Sunday 27 February 2011

HALAAL O HARAAM



ایک سرکاری افسر جس کی حقیقی تنخواہ سات، آٹھ ہزار ہو لیکن اُس کے گھر کا خرچہ ساٹھ، ستر ہزار ہو اور آپ اُس کو کہیں کہ ”وہ حرام کھا رہا ہے“۔ وہ اِس طرح چونک اُٹھے گا جیسے اُس کو کسی نے کھینچ کر پتھر مارا ہو۔ وہ یہ سمجھ نہ سکے گا کہ معیشت، روزگار، معاملات میںحلال وحرام کا تذکرہ کہاں سے آگیا۔ اللہ ورسول، آخرت جیسے مقدس وبابرکت لفظ تو فقط مساجد، نماز اور مذہبی محفلوں میں اچھے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا لین دین اور کاروباری زندگی میں تذکرہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ بعض لوگ تو واضح، ننگے لفظوں میں یہ کہتے ہیں کہ ”کاروبار اور معاملہ آپ کے اور میرے درمیان ہے۔ اِس میں آپ اللہ ورسول کو مت داخل کریں“۔

کیا آپ یہ باور کر سکتے ہیں کہ اللہ ساری انسانیت کو پیدا کرے اُن کی مکمل ضروریات زندگی کو احسن انداز میں مکمل کرے، اپنی حکمتوں ومصلحتوں کے مطابق لوگوں کی روزی میں کمی وبیشی کا بھی مالک ہو لیکن جب وہ کسی حلال کو حلال قرار دے اور حرام کو حرام قرار دے تو اُس کی بات ماننے سے انکار کر دیا جائے۔ انکار بھی ایسا کہ جس میں اللہ کی حیثیت کو چیلنج ہو کہ اللہ کا اِس معاملے سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ آج کتنے ہی لوگ ہیں جو اُس بنک یا ادارے کو ڈھونڈتے ہیں جوزیادہ سے زیادہ سود دیتا ہو۔ اور جب اُن کو سمجھایاجائے تو بجائے افسوس، شرمندگی اور ندامت کے گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ کئی قوم کو نوچنے اور لوٹ کھسوٹ والے، ایسے لوگ ہیں جو بوگس سرکاری سکولوں میں ٹیچر بھرتی ہوئے اور وہ ساری زندگی مُفت کی تنخواہیں لیتے رہے اور بجائے افسوس وندامت کے فخر سے اپنا حال بتلاتے ہیں کہ ”جی ہم تو بڑے مزے میں ہیں، فلاں جگہ سے بھی دو چار ہزار مار لیتے ہیں اور سکول کی تنخواہ تو مفت کی لگی ہوئی ہے“۔ اور لعنت وپھٹکار ہو اُن بدبخت لوگوں پر جو رشوت لیتے ہیں اور اُس کو فضل رَبّی قرار دیتے ہیں۔ اِن لوگوں نے عظیم وکریم، باجبروت وملکوت، عرش عظیم کے رب، محسن حقیقی، رب العزت کی عظمت کو کیا پہچانا؟ اُس مالک حقیقی، خالق ارض وسماءکے سامنے ساری زندگی بھی سجدے میں پڑے رہتے تو اللہ کی عظمت کا حق ادا نہ ہوتا۔ لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ جیسی عظیم ہستی کو کانٹوں پر گھسیٹا۔ اپنے زبانی کلامی چٹخاروں کیلئے اُس کے مقدس احکامات کا مذاق اُڑایا۔ رشوت کو فضلِ رَبّی قرار دیا۔

اللہ تعالیٰ حلال وحرام کا حاکم ہے۔ وہ جس چیز کو حلال قراردے اُس کو دُنیا کی کوئی طاقت حرام قرار نہیں دے سکتی اور وہ جس چیز کو حرام قرار دے اُس کو کوئی چیز حلال قرار نہیں دے سکتی۔

یایھا الناس کلوا مما فی الارض حلالاً طبیاً

”اے لوگو! کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال اور پاکیزہ ہے“۔

ولا تقولوا لما تصف السنتکم ھذا حلال وھذا حرام

”اور نہ کہو جو تمہاری زبانیں خود گھڑ لیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے“۔

یایھا الذین آمنوا لا تحرموا طیبات ما احل اللّٰہ لکم

”اے ایمان والو! اللہ کی حلال کردہ پاکیزہ چیزوں کو حرام قرار نہ دو“۔

واحل اللّٰہ البیع وحرم الربوا

”اللہ نے خرید وفروخت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے“۔

اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حلال وحرام کو تسلیم کرنا، ایمان کے لوازمات اور مستقل ضروریات میں سے ہے۔ اللہ کے کسی ایک حلال وحرام سے انکار کرنا، اللہ تعالیٰ سے عبد ومعبود والے رشتے کو یکسر توڑ دیتا ہے۔ افسوس کہ آج مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد حلال وحرام کی نہ صرف مُنکر ہے بلکہ باغی ہے۔ استخفاف دِین، استکبار اور استہزاءاُن کا شیوہ ہے۔

حلال وحرام کا اقرار ایمان کا قطعی لازم اور تقاضا ہے:

