Saturday 26 February 2011

histry mere khyalk me


قائد اعظم کی قیادت

0 جوابات
علامہ اقبال نے کہا ہے



نگہ بلند ، سخن دلنواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے

اور اللہ کے کرم سے ہمیں ، ہم برصغیر کے مسلمانوں کو ، پاکستان کے حصول کی جدوجہد کے دوران ان صفات کا حامل میر کارواں میسر آیا جس نے ہمیں حصول پاکستان کی منزل تک پہنچایا اس میر کارواں کو دنیا محمد علی جناح کے نام سے جانتی ہے اور ہم نے فرط عقیدت سے جسے قائد اعظم کہا اور یہ لقب اس کی سچی قیادت کے تاج میں ایک تابناک ہیرے کی طرح جگمگایا۔

قائد کی قیادت ، ان کی شخصیت کی صداقت کے حوالے سے ملی وحدت کی علامت بن گئی اور بہ حیثیت مسلمان ہماری صدیوں کی عظمت رفتہ کی بازیافت کے امکانات روشن ہوگئے ان کی رہنمائی نے ہمارے اندر خود شناسی کا جوہر بیدار کیا ان کے کردار کے جلال ، عزم کے جمال اور گفتار کی صداقت نے ہمیں ”ایمان ، اتحاد اور تنظیم“ کے معانی سمجھائے اور ان کا نام ہمارے ملی تشخص کی علامت بن گیا۔ حصول پاکستان کی تحریک کے دوران ایک زمانہ ہمیں حیرت سے دیکھنے لگا تھا کہ یہ کیسی قوم ہے اور یہ کیسا قائد ہے جو نہ مخالف کی طاقت سے گھبراتے ہیں نہ تعداد سے ، منزل کی دشواریوں سے دل شکستہ ہوتے ہیں نہ خطرات سے ، انہیں نہ دھوکہ دیا جاسکتا ہے ، نہ خوفزدہ کیا جاسکتا ہے نہ خریدا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کی ملت اسلامیہ کے عزم ، ارادے ، بے خوفی اور جذبہ ایمانی نے ایک پیکر خاکی کی شکل اختیار کرلی تھی اور محمد علی جناح نام پایا تھا۔ میاں بشیر احمد مرحوم نے بالکل سچ کہا تھا۔

ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
ملت ہے جسم ، جاں ہے محمد علی جناح
رکھتا ہے تاب اور تواں دس کروڑ کی
کہنے کو ناتواں ہے محمد علی جناح

حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم کے معیار کی کامیابی دنیا میں بہت کم رہنماؤں کو میسر ہوئی ہے ان کی مخالفت پر دو بہت بڑی طاقتیں کمربستہ تھیں یعنی انڈین نیشنل کانگریس اور برطانوی حکومت۔ پھر جس وقت انہوں نے حصول پاکستان کے لئے مسلمانوں کی قیادت کا فیصلہ کیا اس وقت بظاہر برصغیر کے مسلمان منتشر اور کمزور نظر آرہے تھے قائد اعظم کی قیادت ہمیں بتاتی ہے کہ
انسانوں کی زندگی میں عزم و ہمت اور صداقت کی کتنی اہمیت ہے۔ حقیقت یہ ہے

کہ یقین افراد کا سرمایہ تعمیر ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے

