عشق
* * * * *
عشق‘ آنکھوں ‘ کانوں اورقلب کے راستے ایک احساس کی طرح بہتا ہوا انسان کی باطنی دنیامیں پہنچ جاتا ہے اور وصال ہونے تک ایک دریائی بند کے پانی کی طرح چڑھتا رہتا ہے‘ ایک گلیشیئر کی طرح بڑا ہوتا رہتا ہے‘اور ایک شعلے کی طرح انسان کے ہر پہلوکو اپنی لپیٹ میں لیتا جاتا ہے۔جب عشق وصال کے نقطے تک پہنچ جاتا ہے توہر شے ساکن اور مدھم ہونا شروع ہو جاتی ہے‘ آگ بجھ جاتی ہے‘ ڈیم خالی ہو جاتا ہے‘ اور گلیشیئر بھی پگھل پگھل کر نا پید ہو جاتا ہے۔* * * * *
عشق جو پیدائش کے وقت سے ہی ایک مرکز اور معنی کی شکل میں تقریباَ ہر انسان کی روح کا ایک اہم پہلو ہوتا ہے‘ اُسے اپنا حقیقی لہجہ اور رنگ اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ اپنے آپ کو حقیقی عشق (یعنی عشقِ اِلہٰی) میں تبدیل کر لیتا ہے۔یہ لہجہ اور رنگ ملنے کے بعد وہ ابدیت حاصل کر لیتا ہے اور وصال کی دہلیز پر پہنچ کر خود کو ایک پاک و صاف لذت میں تبدیل کر لیتا ہے۔* * * * *
اولادِ آدم کے لیے تجلیاتِ حق کے لیے کھلی رہنے والی طور کی چوٹی دل ہے۔ دلوں کا اٍن تجلیات اوراِن کے وسیلے سے اللہ جلِّ جلالہ‘ کے عشق کا مظہر ہونے کی سب سے آشکار علامت خالقِ اعظم کے لیے انسان کا وہ عشق اور اشتیاق ہے جو اس کے سینے میں پنہاں ہوتا ہے۔* * * * *
انسان کو اُفقِ کامل تک پہنچانے کی راہوں میں سے سب سے یقینی‘ نزدیک ترین اور سب سے صحتمند راہ‘ راہِ عشق ہے۔جوراہیں عشق اور اشتیاق کے لیے کھلی نہ ہوں اُن کے ذریعے اُس اُفق ِ کامل تک پہنچنا خاصہ مشکل کام ہے۔چناچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حقیقت تک رسائی کے لیے ”عجز و فُقر‘ شوق و شُکر“ کی راہ کے علاوہ راہِ عشق جیسی دوسری کوئی اور راہ نہیں ہے۔* * * * *
عشق وہ بُراق ہے جو جنابِ حقِ تعالیٰ نے ہمیں جنتِ گم گشتہ کو تلاش کرنے کا راستہ طے کرنے کے لیے عطا کی ہے۔ اور یہ وہ بُراق ہے جس کے سواروں میں سے آج تک کوئی بھی ایسا نہیں ہو ا جو راستے ہی میں رہ گیا ہو۔البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس سماوی بُراق کی پیٹھ پر سوارلوگو ں کو ”سڑک کے کنارے کنارے“ پیدل چلتے عیاشی اور نشے میں مدہو ش لوگوں کا دکھائی دینا بھی بعیدازقیاس نہیں ہے۔ لیکن اس معاملے کا تعلق تمام تر اُن کے اور حق تعالیٰ کے باہمی تعلقات کے معیار سے ہے۔* * * * *
عشق چونکہ انسان کو مکمل طور پر جلا کر راکھ کر دیتا ہے اس لیے آئندہ اُسے نہ اس دنیا کی آگ کے شعلے جلا سکیں گے اور نہ ہی عقبٰی کی نارِ جہنم۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ دو سلامتیاں اور دو خوف‘ دو اشتیاق اور دو اضطراب ایک ہی وقت میں ایک ہی انسان میں نہیں پائے جا سکتے۔اِس بنیادی اصول کے مطابق‘ ساری زندگی میں اپنا سینہ عشق کی آگ کے سامنے کُھلا رکھنے والے‘ اپنی باطنی دنیا میں جہنم کی آگ سے مقابلہ کرنے والے لوگوں کا اُسی اضطراب اور اُسی الم میں دوبارہ زندگی گزارنا بعیداز عقل ہے۔۔۔* * * * *