اللہ ورسول پر ایمان لانے والا، آمنت باللّٰہ کے کلمات دُہرانے والا، جب تک اللہ تعالیٰ کے حلال وحرام کو دِل سے تسلیم نہ کر لے وہ مومن نہیں ہو سکتا۔ جس طرح اللہ خالق، مالک اور رازق ہے اِسی طرح وُہ حاکم بھی ہے۔ اُس کی حاکمیت کا اقرار کئے بغیر کوئی بندہ ایمان کی خوشبو بھی نہیں پا سکتا۔

آج بے شمار لوگ ہیں جو اِسلام کے ایک دواحکام کو رد نہیں کرتے بلکہ زندگی کے بہت بڑے حصے سے اِسلام کوبے دخل کر دیتے ہیں۔ اور یہ بے دخلی، گناہ اور معصیت کی ذہنیت سے نہیں ہوتی بلکہ اُن کا یہ نظریہ ہوتا ہے کہ دین کا دُنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ بعض وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ دین اور سیاست کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اسلام ہمارا مذہب ہے فقط اور مذہب کا کاروبار ومعیشت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تمام اُمور سیکولرزم کی ہی چھوٹی یا بڑی شاخیں ہیں۔

اللہ نے یہود کے کفر کی چار حرکتیں بیان کی ہیںجن کی بنا پر صحابہ نے یہود سے جنگیں کیں۔ اُن چار حرکتوں میں سے ایک حرکت یہ تھی کہ وہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے تھے۔

قاتلوا الذین .... ولا یحرمون ما حرم اللّٰہ ورسولہ ولا یدینون دین الحق (توبہ: ٢٩)

”اُن سے جنگ کرو .... اور نہ اُس کو حرام قرار دیتے ہیں جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا اور نہ دِین حق کو قبول کرتے ہیں“۔

ضروریات وقطعی مسلماتِ دین میں سے کسی ایک چیز کا انکار کُفر کہلاتا ہے۔ اور یہ انکار عام طور پر کسی علمی شبہے کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ استکبار، کراہت دین کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی کہے کہ ”میں نماز کو فرض نہیں سمجھتا“ یہ انکار کلمہء کفر ہے جو کسی علمی اشکال کی بنیاد پر نہیں بلکہ فقط دِین سے نفرت، کراہت اور تکبر کا اظہار ہے۔ اور دین سے کراہت ونفرت، استکبار واستہزاءکھلا کفر ہے۔ سورہ محمد میں تین دفعہ یہ مذکور ہوا ہے کہ مدینے کے منافقوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا۔ صرف اِس وجہ سے کہ انہیں اللہ کی نازل کردہ شریعت سے نفرت تھی۔ انہیں اللہ کی رضا طلبی سے نفرت تھی۔ اللہ نے اِن ظالموں پر پھٹکار برسائی اور اِن کے سارے اعمال ضائع کر دیے جو کُفر کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے۔

والذین کفوا فتعساً لھم واضلّ اعمالھم ذلک بانھم کرھوا ما انزل اللّٰہ فاحبط اعمالھم (محمد: ٨، ٩)

”جنہوں نے کفر کیا اُن پر افسوس ہے اور اللہ نے اُن کے اعمال کو رائیگاں کردیا یہ اُس وجہ سے تھا کہ انہوں نے اللہ کی نازل کردہ (شریعت) سے نفرت کی لہٰذا اللہ نے اِن کے اعمال ضائع کردیئے“۔

اولئک الذین کفروا بآیات ربھم ولقائہ فحبطت اعمالھم فلا نقیم لھم یوم القیامہ وزنا۔ ذلک جزائوھم جھنم بما کفروا واتخذوا آیاتی ورسلی ھزوا (کہف: ١٠٥، ١٠٦)

”یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں کا انکار کیا اور اُس کی ملاقات کا انکار کیا پس اُن کے اعمال ضائع ہو گئے ہم قیامت کے دِن اُن کیلئے ترازو ہی نہیں رکھیں گے۔ یہ جہنم اُن کی جزا ہے اِس وجہ سے کہ اِن لوگوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور رسولوں کوہنسی مذاق کا سامان بنایا“۔

وما تاتیھم من آیت من آیاتِ ربھم الا کانوا عنھا معرضین۔ فقد کذبوا بالحق لما جاءھم فسوف یاتیھم انباءما کانوا بہ یستھزؤن (انعام: ٤، ٥)

”اُن کے پاس اُن کے رب کی طرف سے جو بھی نشانی (حکم الٰہی) آتا ہے وہ اُس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ انہوں نے اُس سچی بات کو جھٹلا دیا جو اُن کے پاس آچکی تھی اب اِن کے پاس اُس (عذاب) کی خبریں ظاہر ہونگی جس کا یہ لوگ مذاق اُڑایا کرتے تھے“۔

مادہ پرست حرام خور کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں:

اللہ تعالیٰ نے حرام خوروں کے مختلف تذکرے میں مختلف وعیدوں کا تذکرہ فرمایا۔ کسی جگہ فرمایا کہ یتیم کا مال کھانے والے اپنے پیٹ میں آگ کے انگارے بھرتے ہیں۔ کسی جگہ فرمایا کہ زکوٰت ادا نہ کرنے والوں کا سونا چاندی گرم کرکے اِن سرمایہ داروں کے جسموں پرداغا جائے گا۔ کسی جگہ سود خوروں کو مقابلہ کیلئے للکارا گیا۔ بعض مقامات پر شراب اور جوئے کو پلید قرار دیا گیا اور شیطانی عمل بتلایا گیا۔

