہ ہے کہ
اس کا نامہ اعمال نشر نہ ہوگا۔
اسے میزان کا سامنا نہ ہوگا۔
اس کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔
اسے جہنم سے نجات کا پروانہ دیا جائے گا۔
اس کا چہرہ سفید اور روشن ہوگا۔
اسے لباس جنت پنھایا جائے گا۔
اسے سو افراد کی شفاعت کا حق دیا جائے گا۔
خدا اس کی طرف رحمت کی نگاہ کرے گا۔
اسے جنت کا تاج پہنایا جائے گا۔
وہ جنت میں بلاحساب داخل کیا جائے گا۔
کیا خوش نصیب ہیں میرے اہلبیت (ع) کے چاہنے والے۔( خصال ص 515/1 ) روایت ابوسعید خدری، روضہ الواعظین ص 298)۔
1062۔ رسول اکرم ! جو آل محمد کی محبت پر مرجائے وہ شہید مرتاہے، جو
جو آل محمد کی محبت پر مرجائے اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
جو آل محمد کی محبت پر مرجائے وہ توبہ کرکے دنیا سے جاتاہے۔
جو آل محمد کی محبت پر مرجائے وہ مومن کامل الایمان مرتاہے۔
جو آل محمد کی محبت پر مرجائے اسے ملک الموت اور اس کے بعد منکر و نکیر جنت کی بشارت دیتے ہیں۔
آگاہ ہوجاؤ جو آل محمد کی محبت پر مرجائے وہ جنت کی طرف اس شان سے لے جایا جاتاہے جیسے عورت اپنے شوہر کے گھر کی طرف۔
آگاہ ہوجاؤ جو آل محمد کی محبت پر مرجاتاہے اس کی قبر میں جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔
آگاہ ہوجاؤ جو آل محمد کی محبت میں مرجاتاہے پروردگار اس کی قبر کو ملائکہ رحمت کی زیارت گاہ بنادیتاہے۔
آگاہ ہوجاؤ جو آل محمد کی محبت میں مرجاتاہے وہ سنت رسول اور جماعت ایمان پر دنیا سے جاتاہے۔( کشاف 3 ص 403 ، فرائد السمطین 2 ص 255 / 524 ، ینابیع المودة 2 ص 333 / 972 ، العمدہ ص 54 / 52، بشارة المصطفیٰ ص 197 روایت جریر بن عبداللہ ، جامع الاخبار ص 473 / 1335، احقاق الحق 9 ص 487 روایت جریر بن عبیداللہ البجلی)۔
1063۔ امام علی (ع) ، حارث ! تمھیں ہم اہلبیت (ع) کی محبت تین مقامات پر فائدہ پہنچائے گی ، ملک الموت کے نازل ہوتے وقت قبر میں سوال و جواب کے وقت اور خدا کے سامنے حاضری کے وقت (اعلام الدین ص 461 روایت جابر جعفی عن الباقر (ع))۔
1064۔ امام علی (ع)! جو ہم اہلبیت (ع) سے محبت کرے گا، اس کا حسن عمل عظیم اور میزان حساب کا پلہ سنگین ہوگا ، اس کے اعمال مقبول ہوں گے اور اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے اور جو ہم سے بغض رکھے گا اس کا اسلام بھی کام نہ آئے گا ۔( مشارق انوار الیقین ص 51 روایت ابوسعید خدری)۔

No comments:

Post a Comment