عشق‘ انسان کو اپنی ہستی بھلا کر اپنے محبوب کی ہستی سے یک جان کر دیتا ہے۔انسان کے دل کو کسی غرض اور بدلے کے بغیرمحض معشوق کا طالب بنا دینا‘ اُسی کی آرزو اور خواہش میں پگھل کر ختم ہو جاناہی عشق کا عنوان ہے۔اور میرے خیال میں انسان ہونے کا مقصد بھی تو یہی ہے۔مسلکِ عشق کے مطابق عاشق کی آنکھوں میں دوسرے خیالات کا درآنا حرام ہے اور اِس حرام پر عمل درآمدکرنا عشق کی موت ہے۔ عشق کی زندگی اُس وقت اور حد تک باقی رہتی ہے جب تک عاشق کو اپنے اِرد گِرد سُنی جانے والی باتوں میں محبوب کا نام اوراُس کے عنوان‘ اُس کے حسن کی خوبیاں ‘ اور اُس کے کمالات کی داستانیں سُنائی دیتی رہتی ہیں ۔بصورتِ دیگر عشق بجھ کرناپید ہو جاتا ہے۔۔۔۔
* * * * *
عاشق کسی بھی معاملے میں معشوق کی مخالفت کے بارے میں نہ سوچتا ہے اور نہ سوچ سکتا ہے۔وہ خاص طور پر یہ تو کسی حال میں نہیں چاہتا کہ کوئی شے اُس کے محبوب پر سائے کی طرح چھا جائے یا خود سامنے آ کر اُس کی یاد بھلانے کی کوشش کرے۔یہاں تک کہ وہ تمام ایسے الفاظ کو بے فائدہ اور عبس قرار دیتا ہے جِن میں اُس کے محبوب کا ذکر نہ ہو۔وہ اپنے محبوب سے غیر متعلقہ ہر کام کو محبوب کے خلاف حرام خوری اور بے وفائی سمجھتا ہے۔* * * * *
عشق ایک ایسی حالت ہے جس میں دل کا رشتہ‘اِرادے کی رغبت‘ احساسات کی اغیار سے تطہیر‘ اور انسان کے احساسات کاتعلق معشوق کے خوابوں اور تصورات کے علاوہ کسی دوسری چیز سے نہیں ہوتا۔ اِس حالت میں عاشق کی ہر حرکت میں معشوق کے بارے میں ایک معنی چمک اُٹھتا ہے‘ اُس کا دل معشوق کے اشتیاق کے ساتھ دھڑکتا ہے ‘اُس کی زبان ہر وقت محبوب ہی کا نام گُنگُناتی رہتی ہے‘ اور اُس کی آنکھیں اُسی کے خیال میں کھلتی اور بند ہوتی ہیں ۔* * * * *
عاشق‘ چلتی آندھی میں ‘ برستی بارش میں ‘ آبشاریں بناتے دریاﺅں میں ‘چیختے چلاتے جنگل میں ‘ روشن ہوتی صبح اور سیاہی کی طرف مائل رات میں ہمیشہ اپنے دوست کی خوشبو سونگھ کر نئی زندگی پاتا ہے‘ اپنے ماحول میں منعکس ہوتے محبوب کے حسن کو دیکھ کر جوش میں آتا ہے‘ ہوا کے ہر جھونکے میں دوست کی سانسوں کو محسوس کر کے لطف اندوز ہوتا ہے‘ اور قدم قدم پر محبوب کے مظالم کو محسوس کرکے آہیں بھرتا ہے۔۔۔* * * * *