لیکن اِن شدید ترین وعیدوں کے باوجود ہم یہ کہیں گے کہ موجودہ مادہ پرست حرام خور کے متعلق سب سے شدید وعید یہ ہے کہ اِن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ مادہ پرست حرام خور کا جرم مفرد نہیں بلکہ مرکب ہے۔ اِن کے دو جرم ہیں۔

ا) مادہ پرستی۔ شریعت سے کامل اعراض۔ آخرت کی طلب سے کامل اِعراض۔

ب) حرام خوری میں انہماک اور حرام خوری کو اوڑھنا بچھونا بنانا۔


ایک مخلص مومن بھی بعض اوقات ایسے اعمال سرانجام دیتا ہے جو فقط دُنیوی غرض کے تحت ہوتے ہیں۔ اِسی طرح مخلص مومن کے حلال رزق میں بھی حرام کے تھوڑے یا زیادہ ذرات موجود ہوتے ہیں۔ لیکن مادہ پرست حرام خور اِن دونوں امور میں مخلص مومن سے جدا ہوتا ہے۔ مادہ پرست کی ساری زندگی، شریعت وآخرت سے اِعراض پر مشتمل ہوتی ہے اور حرام خوری اُس کی زندگی کا وصفِ خاص ہوتی ہے۔ جبکہ مخلص مومن کا معاملہ اِس طرح نہیں ہوتا۔

پچھلی بحث میں ہم نے شریعت وآخرت کے انکار اور استکبار کا تذکرہ کیا، جو شریعت وآخرت کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اِس بحث میں ہم لفظ ”اعراض“ پر کچھ روشنی ڈالیں گے۔ شریعت وآخرت سے کامل اعراض کفر ہے۔ اِس سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی معمولی سے معمولی رشتہ بھی برقرار نہیں رہتا۔

کفرِ اعراض یہ ہے کہ شریعت وآخرت سے مستقل طور پر رُخ پھیر لیا جائے نہ تو شریعت وآخرت کے ساتھ قلبی محبت ہو اور نہ نفرت۔ نہ تصدیق ہو اور نہ تکذیب۔ نہ شریعت وآخرت کے ساتھ دوستی ہو اور نہ ہی دشمنی۔ نہ شریعت وآخرت کو سیکھنے اور سمجھنے کا رجحان ہو اور نہ ہی عمل۔ بلکہ ایک عمیق ومہیب سرد مہری اور بے حسی ہو۔ دُنیا کا اِس قدر انہماک ہو کہ فکر وعمل کا کوئی گوشہ شریعت وآخرت کیلئے باقی نہ بچے۔ موت، عذاب، آخرت، قیامت، نیکی بدی کی کشمکش کے متعلق دِل میں کوئی حرکت اور ولولہ نہ ہو۔ اسلام پسندوں کی کامیابی اور ناکامی کے ساتھ کوئی دلچسپی نہ ہو۔ صرف اور صرف مال، اولاد، گھریلو تنعّمات وآرام پسند زندگی ہی مطمع نظر ہو۔ اِسلامی اُمور کے متعلق تذکرہ ہو تو ذہن اِدھر اُدھر بھٹک جائے یا نظریں خلاؤں میں گردش کرنے لگ جائیں۔ یا دِل میں یہ سوچ پیدا ہو کہ کس محفل میں پھنس گیا ہوں؟

کفرِ اعراض میں شریعت سے کامل اعراض ہوتا ہے۔ یعنی حلال وحرام کی تمیز تو ایک طرف رہی۔ وہ نماز، روزہ اور زکوٰت کا بھی تارک ہوتا ہے۔ حرام خوری کی بَلا تو ایک بَلا ہے وُہ کئی بلاؤں کا شکار ہوتا ہے جس میں فحاشی، قلب ونظر کی لذات، بے دین سیاست میں حصہ، کاروباری زندگی میںجوڑ توڑ وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔ کفر اعراض میں آخرت سے بھی کامل اعراض ہوتا ہے یعنی زندگی بھر کبھی اِتنی فرصت میسر نہیں آتی کہ کچھ اعمال خالص اللہ کی رضا کیلئے بھی کرلے یا کوئی عمل آخرت کیلئے بھی ذخیرہ کرلے۔

ومن اظلم ممن ذکر بآیات ربہ فاعرض عنھا و نسی ما قدمت یداہ انا جعلنا علے قلوبھم اکنہ ان یفقھوہ وفی اذانھم وقراً (کہف: ٥٧)

”اُس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہے جس کو اُس کے رَب کی نشانیاں (احکام) بتلائے گئے پھر بھی اُس نے منہ موڑا (دلچسپی نہ لی) اور بھول گیا جو اُس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا۔ ہم اِن کے دِلوں پر غلاف چڑھا دیں گے تاکہ یہ سمجھ نہ سکیں اور اِن کے کانوں میں بوجھ ڈال دیں گے (تاکہ یہ نصیحت نہ سن سکیں)“۔

کذلک نقص علیک من انباءما قد سبق وقد اتیناک من لّدنّا ذکراً۔ من اعرض عنہ فانّہ یحمل یوم القیامہ وزراً۔ خلدین فیہ وساءلھم یوم القیامہ حملاً (طہ: ٩٨۔ ١٠٠)

