Saturday 5 March 2011

سوال نمبر ٣: مسلم عورتوں کے لئے کافرہ عورتیں کیا اجنبی انسان کے زمر ے میں آتی ہیں ؟ اجنبی عورتوں سے تعلق کیسے رکھنا چاہئے؟


وسوال نمبر ٣: مسلم عورتوں کے لئے کافرہ عورتیں کیا اجنبی انسان کے زمر ے میں آتی ہیں ؟ اجنبی عورتوں سے تعلق کیسے رکھنا چاہئے؟
جواب: سائل نے یہ بہت اہم سوال پوچھا ہے میں اس کا جواب دینے سے پہلے مناسب یہ سمجھتا ہوں کہ سورہئ نور کی وہ آیت کریمہ تلاوت کروں جس میں پردے کے ، حجابِ شرعی کے احکام بہت نفیس انداز میں مختصر کلمات کے تحت بہت سے احکام کی تفسیر مختصر الفاظ میں کردی گئی ہے اور اسی میں اغیار کی عورتوں کے ساتھ کیا برتاؤ اور مسلم عورتوں کو ان کے سامنے کس طور پر آنا چاہئے اس کی تعلیم اس سے نمایاں ہے قرآن شریف میں سورہئ نور میں ارشاد ہوتا ہے: وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَا رِ ھِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِ ھِنَّ عَلٰی جُیُوْ بِھِنَّ ص وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اٰبِآئِھِنَّ اَوْ اٰبَآ ءِ بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اَبْنَآئِھِنَّ اَوْ اَبْنَآ ءِ بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اِخْوَانِھِنَّ اَوْبَنِیْ ۤ اِخْوَانِھِنَّ اَوْبَنِیْ ۤ اَخََوٰتِھِنَّ اَوْ نِسَآ ئِھِنَّ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُنَّ اَوِالتّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبِۃِ مِنَ الرِّ جَالِ اَوِالطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْھَرُوْ اعَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآءِ ص وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ ط وَتُوْبُوْ ۤا اِلَی اﷲِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o
ترجمہ کنزالایمان: اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور وہ دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنا سنگھار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹے یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنے بھتیجے یا اپنے بھانجے یا اپنے دین کی عورتیں یا اپنی کنیزیں جو اپنے ہاتھ کی مِلک ہوں یا نوکر بشرطیکہ شہوت والے مرد نہ ہوں یا وہ بچّے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جانا جائے ان کا چھپا ہوا سنگھار اور اللّٰہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو سب کے سب اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔ (سورہ نور آیت ٣١)
یہ نفیس ترجمہ ہے اس سے بہت سارے احکام عورتوں کے متعلق ، ان کے لباس کے متعلق اورا ن کو دوپٹہ کیسا اوڑھنا چاہئے اور دوپٹے کے اوڑھنے سے کیا مقصد ہے اوراس کے ساتھ ساتھ یہ کہ کافرہ عورتوں کے سامنے ان کو کس طور سے آنا چاہئے یہ اس آیت کریمہ سے خوب واضح ہوگیا ہوگا اور اس سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ جس شرعی حجاب کا حکم عورت کو نامحرم اور اجنبی مرد کے سامنے دیا گیا کہ وہ شرعی حجاب برتے اور اپنا سر اور اپنا گلہ ، سینہ ، پیٹ یا پیٹھ یا پنڈلی وغیرہ ظاہر نہ کرے اس حکم میں کافرہ عورتوں کا بھی وہی حکم ہے ان کے سامنے بھی مسلمان عورت کو بے احتیاطی کے ساتھ اس طور پر کہ کلائی کھلی ہو یا گلہ کھلا ہو سینہ کھلا ہو یا پیٹ یا پیٹھ کا کچھ حصہ نظر آتا ہو ےا سر کھلا ہواس کو کافرہ عورتوں کے ساتھ اس طور پر جانا جائز نہیں ہے اس سلسلے میں حضرت عمر رضی اﷲ تبارک وتعالیٰ عنہ نے اپنے ایک گورنر کو جو لکھا وہ میں خزائن العرفان حضرت مولانا نعیم الدین صاحب مراد آبادی علیہ الرحمۃ کی جو مختصر تفسیر ہے جو کنز الایمان کے اوپر دستیاب ہے ا س کو میں پڑھو اکر آپ کو سنواتا ہوںاور اس آیت کریمہ کی مختصر تفسیر بھی پڑھی جائے گی اس کو آپ لوگ سنیں یہ آپ لوگوں کے لئے غایت درجہ مفید ہے۔
''اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں''، کچھ نیچی رکھیں کی تفسیر میں فرمایا گیا اور غیر مردوں کو نہ دیکھیں حدیث شریف میں ہے کہ ازواج مطہرات میں سے بعض امہات المؤمنین رضی اﷲ عنہم سید عالم صلی اﷲ تبارک وتعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں تھیںاسی وقت ابن ام مکتوم آئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ازواج کو پردے کا حکم فرمایا انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو نابینا ہیں فرمایا تم تو نابینا نہیں ہو (ترمذی و ابو داؤد) اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو بھی نامحرم کا دیکھنا اور اس کے سامنے ہونا جائز نہیں۔''اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں '' اس کی تفسیر میں فرمایا کہ اظہر یہ ہے کہ یہ حکم نماز کا ہے نہ نظر کا کیونکہ حرہ(یعنی آزاد عورت) کا تمام بدن عورت ہے شوہر اور محرم کے سوا اور کسی کے لئے اس کے کسی حصے کا دیکھنا بے ضرورت جائز نہیں اور معالجہ وغیرہ کی ضرورت سے قدر ضرورت جائز ہے، یعنی لیڈی ڈاکٹر کو یا ڈاکٹر اگر مرد ہو اور اس میں ضرورت ہے بغیر دیکھے علاج ممکن نہیں تو جس حصے کا دکھانا ناجائز نہیں ہے وہ بقدر ضرورت بوقت ضرورت اس کو دیکھ سکتا ہے ''مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالیں رہیں اور اپنا سنگار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ '' مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے یعنی ہاتھ اور پیر، آزاد عورت کا پورا بدن عورت ہے اور ہاتھ اور پیر اس سے مستثنیٰ ہیں اس لئے کہ یہ خود ہی ظاہر ہیں لیکن ہاتھ کے اوپر کلا ئی کا کھولنا اور دکھانا جائز نہیں ہے ایسے ہی پیر کے اوپر پنڈلی کا کھولنا جائز نہیں ہے ۔ اور اپنے باپ کی تفسیرمیں فرماتے ہیںاورانہیں کے حکم میں ہیں دادا پرداداوغیرہ تمام اصول یعنی باپ، دادا پر دادا جتنے اصول ہیں وہ انہیں کے حکم میں ہیں سب باپ کے حکم میں ہیں ''یا شوہروں کے باپ'' اور شوہروں کے باپ کی تفسیر میں ہے کہ وہ بھی محرم ہوجاتے ہیںشوہروں کے باپ ،دادا، پردادا ''یا اپنے بیٹے'' اس کی تفسیر میں ہے کہ انہیں کے حکم میں ہے ان کی اولاد ''یا شوہروں کے بیٹے''کہ وہ بھی اب محرم ہوگئے ''یا اپنے بھائی یا اپنے بھتیجے یا اپنے بھانجے''اور انہیں کے حکم میں ہیں چچا ماموں وغیرہ تمام محارم، اب وہ روایت آئی کہ حضرت عمررضی اﷲ تبارک وتعالیٰ عنہ نے اپنے گورنر کواور وہ گورنر کون ہیں حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اﷲ تبارک وتعالیٰ عنہ جو اس امت کے امین ہیں ان کو یہ لکھ کر بھیجا ،لکھا تھا کہ کفار اہل کتاب کی عورتوں کو مسلمان عورتوں کے ساتھ حمام میں داخل ہونے سے منع کریں اس سے معلوم ہوا کہ مسلمہ عورت کو کافرہ عورت کے سامنے اپنا بدن کھولنا جائز نہیں مسئلہ عورت اپنے غلام سے بھی مثل اجنبی کے پردہ کرے ۔ (تفسیر خزائن العرفان، سورہ نور، آیت 

No comments:

Post a Comment