سچے ایمان اور عقیدے کی توانائی اس مادی دنیا میں بھی سب سے محکم توانائی ہے۔ قائد اعظم صرف ہمارے وکیل نہیں تھے وہ اس فکر کا عملی نمونہ تھے جس نے اقبال کی شاعری کو توانا اور محکم بنایا ہے۔ اسلام ظاہر پرستی سے عبارت نہیں ، اسلام کی شرط اول فکر کی ضمانت اور خیال کی پاکیزگی ہے۔ اسلام مصلحت کوشی نہیں ہے ، اسلام اعلان حق ہے ، محض عقل کی مصلحت کے تحت مسلمان بنے رہنا کافی نہیں ، دل کی گہرائیوں میں ایمان کی کیفیت کا اترنا ضروری ہے۔ قائد اعظم کی ساری زندگی گواہ ہے کہ سستی شہرت کے وہ کبھی طالب نہیں ہوئے اور منفی سیاست ان پر کبھی غالب نہیں آئی۔ قائد اعظم نے کبھی کوئی ایسی روش اختیار نہیں کی جس سے انہیں مسلمانوں میں جذباتی ناموری حاصل ہوجاتی۔ اس کے باوجود ان کی سیاست اور ان کی قیادت پر برصغیر کے مسلمانوں نے جس والہانہ انداز میں بھروسہ کیا اس کی کوئی مثال عصری تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ اعزاز منفی سیاست سے حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔قوموں کی زندگی میں حقیقی اہمیت تو افکار کی ہوتی ہے اور ان تحریکوں کی جو ان افکار سے پیدا ہوتی ہیں لیکن تحریکوں کی روح وہ افراد ہوتے ہیں جن کے حسن عملی اور اعلیٰ کردار سے وہ افکار قومی زندگی میں شرپذیر ہوتے ہیں اور اسی روشنی میں قومیں آزمائش کے مرحلوں سے گزر کر کامیابی کی منزلوں تک پہنچتی ہیں۔قیام پاکستان ایک سمت برصغیر کی امت مسلمہ کے لئے ایک تاریخ ساز کامیابی کی علامت ہوا تو دوسری سمت مخالف قوتوں کے لئے یہ شدید ناکامی اور محرومی کی علامت بھی بنا چنانچہ اس قدر واضح ناکامی کے بعد ان قوتوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کردی ہے۔ اب کوششیں یہ ہورہی ہیں کہ ان مقاصد کو ہی فکری انتشار کا نشانہ بنایا جائے جن کے حصول کے لئے پاکستان کے قیام کی جدوجہد کی گئی ہے۔ تاریخ کے آئینے میں قائد اعظم کے خدوخال بہت نمایاں ، بہت روشن ہیں۔ انسان کی شخصیت کی طرح تاریخ کا آئینہ بھی پہلو دار ہوتا ہے اور اس آئینے میں قائد اعظم کی شخصیت کا ہر پہلو نمایاں اور آئینے کی طرح ہی صاف و شفاف ہے۔ حصول علم میں بھرپور محنت سے کامیابی حاصل کی ، وکالت کے فرائض ادا کرتے ہوئے زندگی بھر دیانت اور امانت سے کام لیا، دل میں حصول آزادی کی لگن تھی لیکن برصغیر کے مسلمانوں کے ملّی تشخص کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ ہندو مسلم اتحاد کا علمبردار ہونا ہی اس کا بھرپور ثبوت ہے کہ وہ نظری اور عملی دونوں اعتبار سے مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کے قائل تھے۔ انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کی بھرپور کوشش کی لیکن مسلمانوں کو ہندوستانی قومیت میں ضم ہوجانے کا مشورہ کبھی نہیں دیا اور جب انہیں یقین ہوگیا کہ ان دونوں قوموں کے مابین باعزت بقائے باہمی کا سمجھوتہ ممکن نہیں تو انہوں نے ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے حصول کے لئے کاروان ملت کی قیادت کی اور تاریخ ساز کامیابی حاصل کی۔ سچی بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ عالمی سطح پر مسلم امہ کی بیداری کی راہ بھی ایک نمایاں اور کشادہ ہوتی چلی جارہی ہے۔

قائد اعظم سیدھے سادے اور سچے مسلمان تھے جب انہوں نے یہ کہا کہ برصغیر کے مسلمان ایک جداگانہ قوم ہیں تو یہ بات انہوں نے کسی مصلحت کی بنا پر یا مسلمانوں میں سستی شہرت کے حصول کے لئے نہیں کہی تھی۔ وہ دل سے مسلمانوں کے ملّی تشخص کے قائل تھے اور بالکل اسی طرح وہ دل کی گہرائیوں سے پاکستان میں حقیقی اسلامی نظام کے قیام کے آرزو مند تھے۔ قائد اعظم پیشوائیت یا Theocracy کے مخالف تھے کیونکہ اسلام میں اس نظام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قائد اعظم متعصب بھی نہیں تھے کیونکہ اسلام بنیادی طور پر تکریم آدمیت کا درس دیتا ہے لیکن وہ ”لادین“ ہونے کے معنوں میں سیکولر ہر گز نہیں تھے۔ وہ پاکستان میں کسی قیمت پر اس نوعیت کے سیکولر نظام کے قیام کے حامی نہیں تھے جیسا نظام مملکت اقوام مغرب نے اپنالیا ہے۔ قائد اعظم اللہ پر اور اللہ کے آخری رسول، آخری پیغمبر کی حیثیت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دل کی گہرائیوں سے ایمان رکھتے تھے اور پاکستان میں وہ اسی نظام حکومت کے قیام کے آرزو مند تھے جس کو عصر حاضر میں حقیقی معنوں میں اتباع سنت نبوی قرار دیا جاسکے۔