”اِسی طرح ہم تجھ پر پچھلی قوموں کی خبریں بیان کیا کرتے تھے۔ اور ہم نے اپنی طرف سے نصیحت بھی بھیجی جو اِس نصیحت (دین) سے منہ موڑے گا۔ قیامت کے دِن بوجھ اُٹھائے گا۔ اُس میں ہمیشہ رہے گا اور قیامت کا دِن اُن کیلئے بوجھ کے اعتبار سے بُرا ہوگا“۔

ومن اظلم ممن ذکر بآیات ربہ ثم اعرض عنھا۔ انا من المجرمین منتقمون (سجدہ: ٢٢)

”اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہے جس کو ہماری نشانیاں بتلائی گئیں پھر اُس نے منہ موڑا (دلچسپی نہ لی) ہم ایسے مجرموں سے انتقام لینگے“۔

ما خلقنا السماوات والارض وما بینھما الا بالحق واجل مسمی والذین کفروا عما انذروا معرضون (احقاف: ٣)

”ہم نے سارے آسمانوں اور ساری زمین کو ایک مقصد اور ایک مقرر مدت کیلئے پیدا کیا اور کافر لوگ اُس ڈرائی گئی (قیامت سے) منہ پھیرنے والے ہیں“۔

مادہ پرست حرام خور کی ساری زندگی ”دُنیا“ کے اردگرد ہی گھومتی ہے اور آخرت کے ساتھ نہ کوئی دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی فکر وعمل کی کوئی لہر آخرت کیلئے اٹھتی ہے۔ انہی کے بارے میں قرآن کا یوں ارشاد ہے:
”جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اُس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں اور جو دُنیا کی کھیتی چاہتا ہے اُسے دُنیا ہی میں سے دے دیتے ہیں مگر آخرت میں اُس کا کوئی حصہ نہیں ہے“۔

من کان یرید الحیوت الدنیا وزینتھا نوف الیھم اعمالھم فیھا و ھم فیھا لا یبخسون۔ اولئک الذین لیس لھم فی الآخرت الا النار وحبط ما صنعوا فیھا وباطل ما کانوا یعملون (ھود: ١٦)

”جو صرف دُنیا کی زندگی چاہتا ہے اور اس کی شان وشوکت۔ ہم اس کے اعمال کا بدلہ دُنیا میں ہی پورا کر دینگے اور کمی نہ کرینگے۔ (لیکن) یہی لوگ ہیں اِن کا آخرت میں جہنم کے علاوہ کوئی حصہ نہیں۔ اور ضائع ہو گیا جو یہ (محنت) کرتے تھے اور رائیگاں ہو گیا جو یہ عمل کرتے تھے“۔

ومن الناس من یقول ربنا اتنا فی الدنیا حسنہ ومالہ فی الآخرہ من خلاق

”لوگوں میں سے جو یہ کہتا ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں صرف دُنیا میں ہی خوشیاں دے تو اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں“۔

مادہ پرست حرام خوروں کا دوسرا وصف یہ ہے کہ حرام خوری اُن کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے۔ وہ حرام خوری کے سرگرم کارکن ہوتے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک مخلص مومن کی روزی کا ایک حصہ حرام پر مبنی ہو لیکن یہ ممکن نہیں کہ مومن کا اوڑھنا بچھونا، اول وآخر، ساری بھاگ دوڑ حرام روزی ہو۔ اور جن لوگوں کی زندگی سراسر حرام روزی کے اردگرد گھومتی ہے، اُن کی زندگی سے سارا مذہب نابود ہو جاتا ہے۔ آپ نے کبھی دیکھا کہ سرمایہ داروں کو کال گرلز سپلائی کرنے والا نماز پڑھتا ہو۔ کھیلوں اور گھوڑوں کی ریس میں شرطیں لگا کر لاکھوں روپے جیتنے یا ہارنے والا مذہب سے محبت رکھتا ہو۔ دو باریک کپڑے کے چیتھڑے پہن کر رقص کرنے والی فاحشہ نماز کی پابند ہو۔ نیم عریاں لباس پہن کر اولمپک گیمز میں حصہ لینے والی نام نہاد مسلم خاتون عام زندگی میں مذہبی خاتون ہو۔ مسلم معصوم معاشرے میں ننگی فلموں کے نیٹ ورک کی سرپرستی کرنے والے اور فحاشی کو پھیلانے والے خوفِ خدا رکھتے ہوں۔ انڈر ورلڈ میں چھٹے ہوئے غنڈوں کی سرپرستی کرنے والے سیاستدان نیک اور دیندار ہوں۔ مذہبی حلقوں میں دہشت گردی کرانے والے بدمعاش نما سیاسی لیڈر انسانیت اور کسی مذہب کے خیر خواہ ہوں۔

کیا آپ کا مشاہدہ ہے کہ بوگس ہاؤسنگ سکیم کے ذریعے غریب عوام سے کروڑوں روپے لوٹ کر غائب ہونے والے مذہبی اور دیندار ہونگے۔ جعلی ویزوں کے کاروبار میں سینکڑوں لوگوں کو دھوکہ دینے والے مذہبی ہونگے۔ قوم کا کروڑوں کا خزانہ لوٹنے والے اور معاف کرانے والے دِلوں میں کافی خوف خدا رکھتے ہونگے۔

