Friday, 1 July 2011

آنکھیں،



جنھیں اب تم چاہا کرتے ہو! تم کہتے تھے مری آنکھیں، اِتنی اچھی، اِتنی سچی ہیں اس حُسن اور سچائی کے سوا، دُنیا میں کوئی چیز نہیں کیا اُن آنکھوں کو دیکھ کے بھی تم فیض کا مصرعہ پڑھتے ہو؟ تم کہتے تھے مری آنکھوں کی نیلاہٹ اتنی گہری ہے ’’مری روح اگر اِک بار اُتر جائے تو اس کی پور پور نیلم ہوجائے‘‘ مُجھے اتنا بتاؤ آج تمھاری رُوح کا رنگ پیراہن کیا ہے کیا وہ آنکھیں بھی سمندر ہیں؟ یہ کالی بھوری آنکھیں جن کو دیکھ کے تم کہتے تھے ’’یوں لگتا ہے شام نے رات کے ہونٹ پہ اپنے ہونٹ رکھے ہیں‘‘ کیا اُن آنکھوں کے رنگ میں بھی،یوں دونوں وقت مِلاکرتے ہیں؟ کیا سُورج ڈُوبنے کا لمحہ،اُن آنکھوں میں بھی ٹھہرگیا یا وہاں فقط مہتاب ترشتے رہتے ہیں؟ مری پلکیں جن کو دیکھ کے تم کہتے تھے اِن کی چھاؤں تمھارے جسم پہ اپنی شبنم پھیلادے تو گُزر تے خواب کے موسم لوٹ آئیں کیا وہ پلکیں بھی ایسی ہیں جنھیں دیکھ کے نیند آجاتی ہو؟ تم کہتے تھے مری آنکھیں یُونہی اچھی ہیں ’’ہاں کاجل کی دُھندلائی ہُوئی تحریر بھی ہو__تو بات بہت دلکش ہوگی!‘‘ وہ آنکھیں بھی سنگھار تو کرتی ہوں گی کیا اُن کا کاجل خُود ہی مِٹ جاتا ہے؟ کبھی یہ بھی ہُوا کِسی لمحے تم سے رُوٹھ کے وہ آنکھیں رودیں اور تم نے اپنے ہاتھ سے اُن کے آنسو خُشک کیے پھر جُھک کر اُن کوچُوم لیا وہ آنکھیں کیسی آنکھیں ہیں

No comments:

Post a Comment