قائد اعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے آخری سالانہ اجلاس میں جو کراچی میں منعقد ہوا تھا دسمبر 1943ء کے آخری ہفتے میں اپنے خطبہ صدارت میں واضح الفاظ میں فرمایا تھا۔
”وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے ہم مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟
وہ کون سی چٹان ہے جس پر اس ملت کی عمارت استوار ہے ؟
وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے ؟

وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے چلے جائیں گے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا چلا جائے گا۔ اس پورے پس منظر میں ”ایمان ، اتحاد ، تنظیم“ کے معانی واضح ہوجاتے ہیں۔ قائد اعظم کی قیادت اسی جذبہ ایمانی کی مظہر تھی۔
800px-khimaz-jpg

Monday, July 20, 2009

اقبال کو نوبل انعام کیوں نہیں ملا؟

0 جوابات
علامہ اقبال اور رابندر ناتھ ٹیگور ہندوستان کے دو عظیم ہم عصر شاعر تھے جن کا کلام ایک ہی زمانے میں مشہور ہوا۔

شاعری کی حدود سے نکل کر سیاسی اور سماجی میدان میں بھی دونوں شخصیات بیسویں صدی کے اوائل میں ایک ساتھ نمودار ہوئیں لیکن یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ عمر بھر دونوں کی ملاقات کبھی نہیں ہوئی۔

علامہ اقبالؔ کے مداحوں کو اس بات کا ہمیشہ قلق رہا ہے کہ ہندوستان کے اولین نوبل انعام کا اعزاز اقبال کے بجائے ٹیگور کو حاصل ہوا۔ شاید اس ’’ زیادتی‘‘ کی تلافی ہو جاتی اگر بعد کے برسوں میں اقبال کو بھی اس انعام کا مستحق قرار دے دیا جاتا لیکن 1913ء سے 1938ء تک کے 25 برسوں میں ایک بار بھی نوبل کمیٹی کی توجہ اقبال پر مرکوز نہ ہو سکی۔

چونکہ نوبل کمیٹی کی تمام دستاویزات اور خط و کتابت پر پچاس برس تک اخفاء کی پابندی رہتی ہے اس لئے سن ساٹھ کے عشرے تک یہ محض ایک راز تھا اور اس پر ہر طرح کی چہ می گوئیاں ہوتی تھیں۔ اسے ایک سوچی سمجھی سازش بھی قرار دیا جاتا تھاکہ علامہ اقبالؔ کو نوبل پرائیز سے کیوں محروم رکھا گیا تھا۔

1963ء میں پرانے دستاویزات کے سامنے آنے پر کھلا کہ کمیٹی نے کوئی سازش نہیں کی تھی اور نہ علامہ اقبال کی نامزدگی کا جھگڑا کبھی پیدا ہوا تھا۔ لیکن اگر بنگال کے شاعر رابندر ناتھ کا نام کمیٹی کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے تو اقبال کی نامزدگی میں کیا قباحت تھی؟ پرانے دستاویزات اس سلسلے میں کوئی واضح رہنمائی نہیں کرتے۔

سن 1914ء کے اوائل میں تیار ہونے والی ایک رپورٹ میں نوبل کمیٹی کے چیئرمین ہیرلڈ ہئیارن نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ میں چھڑنے والی جنگ کی ممکنہ تباہ کاری کو دیکھتے ہوئے کمیٹی سوچ رہی تھی کہ نوبل انعام ایسے ہاتھوں میں نہیں جانا چاہئے جو جنگ اور تباہی کے پر چارک ہوں۔

کمیٹی کو احساس تھا کہ نوبل انعام حاصل کرنے والا ادیب راتوں رات شہرت کے آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ ظاہر ہے ان تحریروں کا اثر دنیا کے سبھی باشندوں پرپڑتا ہے۔

ہیرلڈ ہئیارن نے مختلف ماہرین کے آراء پیش کرنے کے بعد رپورٹ میں خیال ظاہر کیا کہ ادب کا نوبل انعام دیتے وقت اس امر کو بطور خاص مد نظر رکھنا چاہئے کہ یہ انعام کسی قوم پرستانہ مصنف کونہ چلا جائے یعنی کسی ایسے قلم کار کو جو ایک مخصوص قوم کے ملی جذبات کو ابھار کر دنیا پر چھا جانے کی ترغیب دے رہا ہو۔