کیا آپ سوچ سکتے ہیں کروڑوں کی فیکٹری کو خود آگ لگا کر انشورنس کمپنی سے پیسے اینٹھنے والے متقی اور پرہیز گار ہونگے۔ غریب مزارعین کے گھروں سے عورتوں کو اٹھوا لینے والے جاگیردار مذہبی ذہنیت رکھتے ہونگے۔

اللہ تعالیٰ نے کافر منافقوں کا وصف بیان کیا ہے کہ وہ حرام کھانے میں سرگرم ہوتے ہیں۔ کسی مومن کا ایسا وصف بیان نہیں ہوا۔

تریٰ کثیراً منھم یسارعون فی الاثم والعدوان واکلھم السحت (مائدہ: ٦٣)

”تو اُن میں سے اکثر کو دیکھیے گا کہ وہ گناہ، دشمنی اور حرام خوری میں سرگرم ہونگے“۔

ایسے حرام خوروں کو زندگی بھر نیکی، راستی اور بھلائی کے راستے کو اپنانے کی توفیق نہیں ہوتی۔ الا یہ کہ اللہ کسی پر خصوصی رحمت فرمائے۔

بلی من کسب سیئہ واحاط بہ خطیئتہ فاولئک اصحاب النار ھم فیہا خالدون (بقرہ: ٨١)

”کیوں نہیں جس نے (ساری زندگی) بُرائیاں کمائیں اور اُس کے گناہوں نے اُس کو چاروں طرف سے لپیٹ لیا (یعنی نیکی، بھلائی اور خیر خواہی کی کوئی جگہ باقی نہ رہی) یہی لوگ جہنمی ہیں، اس میں ہمیشہ رہیں گے“۔

حلال رزق کے بغیر اللہ سے تعلق ممکن نہیں:

ایک مذہبی انسان کی زندگی اللہ تعالیٰ کی ذات کے اردگرد ہی گھومتی ہے۔ سو رہا ہے تو اللہ کو یاد کر رہا ہے، نیند سے بیدار ہو رہا ہے اللہ کو یاد کر رہا ہے، اہل خانہ سے شفقت وعنایت کا سلوک کر رہا ہے تو اللہ کا تصور اور اُس کی رضا دِل میں ہے۔ دُکان پربیٹھا ہے تو اللہ پر توکل اور تکیہ کرکے بیٹھا ہے اور اُس سے ہی رزق کی آس لگائے بیٹھا ہے۔ اچانک کسی پریشانی، تکلیف، بلا میں مبتلا ہو گیا تو اللہ سے ہی رَو رَو کر التجائیں کر رہا ہے۔ مصیبت ٹل گئی تواللہ کے سامنے تشکر کے چمکتے، اُبلتے آنسو بہاتا ہے اور اُس کی حمد وثناءسے زبان نہیں تھکتی۔ یہ خالص مذہبی کیفیات وجذبات حلال روزی کے بغیر حاصل نہیں ہوتے۔

اللہ مصیبت ڈالتا ہے اور اللہ ہی مصیبت سے چھٹکارا دِلاتا ہے یہ کوئی افسانہ یا منہ کی کہی بات نہیں۔ کائنات کی ازلی وابدی حقیقت ہے۔ اور دُعا اللہ سے مناجات، محبت، تعلق اور رشتے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اگر کسی انسان پر پابندی لگا دی جائے کہ تو نے اللہ سے دُعا نہیں مانگنی تو اُس کے دامن میں اور زندگی میںامن وسلامتی اور خوشی ومسرت کیلئے کچھ نہ رہے گا۔ مذہبی زندگی، نیکی بھلائی اور تقوے والی حَیات کا دُعا کے بغیر کوئی تصور نہیں۔ اور حرام خور کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ذریعے کہلوا دیا کہ حرام خور کی دُعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ وہ دُعائیں چاہے سونے جاگنے کی ہو یا نماز میں داخل ہوں۔مسجد میں داخل ہونے یا نکلنے سے متعلق ہوں، قضائے حاجت، خورونوش سے متعلق ہوں یا دُنیا وآخرت کی بھلائیوں سے متعلق ہوں، روزے، زکوٰت کی قبولیت کے متعلق ہوںیا شیطان اور آفتوں سے پناہ کے متعلق ہوں۔ حرام خور کی دُعائیں قبول نہیں ہوتیں۔

مسلم شریف کی حدیث ہے نبی اکرم نے فرمایا:

