زندگی کی سچائی


لفظ زندگی بہت سے لوازمات سے بھرپور ہے۔محبتیں، نفرتیں، عداوتیں، چاہتیں، تلخیاں اور اذیت ناک طوفان زندگی کے وہ نشیب و فراز ہیں جو قدم قدم پر اپنی تمام تر حقیقتوں کے ساتھ موجود ہیں۔ زندگی کیا ہے اس کی قدر فٹ پاتھ پر پڑا بے یارو مددگار ہاتھ پاؤں سے محروم شخص کی آنکھوں میں بھی جینے کی اُمنگ صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ جہاں زندگی خشیوں اور دلآویز مسکراہٹوں سے لبریز ہے تو وہاں غموں کے بے رحم موسموں سے بھی آشنا ہے۔ ہم کبھی زندگی اپنی زندگی پر رشک کرتے ہیں تو کبھی ماتم، کبھی زندگی کو غموں کے بوجھ سے تعبیر کرتے ہیں تو کبھی خواہشوں کے سمندر کو پالینے کو زندگی سمجھتے ہیں۔ ہر ایک زندگی کے بارے میں مختلف نظریات رکھتا ہے۔


مگر ایک نظر یہ پر سبھی متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ زندگی خوبصورت اور خدا کی طرف سے انسان کے لیے تحفہ ہے۔ زندگی میں دو جذبات بہت ہی اہمیت رکھتے ہیں ایک جذبہ محبت کا ہے تو دوسرا نفرت کا۔ نفرتیں پالنا بہت آسان ہے اور محبتیں بانٹنا بہت مشکل ہے۔ رشتوں کے تقدس کو پامال کرتی اور انسان کو انسان کا دشمن بنانے کا جذبہ نفرت کا ہے۔ نفرت سے ہم دوسروں کا ہی نقصان نہیں کرتے بلکہ خود اپنی شخصیت کی خوبصورتی کو بھی تہس نہس کر کے رکھ دیتے ہیں۔ نفرت کے زہر کو اپنے توانا جسم میں داخل کر کے مردہ بنا دیتے ہیں۔ ہم خود تو محبت کے طلب گار ہوتے ہیں، تو دوسروں کے لیے نفرتیں کیوں رکھتے ہیں؟



اسلام امن اور محبت کا مذہب ہے، جو اخوت اور محبت کا درس دیتا ہے، اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیشتر زندگی میں ظلم و ستم سہنے کے باوجود کبھی کسی سے نفرت نہیں کی بلکہ فتح مکہ کے موقع پر اپنے پیارے چچا کے کلیجے کو چبانے والی ابو سفیان کی بیوی ہندہ کو بھی معاف فرمادیا۔ ہم اپنی چھوٹی چھوٹی باتوں اور اپنی جھوٹی انا کی خاطر نفرتوں کی دیواریں ہائل کر لیتے ہیں جو مرتے دم تک قائم رہتی ہیں۔ دوسروں کی غلطیوں کو معاف کر کے دیکھیں آپ خود کو کتنا ہلکا پھلکا محسوس کریں گے ۔ نفرت مت کریں نفرت سے حاصل کچھ نہیں ہوتا مگر ہم دوسروں سے دور ضرور ہو جاتے ہیں۔ ہماری زندگی میں بے چینی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے کبھی محبت کی جذبے کو اپنی زندگی میں بڑھنے ہی نہیں دیا۔


ہم کبھی اپنی زندگی کا تنہائی میں محاسبہ کریں تو احساس ہوگا کہ ہم نے اپنی ذاتی تسکین یا کسی چیز کو پانے کے لیے کتنے رشتوں کو کچلا۔ کتنے لوگوں کے ارمانوں کو مسمار کر کے اپنی خواہشات کے محل بنائے۔ کیا کبھی کسی کے آنسوؤں کو اپنے دام میں سمیٹا یا پھر اس کے دکھوں میں مزید اضافہ کیا۔ کیا ہمارے الفاظوں نے کسی کے جذبات کو مجروح تو نہیں کیا۔ کیا ہمارا مذاق کسی کی ہنسی کا باعث بنا یا پھر رسوائی کا باعث یہ وہ تمام تر سوالات ہیں جن کے جواب ہمیں معلوم ہیں مگر ہم نے کبھی یہ سوال اپنے آپ سے کیے نہیں۔


ہم اپنے راستے خود چنتے ہیں اور پھر یہ راستے کسی جگہ الجھ جائیں تو پھر زندگی کو یا پھر قسمت کا رونا روتے ہیں۔ زندگی تو ہمیں بہت کچھ دیتی ہے، ہمیں خوبصورت اور دائمی رشتے دیتی ہے۔ زندگی ہم سے تو صرف یہ چاہتی ہے کہ ہم زندگی کو سچائی دیں اپنی مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی برداشت دیں۔ ہم زندگی کو اپنے صبر کی وہ روشنی دیں جو تاریک دور میں بھی ہمارا حوصلہ بڑھاتی ہے، جب ہم ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کریں گے تو زندگی خود بخود اچھی لگنے لگ جائے گی۔


زندگی ایک بار ہی ملتی ہے اور اس کی قدر یہ نہیں کہ ہم اسے نفرتوں، کدورتوں کی تاریکیوں میں غرق کر دیں بلکہ اس کی حقیقی قدر یہ ہے کہ ہم اسے امن اور محبت کا گہوارہ بنائیں ۔ اپنے اخلاقیات کو اتنا مضبوط بنائیں کہ ہماری پیٹھ پیچھے لوگ ہمارے اخلاق اور اعلیٰ ظرف کی تعریف کریں۔ رشتوں کا احترام ہمارے لیے سب سے بڑھ کر ہے بزرگوں اور ماں باپ کی خدمت وہ ثمر ہے جس کی مٹھاس ساری زندگی ملتی رہتی ہے۔ ہماری تعلیم محض ہماری ڈگریوں سے نہیں بلکہ شخصیت کی تعلیم سے عبارت ہے کہ ہمارا حسن سلوک دوسروں سے کیا ہے ہمارا لب و لہجہ اپنوں اور غیروں کے لیے کیا ہے۔


انسان سے غلطیاں اور خطائیں نا چاہتے ہوئے بھی سر زد ہو جاتی ہیں مگر اپنی غلطیوں پر پشیمان ہونا اور اپنی خطاؤں سے سبق سیکھنا بہت ہی نیک شگون بات ہے۔ اپنی مختصر سی زندگی گزارتے بس یہی خیال رکھیں کہ اپنی ذات سے کسی کو بھی نقصان نہ پہنچائیں بلکہ سب سے محبتیں بانٹیں کیونکہ یہی زندگی کی سچائی ہے۔


افتخار احمد سیفی 03234837048