شفق پر اپنے معشوق کے آثار دیکھ کر نیند سے جاگنے والے عاشق اپنے لبوں پر گہرا سرخ خون اور اپنے سینوں میں آگ کے شعلوں کا ایک طوفان دیکھتے ہیں اور اپنے آپ کو آگ کے ایک دائرے میں گھرا ہوا پاتے ہیں ۔ وہ ایک مرتبہ بھی اس پُر لذت جہنم سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔* * * * *
یہ خیال کرنا کہ سچا عشق فاسق لوگوں کی شہوانی محبت پر مشتمل ہوتا ہے ایک غلطی اور نادانستگی کی علامت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض اوقات مجازی عشق بھی حقیقی عشق میں تبدیل ہو جا تے ہیں لیکن اس کا کسی حال میں بھی یہ مطلب نہیں نکلتا کہ مجازی عشق کی بھی کوئی قدروقیمت ہوتی ہے۔ اِس کے برعکس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس قسم کے عشق میں خامیاں بھی ہیں اورقصوربھی‘ اور یہ ابدیت کا اظہارنہیں کرتا۔* * * * *
سچّے عاشق جس عشق میں مبتلا ہوتے ہیں اُس کی تپش کے باعث اِن کی باطنی دنیا ہمیشہ ایک آتش فشاں پہاڑ کی طرح دھوئیں میں اٹی رہتی ہے اور بُری طرح کراہتی رہتی ہے۔جو لوگ اِنہیں کراہتا سن کر نتیجہ نکال سکتے ہیں اُن کے مطابق اِن عشاق کی ہر آہ اُن کے سینوں سے پھوٹ کر نکلنے والا ایک ایسا لاوا ہوتی ہے جو ہر جگہ کو آگ لگا کر تباہ کرتا ہے اور جدھر جدھر جاتا ہے اُدھر ہی توڑ پھوڑ کرتا اور آگ لگاتا جاتا ہے۔* * * * *
عشق کو الفاظ میں بیان کرنا خاصا مشکل بلکہ ناممکن کام ہے۔یہی وجہ ہے کہ عشق کے نام پر بیان کی گئی باتوں کے ایک بڑے حصّے میں اس کے سطحی اثرات کو بیان کرنے کے سِوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ عشق ایک حالت کا نام ہے اور اٍسے بیان کرنے والی زبان خود عاشق ہے۔* * * * *
عاشق ایک ایسا سرمست انسان ہے جو حق تعالیٰ کی محبت کو اپنا دین بنا کر اپنی زندگی کو حیرت‘ استعجاب اور اپنے محبوب کی تعریفوں کے احساسات سے سجا رکھتا ہے اور جو قیامت کا صور پھونکے جانے پر شاید ہی ہوش میں آ سکے۔* * * * *
عاشق ایک فوارے کی طرح ہے جو ہمیشہ اپنے ہی اندر سے پھوٹتا رہتا ہے۔* * * * *
فانی ہونے کے دکھ کو کم کرنے والی‘ دکھ درد میں اٹھنے بیٹھنے والی روحوں کے اضطرا رکی آگ کو ٹھنڈا کرنے والی صرف ایک ہی شے ہے اور وہ ہے حقیقی عشق ۔ جی ہاں ! سالہا سال سے ہمارے دردوں کا اور اُن بیماریوں کا جنہیں ہم لا علاج سمجھتے ہیں ‘ ہمارے خوف اور اندیشوں کا ‘ ہماری الجھنوں اور بحرانوں کا واحد درمان اوریکتا علاج محض عشق ہے۔* * * * *
علم و عرفان اور ہماری مروّجہ ثقافت کے ذریعے نسلِ انسانی کے احیاءکی کوششیں تو کی جا رہی ہیں مگرجب تک ہم لوگوں کے دلوں پر خواہ کم ہی سہی‘ عشق (الٰہی) کی چنگاریاں نہیں چھڑکتے تب تک یہ کوششیں نا کافی اور ناقص ہی رہیں گی اور کسی صورت میں بھی اُن کی مادیت کوزیر نہیں کر سکیں گی۔
No comments:
Post a Comment