”اللہ تعالیٰ پاکیزہ ہے وہ پاکیزہ چیز کو ہی قبول کرتا ہے اور بے شک اللہ نے مومنوں کو اُسی چیز کا حکم دیا جو اُس نے رسولوں کو حکم دیا (یعنی حلال کھانا) .... پھر آپ نے ایک آدمی کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے۔ پراگندہ اور غبار آلود بالوں والا ہے۔ اپنے ہاتھوں کوآسمان کی طرف پھیلا کر کہتا ہے۔ اے میرے رب، اے میرے رب۔ اُس کی دُعا کیسے قبول ہو حالانکہ اُس کا کھانا حرام کا ہے اُس کا پیناحرام کا ہے اور اُس کا لباس حرام کا ہے اور اُس کو حرام کی غذا دی جاتی ہے“۔ (مشکوٰہ۔ کتاب البیوع۔ باب الکسب وطلب الحلال) [حرام خور کی دُعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ لیکن حرام خور کی نمازوں اور روزوں کی عدمِ قبولیت کے متعلق ہمیں کوئی صحیح، صریح نص نہیں ملی۔ عام طور پر یہ مشہور ہے کہ حرام کھانے والے کی کوئی عبادت قبول نہیں۔ یہ بات غلط ہے۔ نماز اور روزے بدنی عبادتیں ہیں جو صرف دُعاؤں پر مشتمل نہیں لہٰذا نماز وروزے کی عدم قبولیت کو دُعاؤں پر قیاس نہیں کرنا چاہئے۔ البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نماز روزے کا مقصد تقویٰ اور دِل کا نرم ورقیق ہونا ہے۔ اگر نماز و روزے کے باوجود انسان حرام روزی کو نہ چھوڑے تو اُس عبادت میں اِخلاص وللہیت کس طرح ہو سکتی ہے۔]

حرام خور کا کوئی مالی صدقہ اللہ کے ہاں شرف قبولیت نہیں پاتا۔ اِس بارے میں قرآن کی نصوص بھی موجود ہیں اور احادیث شریفہ بھی۔

یایھا الذین آمنوا انفقوا من طیبات ماکسبتم ومما اخرجنا لکم من الارض ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون ولستم باخذ یہ الا ان تغمضوا فیہ (بقرہ: ٢٦٧)

”اے ایمان والو اپنی حلال وپاکیزہ کمائی میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو .... اور گندی اور پلید چیز کا قصد نہ کرو۔ کہ اُس سے تم خرچ تو کرتے ہو حالانکہ تم خود اُس کو قبول نہیں کرتے۔ اِلاّ یہ کہ چشم پوشی کرو“۔

اِسی طرح متفق علیہ حدیث ہے:

ولا یقبل اللّٰہ الا الطیب (مشکوٰہ۔ کتاب الزکوٰت۔ باب فضل الصدقہ)

”اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ اور حلال چیز کو ہی قبول کرتا ہے“۔

اِن نصوص سے ثابت ہوتا ہے کہ حرام خور کا کوئی صدقہ قبول نہیں ہوتا۔ اِسی طرح جو لوگ عید الاضحی کے موقع پر حرام روزی سے موٹے تازے بکرے خریدتے ہیں اُن کی قربانی قبول نہیں ہوتی۔

اور جو حرام کمائی سے حج کرنے جاتے ہیں، اُن کا بھی غالب امکان ہے کہ اُن کا حج قبول نہیں ہوتا کیونکہ اُن کے سفر کے اخراجات اور رہائش خوراک حرام کمائی سے ہوتا ہے۔

حرام کمائی سے معاشرہ میں ظلم وفساد پھیلتا ہے:

حرام کمائی صرف ایک مذہبی جرم نہیں بلکہ یہ معاشرہ کے اندر ظلم، فساد، بدامنی اور تشدد کا ایک ذریعہ ہے۔ حرام کمائی سے اولاً اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں۔ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اِنسان اپنے پاؤں پر بھی کلہاڑی مارتا ہے اور اپنے بھائیوں کا بھی گلا کاٹتا ہے۔ بظاہر بے ضرر نظر آنے والی حرام کمائیاں بھی اپنے نتیجہ میں ظلم اور فساد کے سوا کچھ نہیں۔

وڈیو فلمیں / فحش موویاں بیچنے والا صرف حرام نہیں کماتا بلکہ ایک ایسی آگ لگاتا ہے جس کی زد میں کئی انسان وحشی جانور بنکر معصوم بچیوں پر ظلم کرتے ہیں اور یہ ظلم صرف زنا سے ہی نہیں پیار ومحبت کے ناٹک سے بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے معصوم لڑکی کی نفسیات بگڑ جاتی ہے اور اُس کی آئندہ ازدواجی زندگی بھی شکوک وشبہات کی نذر ہو جاتی ہے۔

سگریٹ بیچنے والے صرف حرام ہی نہیں کماتے بلکہ قوم وملت کے کروڑوں روپے تمباکو میں جلانے کے مرتکب ہوتے ہیں جس سے کمزور اور دمہ والی مخلوق جنم لیتی ہے۔

رشوت لیکر کام کرنے والا سرکاری افسر صرف حرام نہیں کھاتا بلکہ اُس معصوم بے گناہ انسان سے رِزق کا لقمہ بھی چھین لیتا ہے جو گاڑھی محنت کی کمائی سے چند روپے کماتا ہے۔

حکومت کے تعمیراتی فنڈ میں گھپلا کرنے والا صرف حرام نہیں کھاتا بلکہ ناقص پل، عمارتیں بنا کر سینکڑوں لوگوں کی جان کو بھی ہلاکت میں ڈالتا ہے۔

اِسی طرح سے ہر حرام کمائی کی تہہ میں ظلم، بربریت، بے گناہوں کا خون، تشدد اور نفرت انگیز منظر ملے گا۔ اِسی لئے اللہ تعالیٰ نے شریعت کی نافرمانی کو ”فساد فی الارض“ قرار دیا ہے۔