ظاہر ہے کہ اقبال کی شاعری کا بیشتر حصہ اسلام اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو یاد کرنے اور اسے بحال کرنے کی شدید خواہش کا مظہر ہے۔ اقبال اپنی ملت کو اقوام مغرب سے بالاتر سمجھتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں قوم رسول ہاشمی جن عناصر سے مل کر بنی ہے وہ دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں پائے جاتے۔

اگرچہ پہلی جنگ عظیم سے قبل بھی یورپ کے سلسلے میں اقبال کسی خوشی فہمی کا شکار نہیں تھے لیکن جنگ کے بعد یورپ کے بارے میں ان کی تلخی مزید بڑھ گئی۔

1970ء کی ایک غزل میں اقبال نے کہا تھا: دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں ہے۔

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہی زر کم عیار ہو گا

نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا

سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا

1914ء کی ایک رپورٹ میں نوبل کمیٹی کے چیئر مین خیال ظاہر کرتے ہیں کہ سیاسی اتھل پتھل ایک عارضی مرحلہ ہے۔ ادب کو ان وقتی مصلحتوں سے ماوراء ہو کر عالمی اور دائمی اقدار کا دامن تھامنا چاہیے۔

کم و بیش یہی وہ خیالات تھے جن کی بنیاد پر مہاتما گاندھی کے نوبل پرائز کا راستہ بھی عرصہ دراز تک رکا رہا لیکن گاندھی کے کیس میں کم از کم چار مرتبہ ان کا نام کمیٹی کے سامنے آیا اور اس پر خاص بحث بھی ہوئی بلکہ نئی تحقیق کے مطابق تو 1948ء میں انہیں انعام ملنے ہی والا تھا کہ ان کی ناگہانی موت واقع ہو گئی۔

علامہ اقبال کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ 1913ء میں ٹیگور کو انعام ملنے کے ربع صدی کے بعد تک اقبال زندہ رہے لیکن نوبل کمیٹی نے کبھی ان کے نام پر غور نہیں کیا۔ اقبال کی شہرت کا سورج اس وقت نصف النہار پر تھا اور یہی وہ زمانہ تھا جب اقبال کو حکومت برطانیہ نے ’’سر‘‘ کا خطاب عطا کیا تھا، اگرچہ یہاں بھی ٹیگور انہیں مات دے گئے کیونکہ ٹیگور کو سرکا خطاب سات برس پہلے 1915ء میں ہی مل گیا تھا۔

ٹیگور مادری زبان کو مقدس سمجھتے تھے۔ ایک بار جب وہ اسلامیہ کالج لاہور کے طالب علموں کی دعوت پر پنجاب آئے تو طالب علموں نے ان کے استقبال کے لئے ان کا معروف بنگالی ترانہ گانا شروع کر دیا۔ ٹیگور نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے زیادہ خو شی ہو گی اگر آپ پنجاب کی کوئی سوغات پیش کریں۔ چنانچہ ٹیگور کی خدمت میں ہیر وارث شاہ کے چند بند، ہیر کی روائیتی طرز میں پیش کئے گئے۔ ٹیگور مسحور ہو کر رہ گئے اور محفل کے اختتام پر بولے میں زبان تو نہیں سمجھتا لیکن جتنی دیر ہیر پڑھی جاتی رہی میں مبہوت رہا اور مجھے یوں محسوس ہوتا رہا جیسے کوئی زخمی فرشتہ فریاد کر رہا ہو۔

ٹیگور کو اقبال سے بھی یہی شکوہ تھا کہ اس نے اپنی مادری زبان کے لئے کچھ نہیں کیا۔ بقول ٹیگور اگر اقبال نے فارسی اور اردو کی بجائے پنجابی کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا ہوتا تو آج پنجابی ایک پر مایہ زبان تو ہوتی۔

اقبال کے سلسلے میں ٹیگور کا یہ بیان ایک نوبل انعام یافتہ شاعر کا بیان بھی تھا۔ ایک ایسے شاعر کے بارے میں جو اس اعزاز سے محروم رہا۔

یہ بیان تھا ’سر‘ کا خطاب ٹھکرا دینے والے ایک شخص کا، اس شخص کے بارے میں جس نے انگریزی کے عطا کردہ اس خطاب کو عمر بھر سینت سینت کے رکھا۔

علامہ اقبالؔ کی شعری کائنات یقیناً ٹیگور کے شعری احاطے سے بہت بڑی تھی کیونکہ شعر اقبال کا ایک سرا اگر بطون ذات میں تھا تو دوسرا وسعت کائنات میں تھا۔

***

Advertisement

Powered By google
 
Copyright 2008 All Rights Reserved Revolution Two

No comments:

Post a Comment