فساد صرف یہی نہیں کہ خون کی ندیاں بہیں، چوری اور ڈکیتی ہو، خانہ جنگی اور مذہبی لوگوں کی قتل وغارت ہو۔ بلکہ یہ بھی فساد ہے کہ کلرک رشوت کے بغیر کوئی کام نہ کرے، پروفیسر و لیکچرر کالج کی بجائے اپنی کوٹھی پر ٹیوشن پڑھانے میں زیادہ دلچسپی رکھے، سرکاری ڈاکٹر سرکاری ہسپتال میں بیٹھ کر مریضوں کا صحیح علاج کرنے کی بجائے اپنی کوٹھی پر بلائے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس (الروم: ٤١)

”خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہو گیا، اس وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمائی کی“۔

وما اصابکم من مصیبہ فبما کسبت ایدیکم (شوری: ٣٠)

”تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی سے ہے“۔

ومن یکسب اثماً فانما یکسب علے نفسہ (نساء: ١١١)

”جو گناہ کماتا ہے وہ اپنی جان کے خلاف گناہ کماتا ہے“۔

دُنیا کے اندر حرام خوری کس قدر قابلِ نفرت اور قبیح ہے کہ وہ ظلم وستم کے علاوہ کچھ نہیں۔ لوگ حرام خوری کرکے اپنے ہی ملک وملت اور معاشرے پر ظلم کرتے ہیں۔ جس شاخ پر بیٹھتے ہیں، اُسی کو ہی کاٹتے ہیں تاکہ دوسروں کے ساتھ ساتھ خود بھی دھڑام سے نیچے گر کر چکنا چور ہو جائیں۔

حرام خوری کی سزا دُنیا میںبھی ملتی ہے لیکن اِس کی اصل سزا تو آخرت میں ہوگی اور آخرت مظلوموں کیلئے اور اذیت دیئے گئے مذہبی لوگوں کیلئے ایک دلکش ترانہ ہے جب ظلم کا حساب ہوگا اور دُنیا میں مشقت جھیلنے والوں کو اُن کی مزدوری دی جائے گی۔

کتب علے نفسہ الرحمہ لیجمعنکم الی یوم القیامہ (انعام: ١٢)

”اللہ نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر دیا کہ وہ ضرور تم کو قیامت کے دِن جمع کریگا (یعنی یہ آخرت مظلوموں اور ستائے ہوئے مذہبی لوگوں کیلئے رحمت ہوگی)“۔

حرام خور کے ساتھ معاشرتی تعلقات (چند فقہی مسائل):

کسی بھی فاسق فاجر انسان سے معاشرتی تعلقات رکھنا اُس وقت جائز، افضل اور مستحب ہیں جب اُس کی اصلاح و خیر خواہی کی نیت اور کوشش ہو۔ کسی اُخروی مقصد یا شرعی ضرورت کے بغیر فقط تفریحی غرض سے فاسق فاجر کے ساتھ تعلقات رکھنا مکروہ ہے اور الحب للّٰہ والبغض فی اللّٰہ کے خلاف ہے۔

یہی صورتحال حرام خور لوگوں کی ہے۔ شرعی ضرورت اور ناگزیر دُنیوی حاجت کے بغیر حرام خور سے تعلقات پالنا ناپسندیدہ ہے۔ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ حرام خور کا ایک زائد حکم بھی ہے جو عام فاسق فاجر سے جُدا ہے۔ وہ زائد حکم یہ ہے کہ حرام خور کی حرام کمائی والے تحائف قبول کرنا، دعوتِ ولیمہ قبول کرنا، دینی اُمور کیلئے چندہ لینا وغیرہ جائز ہے؟ اِس بارے میں اہل علم نے زیادہ سوچ وبچار کی ضرورت نہیں سمجھی حالانکہ یہ دورِ حاضر کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ خصوصاً جبکہ اِس بارے میں بعض لوگ بہت متشدد اور بعض بہت متساہل ہیں۔ حرام خور کے مالی تحائف وصدقات کی قبولیت کو ہم درج ذیل اُمور میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

(1 جِس شخص کی صدفی صد کمائی حرام کی ہو۔ مثلاً وہ فحش فلموں کا پروڈیوسر ہو، سرکاری افسروں کی رشوت کا دلال ہو، ایسے بنک کا ملازم ہو جس کا سارا کاروبار سودی ہو وغیرہ۔ ایسے شخص سے تحائف قبول کرنا، صدقات قبول کرنا قطعاً حرام ہے۔ اور ہم نے اِس بارے میں فقہاءکا کوئی اختلاف نہیں پایا۔ ایسے شخص کی کمائی شرعی طور پر مضرات کا سبب بنتی ہے۔ وہ مذہبی لوگوں کی خدمت کو احسان جتلانے، سیاسی یا دنیوی اغراض کے حصول کا ذریعہ بناتا ہے۔

(2 جس شخص کی کچھ کمائی حلال کی ہے اور کچھ کمائی حرام کی ہے تو غالب مقدار کا اعتبار کیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ فحش فلموں کی دُکان کی کمائی کی کیفیت اُس دیندار کریانہ سٹور والے کی کمائی سے مختلف ہے جو گھی، دالیں، چینی کے ساتھ ساتھ سگریٹ بھی بیچ رہا ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حلال کمائی میں ایک قطرہ حرام کا شامل ہو جائے تو ساری کمائی فاسد ہو جاتی ہے اور ایسی فاسد کمائی والے سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہیے۔ یہ نظریہ شرعی دینی لحاظ سے بھی انتہائی تباہ کن ہے اور بلا دلیل ہے۔ اور دُنیوی بصیرت کے اعتبار سے بھی ناروا تشدد ہے۔ اہل علم کی تصریحات میں اِس قسم کی کوئی بات نہیں ملتی۔

فقہائے حنابلہ نے اپنے ایک قول میں لکھا ہے کہ جس شخص کی کمائی جس قدر زیادہ حرام مقدار پر مبنی ہوگی اُسی قدر اُس کا ہدیہ وغیرہ قبول کرنا مکروہ ہوگا۔

وقال الحنابلہ: تکرہ اجابہ من فی مالہ حرام کاکلہ منہ ومعاملتہ وقبولہ ھدیتہ وھبتہ وصدقتہ وتقوی الکراھہ وتضعف بحسب کثرہ الحرام وقلتہ (منار السبیل۔ جلد ٢ ص ٢٠٥ الفقہ اسلامی وادلہ، جلد ٧ ص ١٢٦)

اُس کے مقابلے میں فقہائے احناف لکھتے ہیں کہ جس شخص کی کمائی کا اکثر حصہ حرام ہو تو اُس کا ہدیہ قبول کرنا حرام ہے۔ اگر اکثر حصہ حلال ہے تو اُس کا ہدیہ قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

ولا یجوز قبول ھدیہ امراہ الجو لان الغالب فی مالھم الحرمہ الاّ اذا علم انّ اکثر مالہ حلال (الفتاوٰی العالمگیریہ۔ جلد ٥ ص ٣٤٢)

فتاویٰ عالمگیری کے حاشیے میں فتاویٰ بزازیہ میں لکھا ہے:

غالب مال المھدی ان (کان) حلالا لا باس بقبول ھدیتہ واکل مالہ مالم یتعین انہ من حرام۔ وان (کان) غالب مالہ الحرام لا یقبلھا ولا یاکل الاّ اذا قال انّہ حلال ورثہ او استقرضہ (فتاویٰ بزازیہ۔ جلد ٦ ص ٣٦٠۔ کتاب الکراھیہ)

کتاب الفقہ علے المذاہب الاربعہ، عبدالرحمن الجزیری میں شافعیوں کے حوالے سے لکھا ہے:

ان لا یکون اکثر مال الداعی حراماً فان کان کذلک فان اجابتہ تکرہ فلو علم ان عین الطعام الذی یاکل منہ مال حرام یحرم ان یاکل منہ (کتاب الفقہ علے المذاہب الاربعہ۔ جلد ٢ ص ٣٨)

شافعیوں کا درج بالا نظریہ بھی حرام کی کثرت والے مال کے تحائف کو مکروہ قرار دے رہا ہے۔

ہمارا رحجان بھی اسی طرف ہے کہ اگر کسی شخص کی اکثر کمائی حرام کی ہے تو اُس کا ہدیہ، تحفہ، دعوت وغیرہ قبول کرنا جائز ہے اور پرہیز افضل ہے۔ البتہ اِس بات کا خاص دھیان رہے کہ اُس کا رویہ دین کے ساتھ اور دینداروں کے ساتھ کس طرح کا ہے۔ کیا یہ تعلق نفرت وحقارت کا ہے یا احترام ومحبت کا ہے؟ اگر اُس کا تعلق نفرت وحقارت کا ہوگا تو اُس سے ہدیہ وتحفہ، چندہ وغیرہ لینے میں کوئی دینی مصلحت نہیں کیونکہ وہ اللہ کا دشمن ہے اور اللہ کے احکام کا بدخواہ ہے۔

اور اگر اُس کا تعلق احترام ومحبت کا ہے تو ایسے شخص کا ہدیہ، تحفہ، چندہ وغیرہ اُس کی اصلاح، تزکیہ نفس اور نفس کی پختگی کا باعث بنے گا۔ اور ممکن ہے کہ وُہ دینداروں کی محبت سے فیضاب ہو کر اپنے کاروبار کی مکمل اصلاح کر لے۔

اِس ضمن میں یہ فقہی قول بھی کافی وزن رکھتا ہے کہ حرام کمائی کی قباحت شدید سے شدید تر ہوتی جائے گی اگر حلال روزی میں حرام کی مقدار بھی بڑھتی جائے گی۔

(3 اِس بارے میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کوئی شخص کسی حرام خور کے گھر کی تعمیر کرتا ہے یا اُس کے کپڑے سی کر دیتا ہے یا کوئی اور جائز خدمت سرانجام دیتا ہے تو وہ اپنی خدمت کا معاوضہ لے سکتا ہے اگرچہ معاوضہ دینے والا مکمل طور پر حرام خور ہو۔

حلال وحرام کے اِس مضمون میں ہم نے حتی المقدور جدوجہد اور محنت کے ذریعے صواب اور خیر خواہی کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے تاہم حقیقت کا کامل علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ اللہ کے علم کے مقابلے میں ہمارے علم کی کوئی حیثیت نہیں۔

سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت السمیع العلیم وتب علینا انک انت التواب الرحیم

No comments:

Post a Comment